ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوم چومسکی نے کہا تھا کہ جمہوریت کو کمزور کرنے کا سب سے موثر طریقہ یہ ہے کہ فیصلہ کن طاقت ایسے اداروں کو سونپ دی جائے جو احتساب سے بالا تر ہوں۔ جیسے بادشاہ ، شہزادے، مذہبی رہنما ، فوجی حکمران اور جدید کارپوریشنزیعنی صنعتی ادارے۔جہاندیدہ نوم چومسکی نے غلط نہیں کہا تھا
اگر زرا غورکریں تو بلاشبہ یہ شخصیات اور ادارے احتساب سے بالا تر ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی صاحبزادی بے نظیر بھٹو شہید سے ایک بار کہا تھا کہ مجھے خوشی ہے کہ تم سیاست کی طاقت کو سمجھ گئی ہو مگر طاقت کی سیاست کو سمجھے میں تمہیں ابھی وقت لگے گا اور جس دن محترمہ نے طاقت کی سیاست کو سمجھ لیا تو یہ آگہی جان لیوا ثابت ہوئی۔
جن کے پاس طاقت ہوتی ہے وہ ہر قانون سے بالاتر ہوتے ہیں۔احتساب ان کے کہنے پر ہوتا ہے مگر ان کا احتساب نہیں ہوسکتا۔جہاں ایسے حالات پیدا جائیں تووہاں پر جمہوریت محض پتلی تماشہ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی اور ایسی جمہوریت میں حکمران محض پتلی سے زیادہ کچھ نہیں ہوتے۔ اس کی دلیل سابق وزیراعظم میر ظفراللہ جمالی کا مستعفی ہونے کے بعد ایک سوال کا جواب تھااور وہ یہ کہ جو آپ کو لے کر آتے وہی آپ کو گھر بھیج دیتے ہیں
میرظفراللہ جمالی نے کن لانے والوں اور گھر بھیجنے والوں کا ذکر کیا تھا۔کیا یہ عوام تھی اگر یہ عوام نہیں تھی تو پھر کون تھا۔کیوں کہ کوئی تو ہے جو چلا رہا ہے اس نظام سیاست کو ان امور مملکت کو۔کوئی تو ہے جو تاج وتخت کا فیصلہ کرتا ہے۔
کوئی تو ہے جو صبح کے تخت نشینوں کو شام کو مجرم قرار دے دیتا ہے۔کوئی تو ہے جو صرف دور اقتدار ہی نہیں بلکہ دور حیات کی مدت کا بھی تعین کرتا ہے۔کوئی تو ہے جو یہ بھی طے کرتا ہے کہ کون، کب اور کیسے تخت سے اترے گا اور اس بات کا فیصلہ بھی کرتا ہے کہ کون ، کب اور کیسے تختہ دار پر چڑھے گا اور کتنی دیر جھولے گا۔یہ جو بھی ہے خود سے اختلاف کرنے والے کو برملا کہتا ہے وہ کب ، کہاں اور کیسے مارا جائے گا اس کو خبر تک نہیں ہوگی۔
یہ وہی ہے جو کروڑوں عوام کے مقدر کا فیصلہ کرتا ہےاور عوام کو یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے فیصلے خود کررہے ہیں۔اپنے دکھوں اور تکالیف کے سدباب کی خاطر اپنے مسیحا کا انتخاب خود کررہے ہیں۔کتنے سادہ دل ہیں جس عطار کے لونڈے کے سبب بیمار ہوتے ہیں اسی کو مسیحا سمجھ رہے ہوتے ہیں
اپنے دکھوں کا مداوا کرنے کی خاطر کسی مسیحا کی تلاش میں یہ بھیڑیں 2011 میں بھی مینار پاکستان پر جمع ہوئیں۔جم غفیر کے سامنے میسحا کے روپ میں سامنے آنے والا سب سے بلند مقام پر کھڑے ہوکر برابری کا درس دے رہا تھا۔
دکھوں کا علاج بتا رہا تھا اور سامنے کھڑے کم نصیب سمجھ رہے تھے کہ اب دن بدلنے والے ہیں۔2018 میں تخت نشین بدلے نیا پاکستان بن گیا مگرجالب کے مطابق دن فقط وزیروں کے بدلے۔مسیحا اور اس کے حواریوں کے تمام تر معاشی ترقی کے دعووں کے باوجود آج بھی دیس کا ہر بلاول پہلے سے زیادہ مقروض ہے آج بھی پاوں ننگے ہیں بے نظیروں کے۔
عجب طرز حکمرانی دیکھی کہ ہر سوال کا ایک ہی جواب ملتا ہے کہ گزشتہ ستر سالوں کا حساب مجھ سے مت لیں۔ماضی کے چور ڈاکووں نے جس طرح قافلہ لوٹا اس کا حساب میں کیوں دوں۔ ایکسی لینسی درست فرمایا کسی کا بویا آپ کیوں کاٹو مگر اس دور زریں کے ابتدائی دو سال میں فاقوں کی نوبت کو پہنچنے والی عوام شہاب جعفری کا یہ مصرعہ مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے اگر گنگنا دیں تو سماعت پر کہیں گراں تو نہیں گذرے گا جان کی امان تو مل جاے گی نا۔
مگر گزشتہ روز مینار پاکستان کے ساے تلے مدعا گنگنانے کی منزل سے آگے بڑھ کر نوحے میں تبدیل ہوگیا۔مسیحا کی تلاش میں دربدر بھٹکتی اس قوم کا ایک جم غفیر جمع ہوا۔یخ بستہ ہواوں اور جما دینے والی سردی میں بھی بہتر مستقبل کی آس پر یہ جم غفیر جان لیوا موسم کے مدمقابل رہا۔
اسٹیج پر موجود ہر چہرے میں اپنا مسیحا کھوجتا رہا اوربالآخر اپنے مسیحا کو تلاش کرلیا۔یہ مسیحا کون ہے یہ مسیحا وہ ہےجس کا زکر ہر مقرر نے اپنے خطاب میں کیا اور ہر قائد نے اس میسحا کو اپنا لیڈر تسلیم کیا اور اس کی رہنمائی میں چلنے کا عہد کیا ۔یہ مسیحا اس ملک کا دستور ہے آئین ہے۔
ازلی حقیقت ہے کہ آئین کو رہبر مان کر اُس کے پیچھے چلنے والی قومیں کبھی گمراہ نہیں ہوئیں ،کبھی راہ سے نہیں بھٹکیں۔صد شکر کہ مسیحا کی تلاش مکمل ہوئی اب منزل تک پہنچنا باقی ہے
اور میسحا کے بعد اب منزل بھی زیادہ دور نہیں ہے۔اس ضمن میں پی ڈی ایم قائدین کا جاتی امرا میں اجلاس ہوا جس کے بعد اعلان لاہور ہوا اورکہا گیا کہ حکومت 31 جنوری تک مستعفی ہوجائے وگرنہ یکم فروری کو لانگ مارچ کا اعلان ہوگا۔پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کےریاست پر بالادستی کےعزائم نے73سالوں سےملک کومستحکم نہیں ہونے دیا اور پی ڈی ایم جماعتیں سیاست سےاسٹیبلشمنٹ اورانٹیلی جنس کےاداروں کی مداخلت ختم کریں گی۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اب مذاکرات کا وقت ختم ہوگیاہے اب اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ ہوگا۔
رہی بات کہ لاہور کے جلسہ میں کتنے لوگ تھے تو اس پر قابل احترام نورالہدیٰ شاہ صاحبہ کہتی ہیں کہ جلسےمیں کتنےآدمی تھے؟ یہ ایک بےمعنی سوال ہے آدمیوں کی گنتی اصل معاملہ ہےہی نہیں آدمی ہٹلر بھی جمع کرلیتاتھا آدمی حملہ آورلشکر میں بھی بہت ہوتے ہیں اصل معاملہ یہ ہےکہ غیرآئینی غلامانہ نظام سےانکارمیں چند لوگ ہی سہی، ہم آواز ہوئےکہ نہیں۔
گر چند لوگ بھی ہم آواز ہوئے، تو بس آگے بڑھیے۔ جبکہ سینئر صحافی وجاہت مسعود کا لاہور جلسہ پر موقف ہے کہ آج لاہور کا جلسہ ایک تاریخی میدان میں ایک تاریخی اجتماع ہے۔ یہاں ہم نے بیرونی حکمرانی سے آزادی کا مطالبہ کیا تھا۔ بے نظیر بھٹو کو پاکستان میں خوش آمدید کہا۔ اہل لاہور آج یہاں آزادی کے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کا مطالبہ کریں گے۔ شفاف، دستوری اور وفاقی جمہوریت۔
برائے رابطہ 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر