جام ایم ڈی گانگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم قارئین گذشتہ دنوں اچانک وفات پا جانے والے رحیم یار خان کے معروف ڈاکٹر کامران خان جوکہ اپنی سماجی اور سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے بھی عام ڈاکٹروں کی نسبت زیادہ مشہور شخصیت کے حامل انسان تھے.
کئی دنوں میں سوشل میڈیا پرپڑھ اور دیکھ رہا ہوں کہ ان کے عاجزانہ مزاج اور ملنساری کے حوالے سے شہریوں کی رائے اور جذبات نے اس پر مُہر تصدیق ثبت کر دی ہے.
گذشتہ سے پیوستہ روز مرحوم ڈاکٹر کامران خان کی اہلیہ کی پریس کانفرنس نے ان کی موت اور شیخ زاید ہستپال کے اندرونی حقائق و معاملات کے حوالے سے کئی سوالات اٹھا دیئے ہیں.
میں سمجھتا ہوں کہ ان کے الزامات کے پیش نظر ذمہ دار لوگوں پر مشتمل ایک غیر جانبدارانہ انکوائری اسٹینڈ کی جائے تاکہ اصل صورت حال سامنے آسکے کہ مسئلہ شیخ زاید ہسپتال میں علاج کے حوالے لیپس اور کوتاہیوں کا معاملہ یا بات کچھ اور ہے.
کیونکہ ان کی پریس کانفرنس کے بعد ڈاکٹر کامران خان کے بڑے بیٹے ڈاکٹر سلمان کی ایک ایسی پوسٹ بھی سامنے آ چکی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ُ ُ میں ڈاکٹر سلمان، ڈاکٹر کامران شہید کا بڑا بیٹا ہونے کے ناطے آپ سب کو بتانا چاہتا ہوں کہ میری والدہ میرے باپ کی کل جائیداد کی اکیلی مالک بننا چاہتی ہےاس لیے ہم دونوں بھائیوں کو کل گھر سے نکال دیا. میری والدہ نے تمام ڈاکٹروں کی ہدایت کے خلاف ان کا علاج اپنے کلینک پر خود کیا اور چھ دن ضائع کیے.
اب یہ الزام میرے پر لگایا جا رہا ہے کہ میں نے زہر کے ٹیکے لگائے ہیں. ہم یتیم بھائیوں کے لیے دعا کریں. ٗ ٗ
ڈاکٹر تسسنیم کامران خان نے اپنی پریس کانفرنس میں کیا کہا، کیا کیا الزامات اور کن کن پر لگائے مزید بات کرنے سے پہلے اسے پڑھنا اورسمجھنا ضروری ہے.
ُ ُ شیخ زید ہسپتال رحیم یارخان میں کرونا کے مریضوں کا علاج نہیں ہو رہابلکہ یہ مقتل گاہ بنی ہوئی ھے۔
اچھے بھلے لوگوں کوکرونا وراڈ میں ڈال کر مریضوں کو قتل کیا جارہا ھے وزیراعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب و دیگر ذمے داران فوری نوٹس لیں.رحیم یار خان کے معروف صحافیوں جاوید اقبال اور نور محمد سومرو کی رپورٹنگ کے مطابق اس کی تفصیلات کچھ اس طرح ہیں:
سابق ڈینٹل سرجن ڈاکٹر کامران خان مرحوم کی اھلیہ وسابق ایم ایس شیخ زید ہسپتال ڈاکٹر تسنیم کامران کی میڈیا سے گفتگو یہ شیخ زید میڈیکل کالج و ہسپتال کی سابق ایم ایس معروف گائناکالوجسٹ و پی ٹی آئی کے بانی رہنما ڈاکٹر کامران خان مرحوم کی بیوہ ڈاکٹر تسنیم کامران نے اپنی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر کامران خان کی موت شیخ زید ہسپتال کے ناتجربہ کار عملہ کی غفلت کے باعث ہوئی موت سے چند گھنٹے قبل تک وہ بلکل ٹھیک تھے موت کے وقت کوئی سینئر ڈاکٹر وارڈ میں موجود نہیں تھا
ایک تو نا تجربہ کار عملہ نے وینٹیلیٹر پر ڈالنے کی ناکام کوشش کی دوسرا انہیں جو ایکٹمرا نامی انجیکشن لگایا گیا وہ بلاجواز تھا جو انکی موت کا سبب بنے انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر کامران مرحوم نے 25 سال پی ٹی آئی کا پرچم اور عمران خان کا دامن تھامے رکھا میں انکی بیوہ ہوکر مطالبہ کرتی ہوں کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان واقعہ کی انکوائری کراتے ہوئے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کریں
انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار اور وزیر صحت پنجاب یاسمین راشد کے دور میں پنجاب کے ہسپتالوں اور شعبہ صحت کی صورتحال انتہائی خراب ہو چکی وہ جب شیخ زید ہسپتال کی ایم ایس اور میاں شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے تو ہسپتالوں میں وینٹیلیٹرز سمیت علاج و معالجہ کی مفت اور بہترین سہولیات میسر تھیں ڈینگی جیسے خطرناک مرض کا بھی باآسانی علاج دستیاب تھا مگر آج کورونا کے مریضوں کو ہسپتال میں داخل کرنے کے بعد بے یارومددگار چھوڑ دیا جاتا ہے.
ھم دونوں میاں بیوی کو اکٹھے کورونا ہوا تھا انکی پراسرار موت کی اعلیٰ سطحی انکوائری ہونا لازم ہے رابطہ کرنے پر شیخ زید ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر آغا توحید احمد خان نے بتایا کہ کورونا سمیت ہسپتال میں زیر علاج تمام وارڈز کے مریضوں کی مکمل اور حکومتی ہدایات کے مطابق دیکھ بھال اور علاج و معالجہ کی بہترین سہولیات فراھم کی جاتی ہیں ڈاکٹر کامران خان کی موت کورونا کے باعث ہوئی انکی زندگی بچانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن اللّٰہ کی رضا کے سامنے انسان بے بس ہے
. ٗ ٗ
محترم قارئین کرام،،. مجھے تو طریفین کے نقطہ نظر کو جاننے کے بعد معاملہ گھر سے ہسپتال اور ہسپتال سے قبرستان اور گھر کےدرمیان الجھا الجھا اور کئی جگہوں پر بگڑا ہوا نظر آ رہا ہے.
بہرحال انکوائری میں دونوں پہلوؤں سے تفتیش و تحقیق کی ضرورت ہے. ہستپال اور کرونا علاج کی سہولیات، طریقہ کار اور ڈاکٹروں کے رویوں و سلوک کو بھی دیکھا جائے. کیونکہ ہمارے ہسپتالوں میں بھی بہت کچھ ہو رہا ہے اور بہت کچھ ہو جاتا ہے.لیکن یہ بھی سوچنے والی بات ہے کہ مریض خود معروف ڈاکٹر ہو،
اس کی بیگم اسی ہسپتال کی سابق ایم ایس رہی ہو، مریض کابیٹا بھی ڈاکٹر ہو تو ایک ہستپال میں ایسے مریض کے ساتھ اس قدر کوتاہی سمجھ میں نہیں آتی. اگر واقعی ایسا ہے تو پھر آنکھیں بند کر ڈاکٹر تسنیم کامران کی بات کو تسلیم کرنا پڑے گاکہ ہسپتال کرونا کے مریضوں کے لیے واقعی قتل گاہ بنی ہوئی ہیں.
ڈاکٹر کامران خان مرحوم کے جائیداد کے ورثاء کے باہمی معاملات اور اختلافات کا بھی جائزہ لیا جائے.جائیداد کے حصول کی لالچ میں بھی ہمارے معاشرے میں ایسے ایسے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے کہ انسان کانپ اٹھتا ہے.
اسے رشتوں سے ڈر اور خوف محسوس ہونے لگتا ہے.جہاں معاملہ سوتیلی ماں یاسوتیلی اولاد کا ہو یا سوتیلے باپ کا وہاں تو حالات و واقعات میں تلخی و دلخراشی مزید گہری اور گھناؤنی ہو جایا کرتی ہے.ڈی پی او رحیم یار خان اسد سرفراز اور دیگر مرئی و غیر مرئی تحقیقاتی ایجنسیوں کو اپنے اپنے طور پر از خود اس کیس کا نوٹس لے کر اصل حقیقت کو سامنے لانا چاہئیے.
جہاں تک مجھے معلوم ہو سکا ہے فیصل آباد کے الائیڈ ہسپتال میں نیورو سرجن ڈاکٹر سلمان، ڈاکٹر تسنیم اور ڈاکٹر کامران خان کا حقیقی بیٹا ہے.ماں بیٹے کے باہمی تعلقات پہلے سے ہی کشیدہ سے ہیں.ڈاکٹر سلمان عقل کریں گھریلو اختلافات اپنی جگہ لیکن اپنی والدہ پر انگلی اٹھانے سے قبل آپ کو سوچنا چاہئیے تھا کہ آپ کے باپ کی جائیداد شرعی اصولوں کے مطابق آپ سمیت سب ورثاء میں تقسیم ہو گی. مجھے تو آپ پڑھے لکھے بھٹکے ہوئے آدمی لگتے ہو.
سنا ہے کہ ڈاکٹر کامران خان کا ایک لے پالک بیٹا ایمان بھی ہے. سبق سیکھنے والوں کے لیے اس میں کئی سبق موجود ہیں. خاص طور پر مغربی تہذیب کی تقلید کرنے والے خاندانوں کے لیے. اسی رنگ و ڈھنگ سے اولاد کی تربیت کرنے والوں کے لیے. ہمیں معلوم ہونا چاہئیے کے جدید تعلیمی اداروں میں ہمارے بچوں کو کیا کیا سکھایا پڑھایا اور ترتیب دی جا رہی ہے. سکولوں کے تعلیمی نصاب و کورسز میں سے کیا نکالا اور کیا داخل کیا جا رہا ہے.
یقین کریں عبرت پکڑنے والوں کے لیے اپنی زندگیوں کو راہ راست پر لانے کی ہدایات موجود ہیں. بشرط یہ کہ ہم اپنی بیرونی اور اندرونی آنکھوں کو کھول کر ایسے واقعات کو دیکھیں پڑھیں اور سنیں.ایک دوسرے کے بارے میں ہم بہت کچھ جانتے ہوئے بھی یقینا بہت کچھ نہیں جانتے لیکن اللہ تعالی سب کچھ جانتا ہے.وہ بہت بڑا حکمت والا ہے. اللہ تعالی کے امتحان اور فیصلے ہماری سمجھ سے بہت ہی آگے ہوتے ہیں. آخر میں میری دعا ہے کہ اللہ تعالی ڈاکٹر کامران خان کی اپنے حبیب مصطفیٰ ص کے صدقے بخشش فرمائے آمین.
یہ بھی پڑھیے:
مئی کرپشن ہم کدھر جا رہے ہیں؟۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (1)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (2)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
پولیس از یور فرینڈ کا نعرہ اور زمینی حقائق۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون میں شائع مواد لکھاری کی اپنی رائے ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ