۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم اپنی بات کا آغاز فوادچودھری کے گذشتہ دِنوں کیے گئے ٹویٹ سے کرتے ہیں۔اُن کا کہنا تھا کہ ’’ایسی شخصیات جو حکومت اور اپوزیشن میں احترام کی نظر سے دیکھی جاتی ہیں ،وہ آگے آئیں اور مذاکرات کے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں تاکہ تلخیاں کم ہوں کیونکہ ایسا ہونا ملک کے لیے ضروری ہے‘‘فواد چودھری نے ٹویٹ اس لیے کی کہ ملک میں سیاسی تعطل پیداہوچکا ہے۔
پی ڈی ایم کا احتجاج اگلے مرحلوں میں داخل ہونے والا ہے ،جس کی کسی حدتک حکومت اور اس ملک کے باشعور عوام کو تشویش ہے۔ملک کے باشعور عوام ،جن میں بڑی تعداد کاروباری طبقہ کی ہے ،سیاسی استحکام کے متقاضی ہیں۔فوادچودھری اُن لوگوں کے نام بھی بتادیتے جو اُن کی پارٹی کے قابلِ احترام لوگ ہیں ؟
سیاسی سطح پر وہ گرداُڑائی گئی کہ احترام کی قدر اُس میں کہیں گم ہو چکی ہے۔یہ گرد اُڑانے میں پی ٹی آئی کے نامی گرامی سیاست دانوں کا زیادہ ہاتھ ہے۔یہاں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ مسلم لیگ ن کے رہنمائوں کا اس میں کوئی کردار نہیں ۔لیکن ہم زیادہ ذمہ داری حکومت سے وابستہ افراد پر ڈالنے میں اس لیے حق بہ جانب ہیں کہ اقتدار اِن کے پاس ہے۔
اگر ہم یہ دیکھیں کہ حکومت کے پاس ایسے کون سے لوگ ہیں جو موجودہ سیاسی تعطل کو مذاکرات کے ذریعے حل کروانے میںاپنا کردار اداکرسکتے ہیں؟تو ہم سوچ میں پڑ جائیںگے۔جس وقت فواد چودھری نے ٹویٹ کیا ،اُس وقت وزیرِ اعظم آفس کی جانب سے وفاقی کابینہ میں ردوبدل کی خبر سامنے آئی ،یہ خبر پی ٹی آئی کے ڈھائی سال کے عرصہ میں تیسری بارآئی ہے۔
وفاقی کابینہ میں یہ تبدیلیاں ایسے وقت میں کی گئیں،جب پی ڈی ایم دودِن بعد لاہور میں جلسہ کرنے جارہی تھی۔اِن تبدیلیوں کی اہم بات ،شیخ رشید احمد کا وزیرِ داخلہ بننا ہے۔شیخ رشید احمد جس انداز سے اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں پر تنقید کرتے چلے آرہے تھے ،اُس تناظر سے دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن کے رہنما جاوید لطیف کا یہ کہنا کہ ’’شیخ رشید کو وزیرِداخلہ اس لیے بنایا گیا تاکہ پی ڈی ایم کی حکومت مخالف مہم سے سختی سے نمٹا جاسکے اور تحریک کے احتجاجی مظاہروں میں شامل ہونے والے لوگوں کے خلاف لاٹھی چارچ اور دیگر پُرتشددحربے آزمائے جا سکیں‘‘جائز ٹھہرتا ہے۔
گذشتہ دِنوں سیالکوٹ میں وزیرِ اعظم عمران خان نے پی ڈی ایم کو مذاکرات کی دعوت دی تھی۔ مذاکرات کی دعوت دینے کے بعد شیخ رشید کو وزارتِ داخلہ کا منصب دینا ایک مناسب فیصلہ نہیں لگتا،اگر وفاقی کابینہ میں تبدیلیاں ناگزیر بھی ہو چکی تھیں تو اُس کے لیے قدرے بہتر وقت کا انتظار کیا جاسکتا تھا۔
جیسے جیسے پی ڈی ایم کے ساتھ حکومت کی تلخی بڑھتی جارہی ہے ،ویسے ویسے سیاسی ہنگامہ آرائی کا امکان بھی بڑھتا جارہا ہے ،مستزاد شیخ رشید کو وزیرِ داخلہ بنادینا،اس امکان کو مزید تقویت دیتا ہے۔بعض سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ شیخ رشید کو وزیرِ داخلہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں سے کسی طور مذاکرات نہیں کرنا چاہتی ۔
مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات کے بعد سے لمحہ موجود تک شیخ رشید احمد کے پی پی پی ،پی ایم این کے رہنمائوں اور جمعیت علمائے اسلام ف کے مولانا فضل الرحمن سے تعلقات خاصے کشیدہ چلے آرہے ہیں ،مسلم لیگ ن کے دور میں شیخ رشید کے ساتھ پارلیمنٹ کے اجلاس میں ،پارلیمنٹ کے باہر خاصا تضحیک آمیز سلوک کیا گیا تھا ،جب ایک شخص نے رولا ڈال دیا تھا کہ شیخ رشید ،اُس کا قرض نہیں لوٹارہے ،صاف ظاہر ہے کہ یہ ن لیگ کی شرارت تھی۔یہ واقعہ پی ایم ایل این کی جانب سے شیخ رشید کے ساتھ بدترین نفرت کا اظہاریہ تھا۔
ابھی چند ماہ قبل بلاول بھٹو زرداری نے بھی اعلان کیا کہ اگرکسی اجلاس میں شیخ رشید ہوں گے ،تو وہ اُس میں شامل نہیں ہوں گے۔بلاول بھٹو زرداری کے حوالے سے شیخ رشید جس طرح کی گفتگو کرتے رہتے ہیں ،وہ سب کے سامنے ہے۔قصہ کوتاہ ،ایسے حالات میں جب سیاسی کشیدگی روزبہ روز بڑھتی چلی جارہی ہے ،وفاقی کابینہ میں تبدیلیاں اور شیخ رشید کو وزارتِ داخلہ کا منصب دینا ،کشیدگی میں مزید اضافہ کا باعث ٹھہرسکتا ہے۔
حکومت میں شامل کچھ لوگوں نے اپنے گفتار وعمل سے اپنی کریڈیبلٹی کو نقصان پہنچایا توکچھ کو حکومت نے خود بے وقار کیا۔گذشتہ روز وزیرِ اعظم فرمارہے تھے کہ حکومت سنبھالنے کے بعد فوری طورپر آئی ایم ایف کے پاس نہ جاکر ہم نے غلطی کی۔صاف ظاہر ہے کہ غلطی اُس وقت کے وزیرِ خزانہ اسد عمر پر ڈالی جاتی ہے ،اس وقت وہ وفاقی وزیرِ خزانہ نہیں ہیں ۔
اسی طرح مذاکرات کے ماہر سمجھے جانے والے جہانگیر ترین بھی فاصلہ اختیار کر چکے ہیں،جہانگیر ترین کے معاملے میں زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ اِن کے ساتھ زیادتی کی گئی ۔تاہم اس وقت بھی پاکستان تحریکِ انصاف کے پاس کئی لوگ ایسے ہیں جو آگے بڑھ کر اس کشیدگی کو ختم کرنے میں اہم کردار اداکرسکتے ہیں ۔
اُن میں ایک اہم نام خود فواد چودھری کا ہے۔فواد چودھری ایک ایسے سیاست دان ہیں ،جن کا اپوزیشن جماعتوں میں بھی احترام ہے ۔اس احترام کا مظاہرہ ،ٹی وی ٹاک شوز میں بھی دکھائی دیتا ہے۔
ٹی وی ٹاک شوز میں اپوزیشن رہنما ،فواد چودھری کے ساتھ خود کو آرام دِہ محسوس کررہے ہوتے ہیں۔فواد چودھری کو چاہیے کہ وہ اپنی پارٹی کے اندر کچھ اہم لوگوں کو اپوزیشن جماعتوں سے بات چیت کے لیے تیار کریں،وہ ایسا کرسکتے ہیں کیونکہ وہ مذاکرات کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور اس وقت کے غیر معمولی حالات کی نزاکت کا بھی بہ خوبی احساس رکھتے ہیں۔فواد چودھری اس وقت وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی ہیں۔اِن کی وزارت بھی ایک بارتبدیل ہوچکی ہے۔
اُن سے وفاقی وزارت برائے اطلاعات کا قلم دان لے کر فردوس عاشق اعوان کو سونپا گیاتھا،اس وقت اِن کی وزارت کو نہیں چھیڑا گیا۔حالانکہ اِن کی وزارت چینج کرنے کا یہ درست وقت تھا۔فوادچودھری کو سوچنا چاہیے کہ وہ وزیرِ داخلہ کیوں نہیں بن سکتے؟کہیں اُن کو اپنا لہجہ بدلنے کی ضرورت تو نہیں؟یقیناً وہ کسی اہم وزارت کے لیے بھی اپنا لہجہ نہیں بدلیں گے۔
یہ بھی پڑھیے:
بندگلی میں دَم کیسے گھٹتا ہے؟۔۔۔احمد اعجاز
حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ