آفتاب احمد گورائیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ے بٹ کو گرفتار کرکے ناجائز اسلحے کا کیس بھی بنا دیا گیا جس میں ڈی جے بٹ کو ضمانت کروانا پڑی۰ اس کے علاوہ جلسے سے پہلے ریلیاں نکالنے والے رہنماوں اور کارکنوں کے خلاف بھی مقدمے قائم کئے گئے ہیں۰ پنجاب اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید حسن مرتضی کی رہائش گاہ پر بھی پولیس کی بھاری جمعیت کے ساتھ چھاپہ مارا گیا لیکن سید حسن مرتضی گھر پر موجود نہ ہونے کی وجہ سے گرفتار نہ ہو سکے۔
ایوب آمریت کے خلاف بھٹو صاحب نے ناصر باغ میں جلسے کا اعلان کیا لیکن حکومت نے جلسہ روکنے کے لئے جلسہ گاہ میں پانی چھوڑ دیا جس پر جلسہ موچی دروازے منتقل کرنا پڑا۰ تاریخ شاہد ہے کہ موچی دروازے کا وہ جلسہ بعد میں نویدِ انقلاب بن گیا جس نے ایوبی آمریت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۰
حکومت کو سوچنا چاہئے کیا مینار پاکستان کی گراونڈ میں پانی چھوڑنے، کارکنوں پر مقدمات اور ڈی جے بٹ کو گرفتار کرنے سے کیا جلسہ رُک جائے گا؟ جیسے ملتان کا جلسہ نہیں رُک سکا تھا ویسے لاہور کا جلسہ بھی نہیں رُک سکے گا اور جیسے ملتان کے جلسے پر حکومت کو سُبکی کا سامنا کرنا پڑا تھا ویسے ہی اب حکومت کو لاہور کے جلسے پر ندامت اٹھانی پڑے گی۰
حکومت ایک طرف تو پی ڈی ایم کو چیلنج کر رہی ہے کہ مینار پاکستان کی گراونڈ کو بھر کر دکھائے دوسری جانب جلسے کے انتظامات میں رکاوٹیں کھڑی کرنا اور سیاسی کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن جیسے ہتھکنڈے استعمال کرنا منافقت نہیں تو اور کیا ہے۰
پچھلی حکومتیں اس لحاظ سے کہیں زیادہ بڑے ظرف کی مالک تھیں جن کے دورِ حکومت میں تحریک انصاف ہر ہفتے بغیر کسی رکاوٹ کے کسی نہ کسی شہر میں جلسے کیا کرتی تھی، ایک سو چھبیس دن کا دھرنا، پارلیمنٹ پر حملہ، پارلیمنٹ کے جنگلے توڑنا اور پی ٹی وی کی عمارت پر قبضے جیسے انتہائی اقدامات سب تاریخ کا حصہ ہیں لیکن آج وہی تحریک انصاف اپنے مخالفین کو ایک جلسے کی اجازت دینے پر بھی تیار نظر نہیں آتی۰
جمہوریت کی دعوے دار حکومت کی جانب سے آمریت اور فسطائیت سے بھرپور اقدامات اس نام نہاد سلیکٹڈ حکومت کے دامن پر سیاہ دھبہ ہیں۰
لاہور کے جلسے کے بعد پی ڈی ایم کی تحریک جلسوں سے نکل کر ایجی ٹیشن یعنی فیصلہ کُن مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۰ اس مرحلے میں شٹر ڈاؤن، پہیہ جام، لانگ مارچ اور اسمبلیوں سے استعفوں سمیت سارے آپشن استعمال ہوں گے۰ آٹھ دسمبر کو ہونے والے والے پی ڈی ایم اجلاس کے بعد اکتیس دسمبر تک استعفے پارٹی سربراہان کے پاس جمع ہونے ہیں اور پھر جنوری میں لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا ہے۰ اس کے علاوہ بھی پی ڈی ایم کے پاس حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لئے بہت سے سرپرائزز موجود ہیں جو وقت آنے پر سامنے لائے جا سکتے ہیں۰
اپوزیشن کی جانب سے استعفوں اور لانگ مارچ کے اعلانات کے بعد ایسے اشارے بھی مل ہیں کہ شائد طاقتور حلقوں کی طرف سے حکومت کو کہا جا رہا ہے کہ اپوزیشن کو انگیج کریں تاکہ اپوزیشن انتہائی اقدام اٹھانے سے باز رہے۰
شائد یہی وجہ ہی کہ اب وزیراعظم کی طرف سے بھی کہا جا رہا ہے کہ جمہوریت بات کرنے سے آگے چلے گی لیکن وزیراعظم اور حکومت نے یہاں تک پہنچتے پہنچتے کافی دیر کر دی ہے اور اب اپوزیشن اس حکومت کے ساتھ کسی قسم کی کوئی بات کرنے کو تیار نہیں ہے۰ اپوزیشن کا کسی بھی قسم کے مذاکرات سے پہلے وزیراعظم کے استعفی اور اداروں کی اقتدار کے کھیل سے مکمل علیحدگی کا مطالبہ حکومت کے لئے پورا کرنا نہایت مشکل ہو گا جبکہ اپوزیشن ان دو مطالبات کی منظوری کے بغیر مذاکرات کی میز پر آنے کے موڈ میں نہیں لگتی۔
انفرادی پیغامات بھی کئی جماعتوں کو آرہے ہیں بہت کچھ آفر بھی کیا جارہا ہے لیکن کوئی بھی جماعت اب یہ دانہ چُگنے کو تیار نظر نہیں آتی۰ گلگت بلتستان الیکشن سے پہلےمبینہ طور پر پیپلزپارٹی کو آفر کی گئی کہ اگر پیپلزپارٹی پی ڈی ایم سے علیحدگی اختیار کر لے تو الیکشن میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی اور پیپلزپارٹی کی حکومت بننے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔
پیپلزپارٹی کے انکار کے بعد جس طرح گلگت بلتستان میں بھی دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن کی تاریخ دہرائی گئی اور الیکشن نتائج کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے کہ سب سے زیادہ ووٹ تو حاصل کرتی ہے پیپلزپارٹی اور سیٹیں ملتی ہیں صرف تین جبکہ تحریک انصاف کہیں کم ووٹوں کے ساتھ آٹھ سیٹیں حاصل کر لیتی ہے اور اس سے بھی کم ووٹوں کے ساتھ سات آزاد اراکین کامیاب ہو کر تحریک انصاف کے ساتھ مِل جاتے ہیں۰ پیپلزپارٹی کی جیت کو جس طرح ہار میں بدل دیا گیا وہ الیکشن دھاندلی کی تاریخ میں ایک مزید شرمناک باب کا اضافہ ہے۔
حکومت اور وزیراعظم کی جانب سے ایک طرف تو پی ڈی ایم کو مذاکرات کا عندیہ دیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ جمہوریت کی خاطر دونوں فریقین کو مل بیٹھ کر بات کرنی چاہئے اور تو اور اب وزیراعظم اس بات پر بھی تیار ہو گئے ہیں کہ وہ اسمبلی میں آکر اپوزیشن کے سوالوں کا جواب دینے کے لئے بھی تیار ہیں لیکن دوسری طرف شیخ رشید جیسے شخص کو وزارتِ داخلہ کا قلمدان سونپ کر پی ڈی ایم کا لانگ مارچ روکنے کا ٹاسک دے دیا گیا ہے۰
اس فیصلے سے وزیراعظم کا یہ دعوی کہ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ میں نے کس کھلاڑی کو کس پوزیشن پر کھلانا ہے اس کی بھی نفی ہوتی ہے کیونکہ شیخ رشید کے پاس نہ تو وزارتِ داخلہ جیسی اہم وزارت چلانے کا کوئی تجربہ اور اہلیت ہے اور نہ ہی شیخ رشید میں وہ سنجیدگی موجود ہے جو وزارتِ داخلہ جیسی حساس وزارت چلانے کے لئے ضروری سمجھی جاتی ہے۰ پتہ نہیں کس نے وزیراعظم کو یہ غلط ترین مشورہ دیا ہے کیونکہ شیخ رشید کی تو صرف ایک ہی اہلیت ہے اور وہ ہے غلیظ زبان کا استعمال۰ اگر سلیکٹڈ حکومت میں زبان چلانے کو ہی کسی وزارت کا معیار سمجھا جاتا ہے تو پھر بہتر ہوتا کہ شیخ رشید کو وزیر اطلاعات بنا دیا جاتا اور وزارتِ داخلہ کسی اہل اور سنجیدہ شخص کو سونپ دی جاتی۔
پی ڈی ایم کی تحریک کے فیصلہ کُن مرحلے میں ہونے والے لانگ مارچ اور اسمبلیوں سے استعفوں کے بعد حکومت اور اپوزیشن میں یقینی طور پر ڈیڈ لاک کی صورتحال پیدا ہونے کا اندیشہ بڑھتا جا رہا ہے۰ پی ڈی ایم کی قیادت حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات کے امکان کو رد کر چکی ہے جبکہ دوسری طرف حکومت کی جانب سے سیاسی سوچ اور فکر کا فقدان پہلے سے موجود ہے۰ یہی غیر سیاسی سوچ تھی جس کی وجہ سے پی ڈی ایم کے ہر جلسے کے موقع پر حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات نے پی ڈی ایم کی تحریک کو تیز کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور نتیجتاً اب بات حکومت اور پی ڈی ایم کے درمیان پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچ چُکی ہے۔
پچھلے اڑھائی سال کے عرصے میں وزیراعظم، وزرا اور حکومتی ترجمانوں کی جانب سے اپوزیشن کو جس تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اس حکومتی رویہ نے آج اپوزیشن کو نہ صرف ایک اتحاد کی صورت میں اکٹھا کر دیا ہے بلکہ اس حد تک متنفر بھی کردیا ہے کہ جہاں مذاکرات تو بہت دُور کی بات اپوزیشن اب حکومت کو ذرا سی رعایت بھی دینے پر تیار نظر نہیں آتی۰
تمام تر سیاسی اختلافات اور دشمنی کے باوجود سیاسی جماعتوں میں کوئی نہ کوئی ایسی شخصیت ضرور موجود ہوتی ہے جو غیر متنازعہ یا معتبر ہونے کی وجہ سے سیاسی مخالفین کے لئے قابل قبول ہوتی ہے لیکن تحریک انصاف کی بدقسمتی کہ ان کے پاس ایسی کوئی معتبر شخصیت بھی موجود نہیں جو اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈال سکے۰
سیاست میں ڈائیلاگ کے دروازے کبھی بند نہیں کئے جاتے لیکن موجودہ وزیراعظم نے اڑھائی سالہ دورِ حکومت میں اپوزیشن کے لئے ہر دروازہ بند کر دیا ہے یہی وجہ ہے کہ اب اپوزیشن جماعتیں موجودہ حکومت اور وزیراعظم کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات کے لئے بالکل بھی تیار نہیں ہیں اور معاملات بڑی تیزی سے بند گلی کی طرف بڑھتے نظر آ رہے ہیں۔
سیاسی سوچ کی حامل حکومتیں کسی تحریک کے آغاز سے ہی اپوزیشن کو انگیج کرنے کی کوشش کرتی ہیں تاکہ تحریک کو ایجی ٹیشن کے مرحلے میں داخل ہونے سے روکا جا سکے لیکن موجودہ حکومت اس سیاسی سوچ سے یکسر عاری نظر آتی ہے۰
انہی صفحات پر بار بار یہ کہا جاتا رہا ہے کہ حکومت تصادم کے جس راستے پر چل رہی ہے اس کا سب سے زیادہ نقصان خود حکومت کو ہو گا اور وقت آئے گا جب حکومت مذاکرات کا کہے گی لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہو گی۰ اب وہ وقت آن پہنچا ہے اور حکومت اپنی نادانی، نااہلی، نالائقی اور متکبرانہ رویے کی وجہ سے بہت دیر کر چُکی ہے۰
اس لئے اب اگر مذاکرات ہوں گے تو اپوزیشن کی شرائط پر ہوں گے جس کے لئے شائد حکومت تیار نہ ہو۰ اس لئے جس تصادم اور ٹکراو سے حکومت کو بار بار مُتنبہ کیا جاتا رہا ہے وہ تصادم شائد اب ناگزیر ہو چُکا ہے۔
پاکستان کے کمزور جمہوری ڈھانچے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ تصادم ہوا تو حکومت اور اپوزیشن دونوں کے ہاتھ شائد کچھ نہ آئے اور فائدہ کوئی تیسرا فریق اٹھا لے جائے۰
اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کی طرف سے پہل کی جائے اور جیسے بھی ہو پی ڈی ایم کی قیادت کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے کیونکہ پی ڈی ایم کے جو بھی مطالبات ہیں وہ بہرحال مذاکرات کی میز پر ہی طے ہونے ہیں۰
اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ مذاکرات کے لئے لانگ مارچ یا استعفوں جیسے انتہائی اقدامات کا انتظار کرتی ہے یا سیاسی سوچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ابھی سے ایسے اقدامات اٹھانے شروع کرتی ہے جس سے سیاسی صورتحال میں موجود تناو تھوڑا کم ہو، تصادم سے بچا جا سکے اور کوئی درمیانی راستہ نکل سکے۔
Please follow on twitter@GorayaAftab
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر