شمائلہ حسین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمائلہ حسین
آپ مشکل ہی مانیں گے لیکن میرے خیال میں ہم مجموعی طور پر ایک کنفیوزڈ قوم ہیں۔اپنی ثقافت، مذہب اور قومیت کے حوالے سے ہم ستر سال گزارنے کے بعد بھی ویسے ہی در بدر ہیں جیسے زیادہ گھروں کا مہمان بھوکا پیاسا رہ جاتا ہے۔
سلیقے ہمارے ایسے ہیں کہ جو خطہ، ملک، ادارہ، شہر، گھر یا محلہ ہماری تزویراتی گہرائی میں گر جائے اسے یوں برباد کرتے ہیں کہ لوٹتا پوٹتا رہے لیکن اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو سکتا۔
الحمدللہ یہ مہارت یہیں دم نہیں توڑتی اسے ہم ہر اس نظریے پر بھی آزماتے ہیں جو دنیا کے کسی بھی دور دراز کونے سے سفر کرتا ہوا ہم تک پہنچ جاتا ہے۔ ہم اسے دیسی پیٹرن میں ڈھال کر اس کا دف مارتے ہیں پھر جو کھچڑی تیار ہوتی ہے اس میں ولایتی ذائقہ تو چھوڑیں دیسی کی پہچان بھی ناممکن ہو جاتی ہے۔
سوشلزم، نیشنلزم، ماڈرن ازم، پوسٹ ماڈرن ازم اور آج کل لبرل ازم کے ساتھ لفظ ’اسلامی‘ لگا کر انہیں شوگر کوٹڈ کرنے کے دھندے میں ہم ہر خیال کو گڈ مڈ کر دیتے ہیں۔ نتیجہ اس کا ہم سب ہی ہیں۔ ہر آنے والی نسل پہلے سے زیادہ کنفیوزڈ رویے لے کر پیدا ہوتی ہے۔
نہیں یقین آتا تو جھانک لیں، ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو ان نظریات کی اصل تک پہنچ کر انہیں اپناتے ہیں؟
بالکل کسی کٹر خوش عقیدہ شخص کی طرح ایک فیشنی لبرل بھی اندر سے اتنا ہی الجھا ہوا اور بے یقینی کا شکار ہوتا ہے۔ اس کا سب سےزیادہ کھلم کھلا اظہار فیمینزم اور سیکولر ازم اپنانے کے وقت سامنے آ تا ہے۔
بہت سے لوگ ایسے ہیں جو سگریٹ ، شراب اور جنسی فعل کی آزادی کو ہی بغاوت سمجھ کر خوش ہو لیتے ہیں۔ ٹک ٹاک پر ویڈیو بنانے اورسوشل میڈیا پر ہر طرح کی الٹی سیدھی بات کرنے کو بھی بغاوت سمجھ کر بڑے فخر سے پیش کیا جاتاہے۔
لیکن جب بات مجموعی رویوں پر آتی ہے تو سڑکوں پر کوڑا پھینکنے، پان کی پیک تھوکنے، چلتی لڑکی کو گھورنے اور کھڑی کو گھر پہنچانے کی آفر سے لے کے ہر طرح کی بدتہذیبی کا شکار ہم لوگ یہ حرکتیں چھوڑنا کبھی بغاوت نہیں سمجھیں گے۔ بلکہ قریبی دوستوں میں اکثر یہ حرکتیں نہ کرنے والے کو بے وقوف ہی سمجھا جائے گا۔
لبرل ازم اور روشن خیالی کے نظریات کو جانے بغیر ان پر عمل کرتے ہم نے اپنے والدین کو دیکھا ہے۔
میری والدہ ہر ایسی خاتون کو برا بھلا کہنے یا گالی دینے سے ہمیں ہمیشہ منع کرتی تھیں جو شادیوں پہ رقص کرتی ہوں، گلی گلی گڈوی پہ گاتی ہوں یا سیکس ورکر ہی کیوں نہ ہوں۔
وہ کہتی تھیں کہ نہ جانے کس مجبوری کے تحت وہ عورتیں اس کام پر لگی ہوں گی۔
کسی دوسرے مسلک کے شخص کو ہمیں کبھی کافر کہنے کی اجازت نہیں دی گئی ۔
نماز روزے کے پابند ہونے کی تلقین اور مشق ایک طرف، ہمیں سکول کالج اکیلے پیدل جانے کا حوصلہ بھی انہوں نے دیا۔
ہمارے دادا دادی، نانا نانی سگریٹ اور حقہ پیتے تھے لیکن ہمارے والدین نے ان چیزوں سے دوری اختیار کی، شاید یہ ہمیں صحیح غلط بتانے کے لیے ہو لیکن کبھی کسی تمباکو نوش کی برائی بھی ہمارے یہاں نہیں کی گئی۔
طویل سفر پہ نکلنے کی صورت میں مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ان دونوں میں سے کسی نے کہا ہو کہ لڑکی ہو تو کیسے کرو گی ۔ بلکہ جب کبھی ہم نے کہا کہ اتنا لمبا سفر اکیلے کیسے کریں گے تو جواب ملتا کہ ’پیدل نہیں جانا تم نے، بس ، ٹرین یا جہاز میں با اعتماد ہو کر بیٹھو ، کوئی کھا نہیں جائے گا۔‘
اصل فیمنسٹ اور پکے لبرل تو وہ دونوں ہیں کہ پانچ بہنوں کے نام کے ساتھ کہیں والد کا نہیں چپکایا گیا۔ سب کے سب نام مکمل خواتین والے ہیں جیسے میں شمائلہ نورین ہوا کرتی تھی
اور تو اور انہوں نے بیٹے کے نام میں بھی اپنا نام کبھی شامل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ میں نے اپنے بزرگوں اور ان کے معاصرین کو درحقیقت اس لیے بھی آزاد خیال پایا کہ چھوٹے شہروں میں رہنے والی انگریزی برقع پہنی ہوئی عورتیں ہمارے وہاں سینما، بازار اور گھومنے پھرنے کی جگہوں پر آزادی سے آتی جاتیں اور کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوتا۔
بیٹیوں کی تعلیم کو ضروری خیال کرنے والے وہ لوگ ان کی ملازمت کے حق میں اسی لیے کھڑے رہے کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ معاشی خودمختاری بیٹی کے اچھے مستقبل کے لیے سب سے زیادہ ضروری قدم ہے۔
کیا آپ کو نہیں لگتا کہ بیٹیوں کی تعلیم اور ملازمت یا کاروبار کے حق میں دلائل دینے والے ہمارے بزرگ ہی دراصل عملی لبرل ہیں؟
ہمارے ساتھ کے لوگ جو بھیڑ چال میں کبھی کٹر ملا بن جاتے ہیں تو کبھی لبرل ہونے میں پناہ لیتے ہیں، دراصل سیکس، نشے اور ہر قسم کی ’سماجی برائی‘ کو کھلم کھلا کر سکنے کی خواہش میں وہ ان نظریات کوتو بدنام کرتے ہی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ان پر عمل پیرا جینوئن لوگوں کو بھی سب کی نگاہ میں برا بنا دیتے ہیں۔
یہ اسی بھیڑ چال کا نتیجہ ہے کہ ہر شخص کو محبوبہ تو آزاد خیال، ماڈرن لباس پہنتی ہوئی، فرفر انگریزی بولتی، اور مردوں کے برابر کام کرتی ہوئی چاہیے لیکن وہی بندہ شادی کے لیے ’کنواری‘ یا ذہنی اور جسمانی طور پر کسی حد تک نابالغ اور پردے میں لپٹی روایتی عورت کا انتخاب کرتا ہے۔
اس لبرل پنے میں عورتوں کو فی الحقیقت ملتا کیا ہے، یہ ایک الگ بحث ہے۔یہ قصہ اگلی بار پہ اٹھاتے ہیں۔
(یہ بلاگ ڈی ڈبلیو ویب سائٹ پر شائع ہوچکا ہے)
یہ بلاگ ڈی ڈبلیو پر شائع ہوچکا ہے۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر