وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ایک لگاتار قومی بیماری ہے جس کا علاج ہمیشہ الفاظ کی مرہم پٹی اور کھوکھلے ٹلاؤ وعدوں کی جڑی بوٹیوں سے ہی ہوتا ہے۔
جب بھی کوئی مسافر ویگن گیس سلنڈر پھٹنے سے جہنم بن کر اپنے ہی مسافروں کو خاک کر دیتی ہے تو سرکار عہد کرتی ہے کہ آیندہ گیس سلنڈرز کے معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا اور ذمے داروں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔اور پھر چند روز بعد اسی نوعیت کا ایک اور حادثہ ہو جاتا ہے اور پھر کوئی سرکاری توتا وہی عہدنامہِ عتیق دہرا دیتا ہے۔
یہی بیانیہ مشق مسافر بسوں اور ریل گاڑیوں کے حادثات کے بعد بھی ہوتی ہے۔فوری رپورٹ کی طلبی ، میڈیا کی بارات کے ساتھ جائے وقوع کا ہنگامی دورہ، تحقیقاتی کمیٹی کا قیام ، کسی کو نہیں بخشا جائے گا، تعفن زدہ خوشخبری ، نچلے درجے کی چند پتلی گردنوں کی عارضی معطلیاں اور پھر سب بھول جاتے ہیں یہ حادثہ ایک نیا حادثہ ہونے تک۔
یہی کچھ مجرمانہ اسپتالی غفلتوں کے پیرائے میں بھی ہوتا ہے۔اگر میں تہتر برس کا رونا رونے کے بجائے پچھلے دس برس کو ہی دیکھوں تو المناکی کی سفاکی جوں کی توں ہے۔
مثلاً سات جون دو ہزار بارہ کو کسی تھکیلے نجی اسپتال میں نہیں بلکہ لاہور کے باوقار سروسز اسپتال میں نوزائیدہ بچوں کے نرسری وارڈ میں نصب ایک ایئرکنڈیشنڈ کی تار میں شارٹ سرکٹ ہوا۔جن اینکوبیٹرز ( برقی پالنے ) میں نوزائیدہ بچے پڑے تھے ان میں سے چند کے آکسیجن پائپوں نے آگ پکڑ لی۔چھ بچے جل مرے۔
آگ بجھانے والے آلات اسپتال میں موجود تھے۔مگر ان کا ڈھنگ سے استعمال کسی کو نہ آتا تھا اور جب سے یہ نصب ہوئے تھے ان کی کبھی ٹیسٹنگ یا استعمالی مشق نہیں ہوئی۔اسپتال کی برقی وائرنگ حادثے سے پچیس برس پہلے انیس سو ستاسی میں ہوئی تھی۔
سانحے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان کے ہر اسپتال کی وائرنگ، ایئرکنڈیشننگ اور آگ بجھانے والے آلات کا معیار ہنگامی طور پر چیک کیا جاتا اور یہ بھی دیکھا جاتا کہ ایمرجنسی کی صورت میں عملہ حالات سے نمٹنے کے لیے کتنا مستعد اور تربیت یافتہ ہے۔مگر ایسی کوئی خبر کبھی نہ آئی۔
سات جون دو ہزار چودہ کو کراچی میں کورنگی کراسنگ کے نزدیک درمیانے درجے کے ایک نجی اسپتال کے شعبہِ اطفال میں چوبیس گھنٹے کے دوران اینکوبیٹرز میں پڑے نو بچے مرتے چلے گئے۔معلوم ہوا کہ اسپتال کے پاس بجلی جانے کی صورت میں کوئی متبادل انتظام نہیں تھا۔ناتجربہ کار عملہ قلیل تنخواہوں پر نوکری زہر مار کر رہا تھا۔حتیٰ کہ اسپتال کا صفائی عملہ بھی اتنا ماہر ہو گیا تھا کہ مریضوں کو انجکشن لگا لیا کرتا تھا۔ ظاہر ہے رپورٹ طلب ہوئی ، چھان بین ہوئی مگر بہتری نہ ہوئی۔ اس حادثے کو محض ایک اسپتال کی انسانی غفلت کے طور پر دیکھا گیا اور فرض کر لیا گیا کہ باقی اسپتال تو گویا یورپی معیار کے مطابق کام کر رہے ہوں گے۔
انیس نومبر دو ہزارچودہ کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال سرگودھا کے نرسری وارڈ میں آٹھ نوزائیدہ بچے آکسیجن کی سپلائی میں کمی کے سبب مر گئے۔بیس بچوں کو اینکو بیٹرز کی ضرورت تھی مگر پانچ مہیا تھے یا کارآمد تھے۔ نرسری وارڈ میں پچیس بستروں کی گنجائش تھی مگر پچاس بچے داخل تھے یعنی ایک بستر پر دو دو۔
چار ڈاکٹر ڈیوٹی پر تھے مگر وارڈ میں نہیں تھے۔ حسبِ معمول نرسنگ کا عملہ دیکھ بھال کر رہا تھا۔ان میں سے کسی کو اندازہ نہ ہوا کہ آکسیجن کی مقدار کم ہوتی چلی جارہی ہے۔آج کا تو معلوم نہیں البتہ اس وقت تک پورے سرگودھا ڈویژن میں یہ واحد اسپتال تھا جہاں بچوں کے لیے نرسری وارڈ تھا اور اس میں میانوالی ، بکھر اور ڈی آئی خان تک سے مریض آتے تھے۔
سرکاری سطح پر بے روح ماتمی کیفیت کے بعد توقع تھی کہ اس حادثے کے بعد اگر ملک گیر یا صوبائی سطح پر نہیں تو کم ازکم مقامی سطح پر اسپتال کے عامل ڈھانچے میں اصلاحات ہوں گی اور وسائل و بہتر تربیت اور پیشہ ورانہ نظم و ضبط کا انتظام وجود میں آ جائے گا۔
مگر حادثے کے پانچ برس بعد اسی نرسری وارڈ میں اگست دو ہزار انیس میں ایئرکنڈیشنر خراب ہونے کے سبب چھ نوزائیدہ بچے مر گئے۔معلوم ہوا کہ ایئرکنڈیشننگ کی بہتری کے لیے جو تھوڑا بہت بجٹ میسر تھا وہ وی آئی پی کمروں کو ٹھنڈا رکھنے پر صرف ہو گیا۔
تیرہ دسمبر دو ہزار چودہ کو لاڑکانہ کے چانڈکا ٹیچنگ اسپتال کے نرسری وارڈ میں آکسیجن ختم ہوجانے کے سبب پانچ بچے ہلاک ہوگئے۔وجہ یہ بتائی گئی کہ اس مد میں پچھلا بجٹ ختم ہو چکا تھا اور نئے بجٹ کی منظوری میں تاخیر ہو رہی تھی۔اللہ اللہ خیرصلا۔
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
اور تازہ ترین شگوفہ ایک ہفتہ قبل پشاور کے خیبر ٹیچنگ اسپتال میں پھوٹ گیا جب آکسیجن ختم ہونے سے چھ مریض دم توڑ گئے۔ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق جو کمپنی آکسیجن سپلائی کرتی ہے اس کا ہرکارہ وقت پر نہ پہنچ سکا لہذا پلانٹ پر متعین عملہ بور ہونے کے بجائے گھر چلا گیا۔آکسیجن ٹینک کی گنجائش اگرچہ دس ہزار کیوبک فٹ تھی مگر اسے اسپتال کی اوسط ضرورت دیکھتے ہوئے ہمیشہ آدھا بھرا جاتا تھا۔اس دن شائد زیادہ ضرورت پڑ گئی مگر اتنے بڑے اسپتال کے پاس کوئی ہنگامی متبادل ذخیرہ نہیں تھا۔اسپتال کہتا ہے کہ کمپنی بس اتنی ہی گیس سپلائی کرتی ہے۔کمپنی والے کہتے ہیں کہ اسپتال بس اتنی ہی گیس ہم سے منگواتا ہے۔
کمپنی کا کنٹریکٹ تین برس پہلے دو ہزار سترہ میں ختم ہو گیا مگر کمپنی پھر بھی گیس سپلائی کرتی رہی۔ آخر کنٹریکٹ کی تین برس سے تجدید کیوں نہیں ہوئی؟اسے سمجھنے کے لیے راکٹ سائنس کا ماہر ہونے کی ضرورت نہیں۔
کنٹریکٹ کے تحت کمپنی ایک ہی قیمت پر کنٹریکٹ کی پوری مدت میں سپلائی دینے کی پابند ہوتی ہے۔اور جب کنٹریکٹ نہ ہو تو ضروری نہیں کہ کمپنی سابقہ طے شدہ ریٹ پر سپلائی دینے کی پابند نہیں ہوتی وہ مارکیٹ ریٹ کے حساب سے رسد دیتی ہے۔
یعنی اگر کنٹریکٹ کے تحت کمپنی سو روپے فی یونٹ سپلائی دے رہی تھی تو کنٹریکٹ نہ ہونے کی صورت میں اگر مارکیٹ ریٹ دو سو ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ پونے دو سو روپے میں پرانے گاہک کو سپلائی جاری رکھے گی۔
چنانچہ یہ چھان بین بھی ہونی چاہیے کہ کنٹریکٹ کی میعاد ختم ہونے کے بعد کیا کمپنی پرانے ریٹ پر آکسیجن سپلائی کرتی رہی یا مارکیٹ ریٹ پر۔اور مارکیٹ ریٹ پر سپلائی کی صورت میں اضافی منافع کس کس میں تقسیم ہوا۔ممکن ہے کہ کنٹریکٹ کی تجدید نہ ہونے مگر سپلائی جاری رہنے کے پیچھے فریقین کے معاشی مفادات ہوں۔
کرپشن کے تو ویسے بھی ہزار چہرے ہوتے ہیں۔اس دوران اگر حادثے میں چھ سات لوگ مر بھی جائیں تو لوگ تو ہیں ہی کیڑے مکوڑے۔کیڑے مکوڑوں کی کیا شنوائی ، کیسا معاوضہ اور کون سی ضمانت ؟
وہی ہوا جو ایسے ہر حادثے کے بعد ہوتا ہے۔ سات لوگ معطل ہو گئے۔یقین دلایا گیا کہ آیندہ کے لیے بیک اپ سسٹم قائم ہوگا ، تربیت یافتہ عملہ متعین ہوگا، ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے مناسب تعداد میں مشقوں کو لازمی قرار دیا جائے گا۔کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم قائم ہوگا۔ ( اگر میرے بس میں ہو تو میں سب سے پہلے آیندہ جیسے الفاظ کو پھانسی دوں )۔
یقین جانیے کچھ بھی تو نہ ہوگا۔چند ہفتے یا مہینوں بعد اسی اسپتال یا کسی اور جگہ ایسا ہی ایک اور حادثہ ہوگا اور پھر بندر پھرتیاں اور بیانیا کرتب بازی شروع ہو جائے گی۔یہ بیماری کسی ایک حکومت کا ورثا نہیں۔یہ ایک لگاتار قومی بیماری ہے جس کا علاج ہمیشہ الفاظ کی مرہم پٹی اور کھوکھلے ٹلاؤ وعدوں کی جڑی بوٹیوں سے ہی ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر