نوید چودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سابق چیف جسٹس آف پاکستان نسیم حسن شاہ نے اعتراف کیا تھا کہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کا دینے فیصلہ جنرل ضیا کے دباؤ پر کیا گیا، ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے مزید کہا تھا کہ ہر جج اتنا بہادر نہیں ہوتا کہ اپنی نوکری جانے کا خطرہ مول لے سکے۔حقیقی انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ ایسا فیصلہ کرنے والے ججوں کو قانونی راستے کے ذریعے ہی نشان عبرت بنایا جاتا،اگر ایک بار ایسا ہو جاتا تو پھر شاید ہی کسی جج کو آمر کا خنجر بننے کا حوصلہ ہوتا۔
ہمارا یہی المیہ ہے کہ جنرل یحییٰ خان پاکستان کو توڑ کر مرا تو قومی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا، وہ عہدے سے اترا تو عدلیہ نے موقع غنیمت جان کر اسے غاصب قرار دے دیا، جس کا اس پر کچھ اثر نہ ہوسکا۔
ذرا تصور کریں اگر کسی فوجی آمر کو آئین توڑنے پر آئین ہی میں لکھی سزا دے کر عمل درآمد کر لیا جاتا تو کیا آج یہ حالات ہوتے؟پی ڈی ایم کی تحریک کو اسی لیے پذیرائی مل رہی ہے کہ معاشرے کے اصل مسائل اور ان کی حقیقی وجوہات کو کھل کر سامنے لایا جارہا ہے،
اب ملک میں کوئی ادارہ غیر جانبدار ہے نہ ہی غیر متنازعہ، اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ مخدوش ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی حالات کے تناظر میں اپوزیشن اتحاد کے احتجاج کا موقع نہیں، تو اس سے پوچھا جانا چاہیے کہ ملک کو موجودہ حالت تک پہنچانے اور حزب اختلاف کو کشتیاں جلا کر مقابلے پر آنے کے مجبور کرنے والوں نے کس کی خدمت کی تو ان کے پاس کوئی جواب نہ ہوگا،
پی ڈی ایم بمقابلہ اسٹبلشمنٹ اس بازی میں دونوں فریق ایک دوسرے پر ایک جیسے الزامات لگا رہے ہیں، اس صورت حال میں یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ قومی مفادات کے حوالے سے زیادہ حساس اور مخلص کون ہے، اداروں کی ساکھ کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں کے کھلے اعتراضات سب کے سامنے ہیں، آج دنیا یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ فیض آباد دھرنے کا فیصلہ دینے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ کیا کیا نہیں کیا جا رہا،
سفارتی محاذ پر بھی کباڑہ ۔۔۔نوید چودھری
ایک طرف یہ نیک نام جج خود انصاف کی تلاش میں ہے تو دوسری جانب سابق چیف جسٹس ارشاد حسن خان جیسوں کی پذیرائی حیرت کا باعث ہے، ملک میں آئین کی سربلندی اور عدلیہ بحالی تحریک کے لیے کام کرنے والوں کو امید تھی کہ مارشل لاکی توثیق کرنے والے جسٹس ارشاد جیسے کردار بھی کٹہرے میں آئیں گے،
مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ، ہر طرف سے دروازے بند کردئیے جائیں تو پھر کہیں نہ کہیں سے تازہ ہوا کی کھڑکی کھلتی ہے جو بعض اوقات بڑھ کر آندھی کی صورت بھی اختیار کر جاتی ہے، آج قدرت نے پی ڈی ایم کو یہ ذمہ داری سونپ دی ہے کہ وہ صرف دھاندلی یا عمران حکومت گرانے کی بات نہ کرے،
سب کا ایک جیسا احتساب اور ایک ہی ادارے سے ہونا چاہیے کا نعرہ بلند کرے، ملک میں خوفناک حد تک کرپشن جاری ہے، نیب قوانین کو مزید سخت بنانے کی بات کی جائے،سب سے پہلے تمام عہدیداروں کا احتساب کرنا ہوگا تاکہ وہ بتائیں کہ کون کب اور کیسے انہیں استعمال کرتا آرہا ہے،
غیر آئینی اقدامات پر سزاؤں کے لازمی اطلاق کے ساتھ بلالحاظ ادارہ و محکمہ سب کی کرپشن کے مقدمات نیب میں لائے جانے چاہیں، احتساب کو صرف سیاست دانوں اور ناپسندیدہ افراد کے خلاف ہتھیار بنانے کی بجائے سب کو کٹہرے میں لانے کا سلسلہ 1947ء میں ہی شروع کردیا جاتا تو ملک ٹوٹتا نہ ہی آئے روز بحران پیدا ہوتے،
اقتدار اور وسائل پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے حکمران اشرافیہ کے ہتھکنڈوں کے سبب اب آئینی اور غیر آئینی کی بحث بھی غیر متعلقہ ہوتی جارہی ہے، ایسے میں جب خصوصا جماعت اسلامی یہ کہتی ہے کہ حکومت کی تبدیلی تو ہم بھی چاہتے ہیں مگر یہ آئین کے دائرے کے اندر ہونی چاہیے،
تو سراج الحق سے پوچھا جانا چاہیے کہ 2018ء میں الیکشن کی رات آپ کے ساتھ جو ہوا وہ کارروائی آئین کی حدود میں رہ کر کی گئی تھی؟ جماعت اسلامی کو خوب استعمال کرکے ووٹ حاصل کرنے کی دوڑ میں نئی نئی چھوٹی چھوٹی پارٹیوں سے بھی نیچے لایا گیا تو یہ اقدام آئینی تھا کیا؟ سو اگر آپ نے اپنے طور پر یا پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر احتجاج نہیں کرنا تو بے شک نہ کریں، مگر چیزوں کو گڈ مڈ بھی نہ کریں،
بدترین گورننس،تمام وسائل پر مخصوص ٹولے کے قبضے کے بعد اب عام لوگوں کو فوری ریلیف کا فوری امکان نہیں، ہر گذرتا دن پہلے سے زیادہ سخت ہوگا، اگر حکومت بدل جائے تو ممکن ہے کچھ سکون ملے،
دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ کوئی معجزہ اور اور امریکہ امداد بحال کر دے، لیکن اس وقت کا کوئی امکان نہیں، سو اب جو کرنا ہے وہ عوام نے خود ہی کرنا ہے،اس تک کی سیاسی پیش رفت میں یہ بات تو واضح ہو گئی کہ حکومت کی جانب سے پی ڈی ایم کی قیادت سے اور اتحاد میں شامل جماعتوں سے الگ الگ رابطے کیے جارہے ہیں،
دوسری جانب یہ اطلاعات بھی ہیں کہ چند اہم عہدیدار حکومت کو یقین دہانی کرا رہے ہیں کہ دو ماہ میں تحریک کے غبارے سے ہوا نکال دی جائے گی،اسی لیے اپوزیشن جماعتیں اب کسی پراعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں اورمذاکرات کی پیشکش کو مسترد کردیا ہے ,
ڈائیلاگ مگر کس کے ساتھ ۔۔۔نوید چودھری
باقی رہ گئی اندرونی اور بیرون تھریٹس تو اتنا کہہ دینا ہے کافی ہے کہ ان کی“ ٹائمنگ“ بہت قابل غور ہے، ٹائمنگ سے یاد آیا۔شیخ رشید نے پانچ، چھ ماہ پہلے دعویٰ کیا تھا کہ دسمبر تک تمام بڑے اپوزیشن رہنما عدالتوں سے نا اہل قرار پا جائیں گے، یقیناً فراہم کردہ خبر تھی جو حالات کا رخ تبدیل ہو جانے کے باعث اب تک حقیقت کا روپ نہیں دھار سکی، خبر دینے والوں کو بھی اس وقت معلوم نہیں ہوگا کہ دسمبر آئے گا تو سب کو اپنی اپنی پڑ جائے گی۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ