اعزاز سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہٹلر قابل تقلید تو نہیں لیکن اس کی بعض باتیں سیاست کے کھیل میں امر ہوچکی ہیں۔ وہ کہا کرتا تھا کہ انقلاب اس وقت نہیں آتا جب حالات سنگین ہوں بلکہ یہ اس وقت آتا ہے جب لوگوں کو حالات کی سنگینی کا احساس ہوجائے۔
اس وقت اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ یعنی پی ڈی ایم کے زیرِاہتمام ملک بھر میں احتجاج اور جلسوں کا موسم ہے جن میں عوام کو حالات کی سنگینی کا سبق دیا جارہاہے۔
تاریخی طورپر لاہور میں ہونے والے جلسے سیاسی احتجاجوں کا رخ متعین کرتے ہیں۔ مسلم لیگ ن بظاہر اپنے قلعے لاہور میں پی ڈی ایم کا ایک بڑا جلسہ کامیاب کروا لے گی۔ مگر میرا سوال یہ ہے کہ کیا اپوزیشن اس احتجاجی تحریک میں کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل کرپائے گی ؟ یا یوں کہہ لیں کہ کیا اپوزیشن حکومت کو گرانے میں کامیاب ہوجائے گی ؟
حکومت کی نالائقیوں ، نااہلیوں اور معیشت کے محاذ پر تمام تر ناکامیوں کے باوجود سچی بات یہ ہے کہ مجھے اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے احتجاج کی یہ تحریک فوری طور پر مطلوبہ نتائج دیتی نظر نہیں آرہی۔ ہاں اس دوران کوئی حادثہ ہوجائے تو پانسہ ضرورپلٹ سکتا ہے۔ ویسے بھی پاکستان کی تاریخ بحرانوں ،حادثات اورسیاسی واقعات سے بھری پڑی ہے۔
اپوزیشن چاہتی ہے کہ وزیراعظم عمران خان سے فوری طور پر چھٹکارا حاصل کیا جائے کیونکہ وہ تمام مسائل کی جڑ ہیں۔ اس حوالے سے مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نوازشریف عمران خان کو مسئلہ تو سمجھتے ہیں مگر پی ڈی ایم کے مشترکہ موقف سے ذرا مختلف اسٹیبلشمنٹ کے بڑوں کو بنیادی اور اصل مسئلہ سمجھتے ہیں۔
اس بنیادی نکتے پر پیپلزپارٹی اور ن لیگ میں واضح طور پر وہی فرق ہے جوآصف زرداری اور نوازشریف کی سیاست میں ہے۔ اس تناظر میں میاں نوازشریف کی طرف سے اپوزیشن کے جلسوں کے دوران اسٹیبلشمنٹ کے عہدیداروں پر تنقید کا عمل جاری ہے اور شاید اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ان کے اطمینان کے لیے مناسب عملی اقدامات نہیں کیے جاتے۔
ایسا نہیں کہ نوازشریف اور مریم نواز سے کوئی رابطہ نہیں کیا جارہا۔ تنقید رکوانے کیلئے دونوں سے رابطے کیے جارہے ہیں لیکن اس سب کے باوجود اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ کے درمیان معاملہ کسی ٹھوس نتیجے پر نہیں پہنچ پارہا۔ کوششیں تاہم جاری ہیں۔
پیپلز پارٹی کے لیے یہ سب کسی معجزے سے کم نہیں۔ مریم نواز پنجاب میں وہ ماحول پیدا کررہی ہیں جس سے نہ صرف ن لیگ مستحکم پوزیشن اختیار کررہی ہے بلکہ پیپلز پارٹی کی بات چیت کی پوزیشن بھی بہترہورہی ہے۔ پیپلز پارٹی جو بظاہر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نظرآرہی ہے‘ اصل میں پانی کی گہرائی کا اندازہ کر رہی ہے۔
پیپلزپارٹی سے بات چیت کے سلسلے الگ سے جاری ہیں اورباہمی اعتماد کی فضا بحال کرنے کے لیے آصف علی زرداری کے خلاف قائم جعلی اکائونٹس کیسز اسلام آباد سے پیپلزپارٹی کےہوم گرائونڈ سندھ منتقل کرنے کی باتیں بھی جاری ہیں۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کرچکی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابھی اعلیٰ قیادت مخمصے اور گہری سوچ میں گم ہے۔
اس کھیل میں اپوزیشن کا متفقہ ہدف وزیراعظم عمران خان ہیں۔ عمران خان ماضی میں جتنے پراعتماد اورطاقتورنظرآتے تھے‘ اب ویسے نظر نہیں آتے۔ اقتدارکی راہداریوں میں چاپلوسی حکمرانوں کو اندھا کردیتی ہے۔ وزیراعظم کو ان کے وزرا ’’سب اچھا ہے‘‘ کی کہانیاں سناتے رہے ہیں تاہم پی ڈی ایم کے لاہورمیں جلسے کی تاریخ اور اس حوالے سے ایک خفیہ رپورٹ کے بعد وزیراعظم پہلی بار پریشان نظرآرہے ہیں۔
انہیں سرپرستوں کی طرف سے کہا گیا ہے کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ اپنے معاملات طے کریں۔ ایسا ماضی میں بھی کہا جاتا رہامگروزیراعظم قائل نہیں ہوئے۔ اس بارالبتہ ماحول بدلاہوا ہے۔اسی لیے تین اہم وفاقی وزرا نے خاموشی کے ساتھ مسلم لیگ ن سے رابطہ کیا ہے تاہم ابھی تک کوئی بڑی پیشرفت نہیں ہوئی۔ ایسا لگتا ہےکہ ن لیگ کسی صورت تحریک انصاف حکومت کوکوئی رعایت نہیں دے گی۔
دے بھی کیسے پورے شریف خاندان سمیت ن لیگ کی قیادت میں شاید ہی کوئی ایسا ہوجس کے خلاف کیسز نہ بنائے گئے ہوں۔ کیسز اپنی جگہ وزیراعظم اور تحریک انصاف کے رہنمائوں کی طرف سے بیانات کی صورت میں لیگی رہنمائوں پر جو رکیک ذاتی حملے کیے گئے ہیں‘ وہ انہیں کبھی رعایت دینے کے بارے میں سوچنے بھی نہیں دیتے۔
نوازشریف اور ان کے ساتھیوں کا خیال ہےکہ سینیٹ انتخابات سے قبل صوبائی اورمرکزی اسمبلیوں سے استعفوں کی صورت ایک آئینی بحران پیدا کردیا جائے لیکن پی ڈی ایم میں شامل دوسری بڑی جماعت پیپلزپارٹی اور خیبر پختونخوا کی اہم جماعت عوامی نیشنل پارٹی ایسا کرنے سے گریزاں ہیں اور یہی گریزحکومت کے لیے امید ہے۔ اسی لیے پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کوپس پردہ پیشکشیں کی جارہی ہیں تاہم دونوں نے فی الحال کچھ قبول کرنے سے گریز کررکھا ہے۔ ہاں کل کیا ہو؟کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ سیاست میں دروازے کبھی بند نہیں ہوتے۔
اپوزیشن کا خیال یہ بھی ہے کہ وہ حکومت اوراسٹیبلشمنٹ میں کوئی خلیج پیدا کرلے گی۔ فی الحال اگر کسی سطح پرکوئی اختلاف تھا تو وہ بھی ختم ہوچکا ہے یا کم ازکم تاثریہی دیا جارہا ہے۔ اگر ایسا ہوگیا تو کہانی بدل سکتی ہے لیکن ایسا ہونے کا امکان بہت کم ہے کیونکہ وزیراعظم کواسٹیبلشمنٹ اور اسٹیبلشمنٹ کو وزیراعظم کی ضرورت ہے۔ فی الحال حکومت جانے کا کوئی امکان نہیں ہے تاہم اپوزیشن کا احتجاج رائیگاں جانے والا بھی نہیں۔ پاکستان بالخصوص پنجاب کی اکثریت کو سویلین بالادستی کی اہمیت کا احساس ہوہی جائے گا۔ ویسے بھی ’’انقلاب اس وقت نہیں آتا کہ جب حالات سنگین ہوں بلکہ یہ اس وقت آتا ہے کہ جب لوگوں کو حالات کی سنگینی کا احساس ہوجائے‘‘۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر