دسمبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گوادر پنجرے میں۔۔۔عزیز سنگھور

‘‘گوادر’’بلوچی زبان کے دو الفاظ ‘‘گوات اور دَر’’ سے بنا ہے، جس کے معنی ‘‘ہوا کا دروازہ’’ ہے۔ اب یہ ہوا کا دروازہ ہوا کے لئے بند ہورہا ہے۔ گوادر شہر کےگرد سیکورٹی کے نام پر باڑ لگانے کے کام کا آغازکردیا گیاہے

عزیز سنگھور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

‘‘گوادر’’بلوچی زبان کے دو الفاظ ‘‘گوات اور دَر’’ سے بنا ہے، جس کے معنی ‘‘ہوا کا دروازہ’’ ہے۔ اب یہ ہوا کا دروازہ ہوا کے لئے بند ہورہا ہے۔ گوادر شہر کےگرد سیکورٹی کے نام پر باڑ لگانے کے کام کا آغازکردیا گیاہے،پشکان چیک سے لیکر کوسٹل ہائی وے گوادر جیونی زیرو پوائنٹ تک شہر کو مکمل باڑلگا کر سیل کردیا جائیگا۔ باڑ لگانے کاآغاز پشکان چیک پوسٹ سے کیا گیا ہے۔

جو مژانی سے ہوتے ہوئے وشیں ڈور تک کوسٹل ہائی وے گوادر جیونی زیرو پوائنٹ تک مکمل کیا جائیگا،باڑ کی تعمیر کے کیلئے گوادرشہر میں داخلے کیلئے دو انٹری پوائنٹ قائم کیے جا رہے ہیں۔ جس میں ایک کوسٹل ہائی وے جیونی زیرو پوائنٹ اور دوسرا پشکان روڈ آنکاڑہ پُل شامل ہیں۔

یہ منصوبہ گوادر کے نام کا نفی کرتا ہے۔ اس منصوبے سے گوادرکے لوگ ایک پنجرے میں بند ہوجائیں گے۔ اور ایک گھٹن کا ماحول ہوگا۔ جو انسانی آزادی اورنقل وحرکت محدود کرتا ہے۔ اس طرح گوادرکا مستقبل میں نام ‘‘بیجنگ ایکسٹینشن’’ ہوگا۔ کیونکہ یہ منصوبہ بھی وہی کے لوگوں کے مفاد میں بن رہا ہے۔

پسنی سے تعلق رکھنے والے بلوچی شاعر اور قلم کار، انور صاحب خان کو ہم سے جدا ہوئے چند سال کا عرصہ بیت گیا۔ تاہم انہوں نے اپنے تحریروں اور شاعری میں گودار کے بارے جو پیش گوئیاں کی ہیں۔ وہ آج درست ثابت ہورہی ہیں۔ انہوں نے گوادر کے مستقبل کی کچھ یوں منظرکشی کی ہے۔

‏‘‘شبنمی شام سمندر کے کنارے جاکر

‏خوف کے سائے میں گوادر کا نظارہ کرلوں

‏کیا پتہ کل یہاں آتے ہوئے ویزہ نہ لگے

‏کیا پتہ شہر میرا مجھ ہی سے انجان نہ ہو’’

میں جب بھی پسنی کا دورہ کرتا تھا تو میری ملاقات انور صاحب خان سے ضرور ہوتی تھی۔ ان کی تحریریں اور شاعری آج بھی ہمارے دلوں میں نقش ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مستقبل میں گوادر کو دیکھنے کے لئے ہمیں چائینز قونصلیٹ سے ویزہ لگانا پڑیگا۔ ان کو اس بات کا اچھی طرح علم تھا کہ گوادر کی ترقی مقامی افراد کے لئے نہیں ہے۔ انور صاحب خان کی شاعری اور تحریروں کی وجہ سے ان کے ساتھ جو کیا گیا وہ پوری دنیا کے سامنے ایک کھلی کتاب ہے۔

گزشتہ سال گوادر کے متعلق ایک آئینی مسودے کو ایک چینی فرم اور نیشنل کوسٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے اشتراک سے تیار کیاگیا ۔ آئینی مسودے کوگوادر ماسٹر پلان کا نام دیاگیا۔ یہ فیصلہ اسلام آباد میں قومی ترقیاتی کونسل کے اجلاس میں کیاگیا۔ جس کی صدارت وزیراعظم عمران خان نے کی۔

نیشنل کوسٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی ایک وفاقی ادارہ ہے۔ یہ سارے انتظامی معاملات وفاقی حکومت براہ راست دیکھ رہی ہے۔ اس طرح مکران کوسٹل ایریا کو وفاق کنٹرول کرےگا۔ بلوچستان حکومت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔

سیاسی اور سماجی حلقوں نے اس گوادر ماسٹر پلان کو مقامی افراد کے خلاف ایک سازش قراردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے عوام کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لئے آئینی راستہ تلاش کیاگیا ہے۔ جس کے تحت ضلع گوادر کی ساحلی پٹی پر ایک نیا شہر بسایا جائےگا۔ جہاں جدیدہاؤسنگ اسکیمز کے ذریعے غیر مقامی افراد کو بسایا جائےگا۔ بلوچستان کی موجودہ آبادی سے دوگنی آبادی کو بسانے کا منصوبہ تیار کیا جارہا ہے۔

بلوچ حلقوں نے الزام لگایا کہ دراصل یہ ماسٹر پلان ترقی دینے کے نام پر بلوچستان کے عوام کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا ایک آئینی و قانونی ہتھیار ہے۔ یہ اقدام قانون سازی کے ذریعے بلوچستان کی سرزمین پر ڈیموگرافک تبدیلی لانے کی کوشش اور بلوچ قومی تشخص کو مٹانے کا ایک منصوبہ ہے۔

آج اس ماسٹر پلان کے تحت گوادر شہر کی فینسنگ کی جارہی ہے مقاصد بھی واضح نہیں۔ مقامی افراد نے گوادر شہر کی فینسنگ کے عمل کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کچھ روز قبل گوادر شہر کے ایک حصے کی طرف فینسنگ کا منصوبہ شروع کیاگیا ہے جو قابل تشویش ہے، جس سے شہریوں کی آزادانہ نقل و حمل محدود ہوکر رہ جائے گی۔

باڑ لگنے کے بعد گوادر کے قریبی علاقے نگور،جیونی اور پیشکان سمیت دوسرے ملحقہ علاقے کے لوگ آزادانہ طریقے سے آمدورفت نہیں کرسکیں گے۔ مقامی افراد کا مزیدکہنا تھا کہ شہر کی فینسنگ یا باڑ لگانے کے کیا مقاصد ہیں۔جسے وہ کسی بھی صورت قبول نہیں کریں گے۔

مہذب دنیا میں چڑیاگھروں کے خاتمے کے خلاف مہم چل رہی ہے۔ اس مہم کا مقصد ہے کہ چرندوپرند کو پنجرے سے آزاد کرانا ہے۔ انہیں دوبارہ جنگل میں چھوڑا جائے، تاکہ وہ ایک آزاد زندگی گزار سکیں۔ مگر صد افسوس کہ ہمارے حکمران اس سائنسی دور میں بھی غلامانہ سماج کی ذہینت رکھتے ہیں۔

غلامانہ سماج میں انسان کو زنجیروں سے جکڑا جاتا تھا۔ پنجروں میں بند کرکے مارکیٹوں میں ان کی بولی لگائی جاتی تھی۔ آج گوادر کے غریب مچھیروں کے ساتھ وہی ہورہا ہے۔ جو غلامانہ سماج میں ہوتا تھا۔ گوادر کی پوری آباد کو پنجرے میں بند کیا جارہا ہے۔ یہ عمل انسانی حقوق کی پامالی کا مترادف ہے۔ جس سے انسانی آزادی کو قید کیا جارہا ہے۔

سیاسی حلقوں نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ گوادر شہر کو مکمل سیل کرنے کے بعد ایک اور فیصلہ آئیگا۔ جس کی رو سے باڑ کے اندر جتنی بھی مقامی افراد کی آبادی ہے۔ ان کو اپنے گھروں سے بے دخل کیا جائیگا۔

بلوچ سیاسی حلقوں کے مطابق چین،گوادر پورٹ کوکارگو پورٹ کے طورپر استعمال نہیں کریگا۔بلکہ کچھ اور سرگرمیوں کے لئے استعمال کریگا۔ چین نے کارگو پورٹ کی تمام سرگرمیاں ایران کے ساحلی علاقہ چاہ بہار پورٹ میں منتقل کررہا ہے۔ اور اس سلسلے میں ایران اور چین میں ایک معاہدہ ہوا ہے۔ 400 ارب ڈالر کے اس معاہدے کے تحت ایران اگلے 25 سالوں تک چین کو انتہائی سستی قیمت پر خام تیل فراہم کرے گا اور اس کے بدلے میں چین،ایران میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرے گا۔

چاہ بہار پورٹ اور گوادر پورٹ ایک دوسرے کے قریب واقع ہیں۔ ایک مشرقی بلوچستان (پاکستانی بلوچستان) میں اور دوسری مغربی بلوچستان (ایرانی بلوچستان) میں واقع ہے۔1928 تک یہ دونوں شہر ایک ہی سرزمین کا حصہ تھے۔ جسے گریٹر بلوچستان کہا جاتا ہے۔ جسے عالمی طاقتوں نے بلوچوں کی مرکزیت کو کمزور کرنے کے لئے بلوچ سرزمین کو تقسیم کردیا تھا۔

تاہم ماضی کی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیساں ہنوز بھی جاری ہے۔ ایرانی بلوچستان کو چار حصوں میں جبکہ پاکستانی بلوچستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مکران اور جھالاوان کو جنوبی بلوچستان کے نام پر ایک الگ صوبہ بنانے کی پیشرفت ہورہی ہے۔ جبکہ ایرانی بلوچستان کو چار حصوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا۔ اس منصوبے کے تحت بلوچستان، سیستان، مکران اور سرحد نامی چار صوبے وجود میں آ جائیں گے۔

ایک اطلاع کے مطابق چین، ایرانی بلوچستان میں اپنے شہریوں کے لئے بھی ایک نیا شہر بسائے گا۔ جہاں چین سے لوگوں کو لایا جائیگا۔

تہران، اسلام آباد اور بیجنگ ایک ٹرائیکا بن چکا ہے۔ایرانی اور پاکستانی بلوچستان میں عوام کے تمام انسانی حقوق کو سلب کیے جارہے ہیں۔ دونوں طرف چلنے والی قومی تحریکوں کو کچلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان پالیسیوں کی وجہ سے ایران اور پاکستان میں بلوچ مزاحمتی تنظمیں ایک پیچ پر آنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ وہ صرف ایک ایجنڈے پر اتحاد کرسکتے ہیں ساحل اور وسائل پر بلوچ کی حاکمیت کی بنیاد پر ان کا اتحاد ہوسکتا ہے۔

ڈرگ مافیا کا سماجی احتساب۔۔۔عزیز سنگھور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ ،روزنامہ آزادی، کوئٹہ

About The Author