گلزاراحمد،وجاہت علی عمرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سندھو دریا، بیٹ اور کشتی کی خوبصورتی کے مناظر نے میرے دل و دماغ میں جڑیں پکڑلیں۔ میں ان ماچھیوں، مچھیروں کو خوش نصیب سمجھتا ہوں جو اس وسیع اور خوبصورت دریا کے کنارے، پرندوں کی آوازوں کو سُن کر سوتے اور جاگتے تھے۔ سندھو دریا کے ماضی کی تمام خوبصورتیوں اور سحرانگیزیوں کا میں خود شاہد ہوں۔ اب بس وہ تمام خوبصورتیاں ایک افسانہ سی محسوس ہوتی ہیں، ایک خواب بن گئیں۔ وہی خواب جس کی حیات آنکھ کھولنے کے ساتھ ہی گزری رات کی سیاہی میں دفن ہوجاتی ہے۔
آبی پرندوں کی بڑی تعداد سندھو دریا کے شفاف پانی پر تیر رہی تھی۔ دُور سے ایک سیاہ لکیر کا سا گمان ہوتا تھا۔ بیٹ کے اوپر، کانے، کوندر، گھاس پھوس اور سرکنڈوں کے چھوٹے چھوٹے جزیرے ایسے لگتے تھے جیسے کسی نے وہ ہاتھ سے جمادیے ہوں۔کچھ پرندے آ رہے تھے۔ کچھ اُتر رہے تھے۔ کچھ جا رہے تھے۔
پھر چند حواصل(Pelicon) کو میں نے پہلی بار دیکھا تھا۔ حواصل کا پانی پر اُترنا بھی میں نے اسی بیٹ سے پہلی بار قریب سے دیکھا تھا۔ ان حواصل کا وزن میرے خیال میں پانچ، چھ کلو سے زیادہ تھا اور پَر بھی بڑے اور وزنی تھے۔ کہیں پڑھا تھا کہ حواصل پانی میں اُترنے کے لیے دریا کا وہ خشک حصہ چُنتی ہیں جس پر 50 سے 100 فٹ تک لینڈنگ کرسکیں۔ پھر جیسے وہ پانی پر اُترتی ہیں تو پر کُھلے ہوتے ہیں، جسم کا آدھا وزن پروں پر اور آدھا پنجوں پر ہوتا ہے۔ پھر دھیرے دھیرے پروں کو سکیڑتی جاتی ہیں اور پر بند ہوتے جاتے ہیں تو لینڈنگ کا عمل بھی ختم ہوجاتا ہے اور یوں وہ بڑے آرام سے پانی پر تیرنے لگتی ہیں۔
میں نے حواصل کو بیٹ پر لینڈ کرتے اور پھر پانی پر بگلوں، جل ککڑیوں کے ساتھ تیرتے دیکھا، میں آج تک وہ سارا منظر بھول نہیں پایا۔ بیٹ پر سرکنڈوں، کانوں اورلمبی گھاس میں تیز چونچ والی اور نغمہ سنج چڑیائیں، لالیاں، خمریاں اور دوسرے پرندے خوب چہک رہے تھے، ساتھ میں خوبصورت پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ اتر رہے تھے۔
میں نے چاچے فضلو، اسکے بھائی اور چاچے دُلے کو آخری سلام کر کے اپنی منزل کی طرف روانہ ہوا۔ ایک کچی سڑک ٹائپ راستہ تھا، تقریبا15 فٹ چوڑے اس کچے راستے کے اوپر کوندر بچھائی گئی تھی تاکہ بسوں کے ٹائر ریت اور چیکنڑی مٹی میں دھنس نہ جائیں۔ اس کچے اور کوندر بچھے راستے پر چاچے رمضان کی پرانی راکٹ بسیں اور فورڈ ویگنیں مسافروں کو دریا خان لے جاتیں تھیں۔
ان بسوں کی رفتار اتنی کم ہوتی تھی جن کے متعلق مشھور تھا کہ چلتی بس میں کنڈکٹر دروازے پر ڈب ڈب کر کے ڈرائیور کو کہتا ہے استاد بس آہستہ کرو ساتھ سے سائیکل اوور ٹیک کر رہی ہے۔ کشتی کے جتنے مسافر تھے پیدل بیٹ کے اندر اپنے اپنے "بھانڑ ” کی طرف روانہ ہو گئے جو دور سے نظر آ رہے تھے۔ میں بھی اسی کوندر والے کچے راستے پر چلنے لگا کہ شاید آگے چل کر مجھے بھی چاچے رمضان والی کوئی راکٹ بس مل جائے گی۔یہ راستہ جنوب سے شمال کی جانب دریا کے کنارے جا رہا تھا اور آگے مشرق کی طرف مڑتا نظر آتا تھا۔
سامنے کھلے بیٹ پر کچھ مال مویشی چر رہے تھے۔ ایک ” چھیڑو” مجھے دیکھ کے میرے پاس آیا اور بتایا کہ جوان آپ جس بس کا انتظار کر رہے ہو وہ آج نہیں آئے گی کیونکہ جب تک جہاز یا لانچیں نہیں چلتیں، تب تک یہ بسیں بھی نہیں چلتیں، کیونکہ سواری زیادہ نہیں ہوتی۔پھر اس نے مجھ سے پوچھا تم کیا کرتے ہو میں نے اسے بتایا میں دسویں جماعت کا طالب علم ہوں اور ڈیرہ سے لال آلی جھوک شادی پر جا رہا ہوں۔
اس نے کہا کہ تھوڑی دیر انتظار کر لو شاید کسی کی ذاتی سواری یا پھر کوئی اونٹ، گھوڑے والا آ جائے تو اس کے ساتھ چلے جانا۔ کہنے لگا جوان ہو "گپل دو گپل” (کلومیٹر) پیدل چلو، آگے کوئی چیز مل جائے گی۔۔ میں نے ٹھہر کر انتظار کرنے کی بجائے گپل دو چلنے کو ترجیح دی اور چل پڑا۔ جس راستے پر چل رہا تھا اسکے کنارے کے ساتھ ساتھ خود رو کانے اُگے ہوئے تھے۔ میں نے پانچ، چھ خود رو کانے توڑے ان کو صاف کیا اور کوندر کی پٹی سے ان کانوں کو گٹھا بنا کر باندھ لیا اور ایک لکڑی کی طرح ہاتھ میں پکڑ لیا۔
سوچا تھا کہ بیٹ ہے، گھاس پھوس ہے شاید کوئی، سانپ، کتا، گیدڑ یا پھر کوئی دوسرا جانور آ دھمکے تو حفاظت کے لیے سوٹی بنا ڈالی۔ چلتے ہوئے میں نے جیب سے گڑ کے ساتھ بھنے ہوئے گندم کے دانوں والا لفافہ نکالا اور تھوڑا تھوڑا چگنے کے ساتھ ساتھ اس دور میں ثریا ملتانیکر کا مشہور عام گیت "کھڑی ڈیندی ہاں سنہیڑے انہاں لوگاں کوں۔ اللہ آنڑ وساوے ساڈیاں جھوکاں کو ” کو گنگنانے لگا۔ماضی میں کبھی یہ گیت ریاست بھاولپور کا قومی ترانہ رہا تھا۔۔
سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والی عظیم گلوکارہ محترمہ ثریا ملتانیکر کیا سریلی آواز کی ملکہ تھیں۔ یاد رکھیں! حضرت خواجہ غلام فرید کے عارفانہ کلام کو فروغ دینے میں ثریا ملتانیکر کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ثریا ملتانیکر کے علاوہ ان کی خاندان کی محترمہ بدرو ملتانی کو بھی موسیقی کی دنیا میں منفرد مقام حاصل تھا۔
کانوں یا سرکنڈوں کی بنی سوٹی بغل میں دبائے، گندم کے میٹھے دانے کھاتے اور گنگناتے ہوئے اپنی لہر میں رواں تھا۔ اسی راستے میں ماچھیوں کی خستہ حال جھگیاں بھی تھیں۔
جہاں سے، کانے، کوندر اور گھاس پھوس کے جلنے کے دھویں کی سوندھی سوندھی مہک اور جھگیوں کے اوپر پھیلتا سرمئی دھویں کا طلسماتی ماحول میرا دل موہ رہا تھا۔ ہر سو خاموشی کا ڈیرا تھا۔ ان ماچھیوں کے چند چھوٹے ننگ دھڑنگ بچے کوندر کے سٹے سے بنی ہوئی ” بوری ” کھانے میں مصروف تھے، جسکی وجہ سے ان بچوں کے چہرے پر بوری کا پیلا رنگ جا بجا لگا ہوا تھا۔
ماضی میں ہر بچہ بوری کا شوقین تھا، ہمارے بچپن میں آئسکریم، ٹافیاں یا چاکلیٹ نہیں ملتے تھے، بلکہ موٹھ، گھنگڑیاں، دال، پورنیاں، بوری، پاپڑی، تلوں والے مرونڈے، گلدھانڑی، ٹانگری، لچھے، پتیسہ، وغیرہ ملتے تھے اور بڑے شوق سے کھائے جاتے تھے۔
اب اعلیٰ قسم کے پاپ کارن، چاکلیٹ، چاک بار، کرکرے وغیرہ دستیاب ہیں لیکن ہماری ثقافتی و روایتی اور دیسی ذائقہ دار چیزیں اب نظر نہیں آتیں۔ ضروری نہیں کہ کوئی بڑا نقصان ہورہا ہو تب ہی ہم محسوس کریں اور اس پر پچھتائیں۔
بعض تبدیلیوں سے نقصان ہوتا ہے لیکن ہمیں علم نہیں ہوتا کہ کس قسم کا نقصان ہوا ہے۔ بہرحال میں اپنی سوچوں میں گُم رواں دواں تھا اور فطر ت کے حسین مناظر میرے دل و دماغ کو تسکین فراہم کر رہے تھے۔ سندھو دریا کے شفاف پانی پر جب نظر پڑی تو بے اختیار اشو لال فقیر کے یہ مصرعے زبان سے ادا ہوئے۔۔
دریا او دریا پانی تیڈے ڈونگے
توں ساڈا پیو ماء اساں تیڈے پونگے
دریا او دریا دھپ تیڈی تکھڑی
بیڑیاں وچ لنگھ گئی عمراں دی لکھڑی
دریا او دریا جنگلاں دے سانویں
کہیں ڈینھہ تاں ہوسی خوشی ساڈے نانویں۔۔۔
یہ بھی پڑھیے:ملاح اور چراغی(قسط 1)۔۔۔گلزار احمد،وجاہت علی عمرانی
جاری ہے
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ