نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیااعصاب شکن کشمکش طویل ہو گی؟۔۔۔اسلم اعوان

دسمبر کو لاہور میں مینارِ پاکستان پہ جلسہ کے بعد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہو جائے گی‘اعصاب شکن کشمکش طویل ہو گی؟

اسلم اعوان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

13 دسمبر کو لاہور میں مینارِ پاکستان پہ جلسہ کے بعد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہو جائے گی‘ جس کے بعد پی ڈی ایم کی قیادت کے پاس اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ یا پھر اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے علاوہ کوئی اور آپشن باقی نہیں بچے گا‘ اس لئے تصادم کے خطرات بڑھ رہے ہیں؛

اگرچہ اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ مقتدر قوتیں لانگ مارچ جیسے انتہائی اقدام سے قبل پی ڈی ایم کی قیادت کو بامقصد مذاکرات میں انگیج کر کے مسائل کے پُرامن حل کی کوئی راہ تلاش کر لیں گی لیکن بظاہر یہی لگتا ہے کہ مذاکرات میں بھی موجودہ سسٹم کی بساط لپیٹ لیٹنے جیسے پی ڈی ایم کے بنیادی مطالبہ پہ اتفاق رائے نہیں ہو پائے گا

کیونکہ یہ قوتیں اس سسٹم کو لپیٹنے پر تیار نظر نہیں آتیں مگر فریقین کے پاس بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنے کے سوا کوئی دوسری محفوظ راہِ عمل دکھائی بھی نہیں دیتی، لہٰذا فریقین میں سے کسی ایک کو پیچھے ضرور ہٹنا پڑے گا بصورت دیگر ایک حتمی تصادم بالآخر مرکزگریز تحریکوں کو توانائی فراہم کر کے ملکی سلامتی کو خطرات سے دوچار کر سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاست بھی اس سمندر کی مانند عمیق ہوتی ہے جس کی سطح پر جس قدر برہم لہریں ابھر رہی ہوں‘

سطح کے نیچے ہمیشہ ایک گہرا سکون پایا جاتا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے مابین برپا اس اعصاب شکن کشمکش کے باوجود فریقین میں کسی نہ کسی سطح پہ روابط موجود ہیں اور راز ہائے نہاں خانہ سے آگاہ حلقوں کے مطابق رابطہ کاروں کے ذریعے پی ڈی ایم کی قیادت کو سسٹم کے اندر رہتے ہوئے تبدیلی سے متعلق چند تجاویز بھجوائی گئیں جن پہ نہایت سنجیدگی کے ساتھ غور و خوض بھی کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق ان تجاویز میں مسلم لیگ (ق) کے چودھری پرویز الٰہی کو بطور وزیراعلیٰ قبول کرنے کے بدلے میں پہلے پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت سے نجات حاصل کرنے کی راہ نکالنے کے علاوہ بلوچستان، جہاں حکومت اور اپوزیشن کے مابین چونتیس اور چوبیس کا تفاوت ہے‘ میں اختر مینگل کی بلوچ نیشنل پارٹی اور اے این پی کی مدد سے تبدیلی لا کر وہاں جے یو آئی کی مخلوط حکومت بنانے کی پیشکش بھی کی گئی بلکہ اس سے مزید آگے بڑھ کر مولانا فضل الرحمن کو سینیٹ کا چیئرمین منتخب کرانے اور وفاقی حکومت میں شامل چھوٹی جماعتوں کی مدد سے مرکز میں بھی طاقت کا توازن تبدیل کرنے کا آپشن سامنے رکھا گیا لیکن ان تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کی صورت میں حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں وہ سب کچھ گنوا دیں گے جس کے لئے وہ باہم دست و گریباں ہیں۔

بلاشبہ موجودہ بندوبست کے اندر رہتے ہوئے تبدیلی کے عمل سے انتخابی اصلاحات کے لئے مؤثر قانون سازی کے علاوہ جمہوریت کے ڈی ریل ہونے کے خدشات تو کم ہو سکتے ہیں لیکن اس طریقۂ کار میں اپوزیشن جماعتوں کے لئے چند ایسی خرابیاں موجود رہیں گی جو ان کی سیاسی ساکھ اور پاپولر جمہوریت کی افادیت کو صفر بنا سکتی ہیں۔ پہلی یہ کہ اِن ہائوس تبدیلی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے فریقین کو مقتدرہ کی مدد پہ انحصار کرنا پڑے گا، جس سے سیاستدانوں کی ساکھ مجروح اور جمہوری عمل مزید پا بہ جولاں ہو جائے گا ،

دوسرے مسلم لیگ نون کو نوازشریف کے بیانیے سے دستبردار ہو کے ایک بار پھر اسی سسٹم کے اندر واپس پلٹنا پڑے گا جس کی زنجیریں توڑ کے وہ مزاحمت کی وادیٔ پُرخار کی آبلہ پائی پہ مجبور ہوئی تھی، حتیٰ کہ اس سے 2018ء کے الیکشن میں دھاندلی کا الزام بھی ازخود پس منظر میں چلا جائے گا، جس سے عمران خان کی پی ٹی آئی اور موجودہ بندوبست کے تخلیق کاروں کی ساکھ تو محفوظ ہو جائے گی مگر اپوزیشن کے بارے میں یہ منفی رائے مزید پختہ ہو جائے گی کہ یہ لوگ آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے لئے نہیں بلکہ محض حصولِ اقتدار کی خاطر برسر میدان اترے تھے، اس لئے امید ہے کہ چند چھوٹی جماعتوں سمیت نواز لیگ ایسی کسی سکیم کا حصہ بننے پہ متفق نہیں ہو گی جس سے ان کے سیاسی بیانیے کی مقبولیت اور جماعتی قیادت کی ساکھ کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو؛ چنانچہ پی ڈی ایم والوں کو لامحالہ موجودہ سسٹم کی بساط لپٹنے کے لئے اپنے اعلان کردہ لانگ مارچ اور اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے آپشن کے استعمال کی طرف جانا پڑے گا۔

دوسری طرف اس حقیقت سے بھی گریز نہیں کہ تصادم کی پالیسی ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام کو بڑھا کے انتظامی ریاستی ڈھانچے کو کمزور کر دے گی۔ قرائن بتاتے ہیں کہ پی ڈی ایم پہلے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے آپشن کو استعمال کر سکتی ہے‘ اگر ایسا ممکن ہوا تو سندھ اسمبلی توڑ کے سب سے بڑی قربانی پیپلزپارٹی کو دینا پڑے گی لیکن اس منجمد سیاسی سسٹم کو توڑ کے نئے سیاسی نظام کی تعمیر کے دوران سویلین بالادستی کے حصول کی مہم میں کارفرما جماعتیں ٹوٹ پھوٹ سے بچ نہیں سکیں گی۔ نوازلیگ اور جے یو آئی کو جزوی نقصان پہنچ سکتا ہے مگر پیپلزپارٹی اور اے این پی جیسی کئی جماعتیں پوری طرح اس کشمکش کا ایندھن بن کے ہمیشہ کے لئے پس منظر میں جا سکتی ہیں۔

بظاہر یہی لگتا ہے کہ اس جدلیات کے آخری انجام میں مسلم لیگ نواز اور جے یو آئی ہی اس تحریک کے اصل بینفشری بن کے ابھریں گی لیکن اس حقیقت سے بھی اغماض ممکن نہیں کہ جو جماعت تغیرات کی اس لہر سے جدا ہو گئیں وہ بھی مستقبل کے امکانات سے بہت پیچھے رہ جائے گی۔ اس لئے تمام تر تحفظات کے باوجود پیپلزپارٹی کی کہنہ مشق قیادت تاریخ کے ہاتھوں مرنے سے بچنے کی خاطر کشمکشِ ضدین کی اس جدلیات میں ہی قسمت آزمانے کو ترجیح دے گی؛ تاہم اس سب کے باوجود پی ڈی ایم کے قائد مولانا فضل الرحمن کے لئے اسمبلیوں سے استعفوں یا لانگ مارچ جیسے اقدامات پہ گیارہ جماعتوں کا اتفاق رائے حاصل کرنا اور

ان فیصلہ کن اقدامات کو نتیجہ خیز بنانا آسان نہ ہو گا۔
یہ عین ممکن ہے کہ پی ڈی ایم جب طاقت کے مراکز کے خلاف حتمی تصادم کی طرف بڑھے تو کئی جماعتیں پیچھے ہٹ کے خود کو اس کشمکش سے الگ کر لیں اور ایک بارپھر جے یو آئی کے پہلے لانگ مارچ کی طرح اب بھی استعفوں کا آپشن ثمربار نہ ہو سکے۔ ہرچند کہ راقم کے ساتھ حالیہ ملاقات میں مولانا فضل الرحمن اپنی تحریک کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے پُرامید نظر آئے، خاص طور پر پیپلزپارٹی کے طرزِ عمل کے بارے میں پائے جانے والے مبینہ خدشات کی انہوں نے قطعیت کے ساتھ نفی کرتے کہا کہ پی ڈی ایم کی قیادت پوری ذمہ داری کے ساتھ قوم کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دینے کے علاوہ ایک مثبت عوامی دبائو کے ذریعے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بدلتے ہوئے عالمی حالات کے تناظر میں ہماری مملکت کے اندر اٹھنے والی ان سیاسی تحریکوں نے قومی سیاست میں پائے جانے والے مہیب جمود کو توڑ کے ایک نیا سیاسی تمدن متعارف کرانے کی کامیاب کوشش کی، ایک ایسا سیاسی کلچر جس کی آبیاری میں گلی کوچوں میں متحرک رہنے والے سیاسی کارکنوں کی بے مثال قربانیوں کے علاوہ سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کا کردار بھی نمایاں نظر آتا ہے، جنہوں نے پس چلمن بیٹھ کے فیصلہ سازی کے عمل پہ اثر انداز ہونے والی قوتوں کو بے نقاب کر کے اِس جمودپرور سماج کو خود اپنے آپ سے روشنا س کرا دیا جس کے اندر بنیادی انسانی حقوق اور جمہوری آزادیوں کی خواہش موجود ہی نہیں تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح انفارمیشن ٹیکنالوجی نے سیاست کے ٹول بدل کے ہمیں عالمی برادری کے ساتھ منسلک کر دیا‘

اسی طرح وقت نے اب رموزِ حکمرانی کے اصول بھی بدل ڈالے ہیں، جدید سیاست کی بیباک تنقید نے ہر شعبہ میں کج صلاحیتی اور بدعنوانیوں کو بے نقاب کرکے ہمیں جمہوریت کی ارفع حیثیت پہ شک کرنے پہ مجبور کر دیا، یوٹیوب چینلز نے کم ترین اذہان کو بلند کرنے کے بجائے بلند ترین لوگوں کو نیچے گرا دیا، سیاست سے مذہب اور سماج سے ادب تک ‘حتیٰ کہ سائنس پر بھی اوسط درجہ کے لوگ چھا گئے ۔ شاید جمہوریت ہماری زندگی کے انہی تصورات کی گستاخانہ توجیہ کرے گی کیونکہ جمہوری سیاست میں ہر دلیل اپنا تضاد خود پیدا کرتی ہے۔

کشمیریوں کا مستقبل۔۔۔اسلم اعوان

About The Author