ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ خان جمالی کے انتقال سے پورا پاکستان سوگوار ہے ۔ نہایت شریف النفس ، محبت کرنے والے انسان سے بڑھ کر بڑی بات یہ ہے کہ پاکستان سے محبت کرنے والے تھے ۔ نفرت سے ان کو نفرت تھی ، سیاست میں شرافت کے امین تھے ۔ ان کی وفات سے ہم شرافت کے پیکر سے محروم ہو گئے ہیں ۔ میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ چند دن پہلے مجھے بلوچستان جانے کا اتفاق ہوا ، میر ظفر اللہ جمالی کے علاقے ڈیرہ مراد جمالی جانا ہوا ، ان سے ملنا چاہتے تھے مگر وہ علالت کے باعث وہاں موجود نہ تھے۔
ڈیرہ مراد جمالی میں جاموٹ قومی موومنٹ کے سربراہ اور سابق صوبائی وزیر صحت میر عبدالماجد ابڑو نے میرے اور جانشین دربار کوٹ مٹھن خواجہ غلام فرید کوریجہ کے اعزاز میں استقبالیہ کا اہتمام کیا اس موقع پر انہوں نے کہا کہ جام اور جاموٹ بہت احترام کا لقب ہے ، موجودہ وزیراعلیٰ جام کمال کے علاوہ بلوچستان کے قومی شاعر جام دُرک بھی جام کہلاتے تھے اور یہ 18ویں صدی کے شاعر تھے ۔ لفظ جمالی سے مجھے انسیت اس بناء پر ہے کہ میرے گاؤں دھریجہ نگر کے آس پاس جمالی برادری آباد ہے ایک دوسرے سے جنم جنم کا ساتھ ہے، چند سال پہلے چیئرمین سینیٹ میر جان محمد جمالی وہاں آئے ‘ ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے سرائیکی زبان و ادب کی خدمت کرنے پر مجھے بہت احترام دیا ۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی قدیم زبان سرائیکی ہے ، میر ظفراللہ جمالی کی وفات کی خبر ہمارے لئے کسی صدمے سے کم نہ تھی کہ ابھی چند دن پہلے سرائیکی ادبی سنگت کوئٹہ کے سرپرست کی حیثیت سے میں نے ان کا ذکر کیا تھا ۔
اب موقع ملا ہے تو عرض کرتا چلوں کہ میر ظفر اللہ خان جمالی یکم جنوری 1944ء کو بلوچستان کے ضلع نصیرآباد کے گاؤں روجھان جمالی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم روجھان جمالی میں ہی حاصل کی۔ ایچیسن کالج لاہور اور 1965ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے تاریخ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ ظفر اللہ جمالی صوبہ بلوچستان کی طرف سے اب تک پاکستان کے واحد وزیر اعظم ہیں۔
ظفر اللہ جمالی کی مادری زبان سرائیکی ہے لیکن انگریزی، اردو، سندھی، بلوچی، پنجابی اور پشتو زبان پر عبور رکھتے تھے۔ 1977ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور محمد خان بادوزئی کی کابینہ میں وزیر مقرر ہوئے۔ 30 مئی 1988ء کو جب جنرل ضیا الحق نے محمد خان جونیجو کی حکومت اور اسمبلی معطل کی تو میر صاحب کو بلوچستان کا نگران وزیراعلیٰ مقرر کر دیا گیا ۔
1988ء کے انتخابات میں میر صاحب قومی اور صوبائی دونوں ہی سیٹوں سے کامیاب ہوئے ۔ انہوں نے صوبائی اسمبلی کی نشست برقرار رکھی اور صوبائی وزیراعلیٰ بن گئے لیکن اعتماد کا ووٹ لینے کے مسئلے پر معاملہ بلوچستان ہائیکورٹ تک پہنچا اور وزارت عالیہ ان کے پاس چند روز ہی رہی ۔ 1993ء میں بھی رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور ان کے چھوٹے بھائی میر عبدالرحمن جمالی سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ 1993ء میں نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے بعد خوراک و زراعت کے وزیر مملکت بنائے گئے۔ 9 نومبر 1996ء تا 22 فروری 1997ء دوبارہ بلوچستان کے نگراں وزیراعلیٰ رہے۔
انتخابات 2002ء اکتوبر کے نتیجے میں ان کو پارلیمنٹ نے 21 نومبر 2002 ء میں وزیر اعظم منتخب کیا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جمالی خاندان کا قیام پاکستان میں ہر اول دستے کا کردار ہے ، ان کے بزرگوں کی قربانیاں ہیں ، ضلع جعفر آباد انہی کے نام سے ہے اور جعفر ایکسپریس بھی کا نام بھی ان کے نام پر رکھا گیا ۔ تحریک پاکستان میں بلوچستان کے اہم رہنما میر جعفر خان جمالی 14 فروری 1908ء کو روجھاں تحصیل جھٹ پٹ ، ضلع سبی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا 1924ء میں انتقا ل ہوگیا اور یوں جعفر خان کو نوعمری میں خاندان کا بوجھ اٹھانا پڑا۔
1927ء میں سیاست میں قدم رکھا ، انجمن اسلام کے صدر کے ساتھ ساتھ قوم پرست جماعت انجمن وطن کے صدر رہے اور انگریزوں کے مقابلے میں مسلم لیگ سے وابستگی قائم کی ۔ 18اکتوبر 1931ء کو جیکب آباد میں قائد اعظم کے اعزاز میں دعوت دی اور جلسے کو کامیاب کرایا ۔ سندھ اور بلوچستان میں مسلم لیگ کو منظم کیا ۔میر جعفر خان جمالی نے نواب محمد خان جوگازئی کے ساتھ ملکر جرگہ منعقد کرایا اور جرگے میں شامل سرداروں کو پاکستان کے ساتھ شمولیت پر آمادہ کیا ۔
میر جعفر خان جمالی بہت سمجھدار آدمی تھے ، انہوں نے کراچی سے نصرت اور جیکب آباد سے صداقت کے نام سے میگزین جاری کئے۔ قیام پاکستان کے بعد ون یونٹ قائم ہوا تو انہو ںنے ون یونٹ کی بڑھ چڑھ کر مخالفت کی اور 25 مارچ 1955ء کو انکو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا ۔
1956ء میں آئین کی منسوخی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا ۔ 7 اپریل 1967ء کو ان کا انتقال ہوا تو محترمہ فاطمہ جناح نے بے ساختہ کہا کہ ’’ میرا دوسرا بھائی بھی میرا ساتھ چھوڑ گیا ‘‘ ۔ سرائیکی زبان کی کہاوت ’’ جیونْ کوڑ مرنْ سچ ‘‘ کے مصداق موت بر حق ہے ، سابق سپیکر قومی اسمبلی صاحبزادہ فاروق علی خان 29 نومبر 2020ء کو ملتان میں انتقال کر گئے ۔
وہ 9 اگست 1973ء کو قومی اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوئے اور 27 مارچ 1977ء تک اس عہدے پر برقرار رہے ۔ 1973ء کا آئین انہی کے دور میں منظور ہوا ۔ معروف کالم نگار عبدالقادر حسن کی وفات 30 نومبر کو ہوئی ، انہوں نے لاہور میں اپنا نام بنایا اور اپنی ماں دھرتی سون سیکیسر میں آسودہ خاک ہوئے ۔
ماں بولی کے ساتھ ساتھ ماں دھرتی کی بھی بہت اہمیت ہے کہ ساری زندگی آدمی جتنا بیگانہ رہے آخر اسی کی آغوش میں میں آنا ہوتا ہے ، ملتان کے سابق صوبائی وزیر اور پانچ مرتبہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایم پی اے بننے والے سید ناظم شاہ یکم دسمبر 2020ء کو وفات پا گئے ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحومین کی مغفرت فرمائے ۔
یہ بھی پڑھیں:سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ