عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیارے چچا سید بدرعباس ساکن سورگ!
آداب قبول کیجئے،
میں یہاں اس بے ثبات دنیا سے فلک ثبات میں آپ کو یہ خط لکھ رہا ہوں۔ اور آپ کو یہ اطلاع دے رہا ہوں کہ شناخت کے نام پر جینے کے حق سے محروم کیے جانے والوں اور ملک میں جمہوری آزادی کی مانگ کرنے کی پاداش میں زندگی سے محروم ہونے والوں کو درپیش المیہ و طربیہ کی عکاسی کرنے والا عباس زیدی کے ناول کا اردو قالب شایع ہوگیا ہے۔
اور کل اس کا پہلا نسخہ میں، میں نے آپ کی پیاری بیٹی اور داماد کے ہاتھ میں دیا ہے اور ساتھ ہی اپنی مرتب کردہ کتاب بھی دی ہے۔ میں نے انگریزی میں لکھے جانے والے اس ناول کو اردو قالب دیا ہے۔
آپ یہاں ہوتے تو یہ میں اس کتاب کی "تقریب پذیرائی” کی صدارت آپ کو سونپتا اور آپ کو ” بحالی جمہوریت ایوارڈ” بھی دیتا- آپ جیسے منجھے ہوئے بالغ سیاسی کارکنوں نے سیاست کی عزت قائم رکھی اور اس ملک میں جتنے بھی حقوق اور آزادیاں جیسی بھی ہیں ان کو ممکن بنایا۔
آج آپ ہوتے تو دیکھتے کہ کیسے میاں نواز شریف اپنے پالنہاروں کے ڈسے ہوئے ہیں اور ان کی بیٹی آپ کے محبوب قائد کو رات کی تاریکی میں پھانسی پر چڑھانے کا نوحہ ملتان کے چوک گھنٹہ گھر میں بڑے جلسہ عام کے سامنے پڑھ کر گئی اور ساری دنیا نے اسے یہ نوحہ پڑھتے دیکھا اور جن باتوں پر آپ جیسے کارکن پابند سلاسل ہوئے تھے، آج ان باتوں کے سچ ہونے پر دائیں اور بائیں دونوں کیمپوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ہاں موقعہ پرست کل بھی یزیدی کمیپ میں تھے اور آج بھی وہیں کھڑے ہیں۔
میں آپ کو یہ بھی بتانا چاہتا تھا کہ آپ جس شناخت کے سبب مارے گئے اور آپ سے جس شناخت کے سبب جینے کا حق چھین لیا گیا، آپ کے جانے کے ایک عشرے بعد صرف اس شناخت کے سبب جوان مرد ہی نہیں مارے گئے بلکہ بوڑھوں ، عورتوں اور بچوں تک کو نہ چھوڑا گیا۔
نہ امام بارگاہ بچی تھی ، نہ مزار و درگاہ بچی اور نہ مندر بچے نہ کلیسا بچے اور نہ ہی مساجد بچیں ، نہ عاشورا کے جلوس بچے نہ میلاد کے اور آپ کے اس بھیتجے نے جو آپ کے صوفی سنّی دوست بھائی کا بیٹا ہے نے ایسے وقت میں مٹھی بھر لوگوں کے ساتھ آواز اٹھائی جب خود معتوب شناختوں کے حاملین کے ہاں مصلحت پسندوں کی کمی نہ تھی۔ آپ کے بعد ہم نے جمہوریت، سماجی انصاف اور حریت فکر کا علم اٹھایا اور اسے نیچے نہیں ہونے دیا۔
آپ اگر حیات ظاہری سے مزید سرفراز رہتے تو میں آپ کی ملاقات عباس زیدی سے ضرور کراتا۔ یہ اسی پرانی انار کلی میں ایک گھرانے کے باسی ہیں جہاں آپ کا دوست سید ناظم حسین شاہ رہتے تھے۔ آپ کو تکلیف تو ہوگی لیکن بتاتا چلوں اب ناظم حسین شاہ شہباز شریف کے دست و بازو بن گئے ہیں۔ عباس زیدی کے گھرانے کا پہلا عشق اگر خانوادہ اہل بیت ہے تو دوسرا عشق پاکستان پیپلزپارٹی اور بھٹوز ہیں۔
یہ وہ پہلے ماہر سماجیات و انتھرپولوجی ہیں جنھوں نے "بے رحم شیعہ نسل کشی” اور "پاکستانی میڈیا کا شیعہ نسل کشی پر ڈسکورس” جیسے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ مستند مقالے لکھے اور آپ کے اس بھتیجے کو ان کے اردو ترجمے کا اعزاز ملا ہے۔ اب ان کا آپ کی بہن شہید بے نظیر بھٹو قتل کے پس منظر میں لکھے ناول کو اردو قالب میں ڈھالنے کا موقعہ ملا ہے۔
مجھے نجانے کیوں یہ گمان ہوتا ہے کہ وہاں سورگ میں شہید بی بی محترمہ بے نظیر بھٹو کے لیے پہلی مجلس عزا آپ نے "قصر عابدی عزا خانہ” میں منعقد کی ہوگی۔ ہم جیسے دیوانے آپ کے شہر میں کچھ زیادہ تو نہیں ہیں لیکن جتنے بھی ہیں آپ جیسی ہستیوں کا چھوڑا ورثہ سنبھالے بیٹھے ہیں اگرچہ ہماری آوازیں اس شہر کے مرکزی دھارے میں شامل نہیں ہیں لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔
آپ کے دور میں ستار طاہر، نسرین بھٹی تھے اور ہمارے دور میں عباس زیدی ہیں، صفدر نوید زیدی ہیں، سید کاشف رضا ہیں، خالد فتح ہیں، نجم الدین ہیں، علی اکبر ناطق ہیں، رحمان عباس ہیں۔ یہ فکشن کے راستے اس شعور کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں جسے بار بار مردہ کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ خواتین میں کوثر جمال ہیں، شہناز نقوی ہیں، روما رضوی ہیں، عذرا عباس ہیں، ڈاکٹر طاہرہ کاظمی ہیں۔
اور فکشن کی صنف افسانہ اور کہانی کے باب میں تو مشکل میں ہوں کس کس کے نام لکھوں اور کسے چھوڑ دوں۔ آپ سورگ میں اپنے ہم نشینوں میں آرام سے ہوں گے۔ ملک اسماعیل وہیں ہیں، زاہد قریشی (قریشی لائبریری والے) بھی ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیے:اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی
شیخ یامین فریدی، شیخ پیر محمد پیرو، یوسف بندیشہ، مجید انور، خورشید انور، بابا شیخ اسلام الدین، شیخ اصغر، عطا محمد عاصی اور میجر رفعت ڈاہا، جبکہ حال ہی میں یہاں سے وہاں منتقل ہونے والے جاوید اقبال ہاشمی ایڈوکیٹ اور بھائی جی شیخ نصیر الدین طارق بھی وہیں ہوں گے۔ شیر عالم شیرازی بھی تو وہیں ہوں گے اور بہت بڑا خانیوال پیپلزہاؤس تشکیل دے دیا ہوگا۔ خوب محافل سجتی ہوں گی۔
سنتے وہاں جو بھی داخل ہوتے ہیں وہ مطمئن نفوس کے ساتھ داخل ہوتے ہیں
سنتے وہاں جو بھی داخل ہوتے ہیں وہ مطمئن نفوس کے ساتھ داخل ہوتے ہیں۔ احمد علی شاہ سوڈا والے تو مجھے اس دنیا میں نفس مطمعنہ کے منصب پہ فائز لگتے تھے ، وہاں کہیں آپ کے پڑوس میں بنے کسی قصر میں رہتے ہوں گے اور انہوں نے وہاں "سپر بوتل ” متعارف کرادی ہوگی جو وہاں کے شراب طہور سے مقابلہ کرے نہ کرے اپنا ایک مقام تو رکھتی ہوگی۔
ابتک کوئی ایسی کورئیر سروس یا ای میل سروس ایسی شروع نہیں ہوئی جو وہاں ڈاک پہنچا دیتی ہو جہاں کے آپ مکین ہو۔ لیکن صاحبان عرفان کہتے ہیں ان کے پاس وجدان کی طاقت ہے جو وہاں تک پیغامات کی ترسیل کردیتی ہے۔ سوچ رہا ہوں ہمارے پاس تو ایک مرشد حیدر جاوید سید ڈن ہل والی سرکار ہیں۔ ان کے لیے مطلوبہ مقدار میں ڈن ہل خریدلیں تو عباس زیدی کا ناول اور یہ خط دونوں آپ تک پہنچائیں گے۔
آپ کے دوست کابیٹا
عامر حسینی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر