گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک کے ممتاز سائیکاٹرسٹ اور رائٹر ڈاکٹر شاہد مسعود خٹک نے پچھلے ہفتے اپنے کچھ اسفار سے متعلق ۔ جہان حیرت ۔کے ٹایٹل سے کتاب چھپوائی اور مجھے کتاب کی ایک جلد عنایت کی۔ میں دو دن سے اس کتاب کو چمٹا بیٹھا ہوں اور حیرت کے جہان میرے رگ رگ میں اترتے چلے جا رہے ہیں۔ ایک تو حیرانگی اس بات پر ہے کہ ڈاکٹر حضرات جن کا لکھا ہوا نسخہ اتنا پیچیدہ اور املا کی غلطیوں سے پر ہوتا ہے کہ اعلی تعلیم یافتہ انسان بھی ان کو نہیں پڑھ سکتا ان کے ہاتھ سے اتنی خوبصورت کتاب کیسے لکھی گئی ہوگی۔
دوسری حیرت اس بات پر ہے کہ ایک ڈاکٹر کا قلم ایک منجھے ہوئے ادیب کی طرح دریا کی لہروں پر رواں دواں چلتا جا رہا ہے ۔خیر اگر شوق ہو اور محنت کی جاۓ تو ایسے مشکل مرحلے بھی طے ہو جاتے ہیں۔ان کی خدادا قابلیت کا بھی بہت بڑا کردار ہو گا ۔اس کتاب میں روس ۔جاپان ۔ترکی ۔ازبکستان اور انڈیا کے تاریخی شھروں کے دلچسپ مناظر قلم بند کیے گیے ہیں۔
روس میں سینٹ پیٹر زبرگ کی سفید راتیں۔جاپان میں ہیرو شیما کا جن باکو گنبد ۔استنبول کی نیلی مسجد ۔ سمر قند کا مشہور مقام شاہ زندہ اور تاج محل آگرہ میں گزاری چاندنی راتوں کے مناظر شامل ہیں۔ میں فی الحال ان کے روس کے دورے کی حیرت انگیز باتیں لکھ رہا ہوں اور باقی اسفار جوں جوں پڑھونگا تو کبھی کبھی قاریین کی نظر کرتا رہونگا۔ روس کے متعلق ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ دو براعظموں یورپ اور ایشیا میں پھیلے ساڑھے چودہ کروڑ آبادی والے اس ملک کی سرحدیں 16 ممالک سے ملتی ہیں جبکہ اس کے اطراف میں پانچ سمندر ہیں۔ اس ایک ملک میں گیارہ ٹائم زون ہیں ۔
یہ ملک تیل ۔جنگلات اور زرعی رقبے کے لحاظ سے مالا مال ہے اور دنیا میں سب سے آگے ہے۔ ماسکو میں ڈاکٹر صاحب کریملن کی شاندار تاریخی عمارت دیکھنے گیے ۔وہ لکھتے ہیں کریملن کے لفظی معانی شھر کے اندر قلعہ کے ہیں۔ کیونکہ یہ روس کے اقتدار کا مرکز ہے اور طاقت و اتھارٹی کی علامت ہےاس لیے دنیا میں کریملن سے مراد روسی حکومت لیا جاتا ہے۔اس عمارت میں پانچ شاندار شاہی محلات اور چار عظیم کیتھڈرل ہیں۔صدر کی رہائش گاہ بھی یہیں ہے۔
احقر کالم نگار کو بھی ایک دفعہ روس اور پاکستان کے سربراہوں کی کریملن میں بات چیت کو کور کرنے کا موقع ملا اور جس طرح ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے اس عمارت سے روس کی سطوت اور شان کا اظہار ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کریملن کے ساتھ مشھور ریڈ سکوائر بھی گیے مگر اب یہ علاقہ کمرشلایز ہو گیا ہے اور وہ پہلے والی آن بان نہیں رہی۔ ڈاکٹر صاحب نے ماسکو یونیورسٹی کا ڈیپارٹمنٹ آف میڈیسن دیکھا جس کی لائیبریری میں 90 لاکھ سے زیادہ کتابیں اور ریسرچ میگزین رکھے تھے۔وہاں 47ھزار طلبا زیر تعلیم تھے اور اس یونیورسٹی کے تیرہ طالب علم نوبل پرائز حاصل کر چکے ہیں۔
روس کے ایک اور شھر سینٹ پیٹرز برگ کی سفید راتوں کا ڈاکٹر صاحب نے خصوصی ذکر کیا ہے اس شھر میں سورج رات پڑنے کے باوجود مکمل طور پر افق سے نیچے غروب نہیں ہوتا اور اس کی مدھم روشنی رات کو برقرار رہتی ہے۔یہاں جون جولائی کے مہینے ایک میلہ لگتا ہے جس میں پوری دنیا کے فنکار حصہ لیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کو روس کے شھروں میں سرکس بہت پسند آے ۔میرا خیال ہے ماضی میں انڈیا پاکستان میں سرکس میں کرتب دکھانے والی اکثر لڑکیاں روسی ہوتی تھیں اس لیے سرکس دیکھنے کی ہماری ان سے محبت اور روایت بہت پرانی ہے۔ سچی بات یہ ہے جب 1976 کے اولمپک جمناسٹک گیمز مانٹریال میں رومانیہ کی نادیہ کیموچی
Nadia Comaneci
نے دس کے دس نمبر لے کر گولڈ میڈل حاصل کیا تھا تو اس وقت ہم اس 14 سالہ لڑکی کو جمناسٹک گرل کی بجائے سرکس گرل سمجھ بیٹھے تھے۔
خیر ڈاکٹر شاہد مسعود خٹک کی کتاب جہاں حیرت کی حیرانگی ہم پر تو طاری ہے ۔آپ اگر یہ کتاب لینا چاہیں تو یونائیٹڈ بک سنٹر ڈیرہ سے رابطہ کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شاہد مسعود خٹک کی کتاب جہان حیرت میں دوسرا چیپٹر جاپان کا ہے جہاں انہوں نے ٹوکیو ۔اوساکا اور ہیروشیما کی سیر کی۔یہ باب حیرت انگیز واقعات سے بھر پڑا ہے۔پہلی حیرت تو یہ ہے جاپان 6852 جزیروں پر مشتمل ایک ملک ہے۔ پاکستان پہلے دو حصوں میں تھا مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان مگر ہم اتنے نااہل تھے کہ دو حصے نہ سنبھال سکے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جاپان میں صدیوں شہنشاہیت قائم رہی۔ بادشاہ کو خدا کا انسانی روپ اور سورج دیوتا کی اولاد سمجھاجاتا تھا۔
کہتے ہیں جنگ میں شکست کے بعد ہتھیار ڈالنے کی تقریب میں جب بادشاہ نے یہ کہا کہ میں بھی تم لوگوں کی طرح ایک انسان ہوں اور ہتھیار ڈالنے اور شکست قبول کرنے کا اعلان کرتا ہوں تو یہ عام جاپانیوں کے لیے زندگی کا سب سے بڑا دھچکا تھا اور اس کا صدیوں کا طلسم ٹوٹ گیا۔پھر نیا آئین بنا اور بادشاہ کا کردار علامتی ہو گیا اور وہ خاموش زندگی گزار رہا ہے۔
مگر بدقسمتی سے پاکستان بننے کے بعد بھی ایک طبقہ شہنشاہیت کی طرح ہم پر مسلسل مسلط چلا آ رہا ہے اور ہم بھی ان کو ناخدا سمجھ بیٹھے ہیں۔ چاہے ملک لوٹے ہماری عزتیں پامال کرے یا ملک کی دولت فروخت کر کے ہمیں غیروں کا غلام بنائے۔
یہ بالا دست طبقہ ۔پارلیمنٹ ۔صنعت وحرفت۔پراپرٹی اور اقتدار پر قابض ہے اور انگریزوں سے آزادی کے بعد قوم کو انگریزوں کی حکومت سے بھی برے حال میں رکھا ہوا ہے۔آجکل بھی ہم کسی سے لڑتے ہیں تو کہتے ہیں ۔۔۔تو کوئی گورنر دا پتر ہیں۔۔۔یعنی گورنر شہنشاہ ہوتا ہے ۔؎
میں نے پتھر سے جن کو بنایا صنم۔۔
وہ خدا ھو گئے دیکھتے دیکھتے۔۔۔۔
ڈاکٹر شاہد مسعود نے اپنے اعزاز میں ایک روائیتی ٹی پارٹی کا تفصیل سے ذکر کیا ہے جس میں روایتی پسی ہوئی سبزچاے ماچا پیش کی گئی۔مجھے یقین ہو گیا ہے ہماری چونک پر رکھی بڑی چارپائی ماچا کا لفظ جاپان سے آیا ہو گا۔ کیونکہ ایک بڑے کمرے میں زمین پر بچھی چٹائی پر وہ چاے پیش کی جاتی ہے البتہ یہ چاے سامنے بیٹھی خواتین خاص روایتی جاپانی کیمونو لباس پہن کر پیش کرتی ہیں۔
ہو سکتا ہے ماضی میں ہمارے ماچے پر بھی خواتین ساوی بوراقین کا سوٹ پہن کرچاے پیش کرتی رہی ہوں مگر ہمارے مردوں کو خواتین پر غصہ تو بہت آتا ہے وقت کے ساتھ خواتین کو ہٹا کر مردوں نے چاے پیش کرنے کا رواج شروع کیا ہو۔ ایک اور دلچسپ بات ڈاکٹر صاحب نے یہ لکھی کہ جاپان کے اولڈ ایج ھومز میں تعینات ہیلتھ ورکرز لڑکیاں بوڑھوں کی خوب خدمت کرتی ہیں لیکن ان کے اپنے بوڑھے والدین کسی اور ھومز میں ہوتے ہیں اگر یہی لڑکیاں اپنے اپنے والدین کو سنبھالیں تو کتنا بہتر ہو گا۔
بہر حال ڈاکٹر صاحب ہمارے روائیتی معاشرے سے متاثر نظر آتے ہیں ورنہ آج کل پاکستان میں بھی دلھا والے بھاری جہیز۔گاڑی وغیرہ کا مطالبہ کرتے ہیں اور کچھ لڑکیاں صرف ایک ہی مطالبہ کرتی ہیں کہ ۔۔۔ساس نہ ہو یا اس کی تصویر دیوار پر ٹنگی ہو۔۔
ہیروشیماجہاں ایٹم بم گرا اس تباہ شدہ ملبے پر سب سے پہلے جو پھول اُگا وہ oleandor یا اسطوخودوس کا تھا۔یہ زہریلا پھول اس جگہ کا قومی پھول ہے جس نے نئی زندگی کی نوید سنائی۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کا نام عزت سے نہیں لیا اور درشتت کہا حالانکہ ہمارے حکیم اسطوخودوس بہت سی دواوں میں استعمال کرتے اور ہمیں کھلا کر ہمارا اسطوخوردوس نکال دیتے ہیں۔
ڈاکٹر شاہد مسعود نے ہیروشیما پر بم گرنے کی دلخراش داستان بہت تفصیل سے لکھی ہے مگر رلا دینے والی ہے ۔میں قاریین کو کیوں رلاوں پہلے کرونا اور دوسرے ٹی وی پروگرام رلانے کو کافی ہیں۔ میرا ایک کزن جو رات کو بہت ٹی وی دیکھتا ہے کل رات آیا اور کہنے لگا ۔۔۔اج رات کوں سنبھل کے سمائے۔۔۔میں نے کہا کیا ہوا کہنے لگا ابھی ٹی وی دیکھ کے آ رہا ہوں انڈیا حملہ کرنے والا ہے۔میں نے بیوی سے کہا ٹماٹروالی ٹوکری میری چارپائی کے ساتھ رکھ دو تاکہ محاز پر جانا ہو تو بھول نہ جاوں۔ یہ ہیں ہمارے ٹی وی پروگرام۔جاپان سے متعلق ایک واقعہ مجھے سب سے زیادہ پسند آیا۔ہیرو شیما میں ایک یادگار ہے جس کا نام Genbako dome
ہے۔
یہ واحد عمارت ہے جو ایٹم بم سے محفوظ رہی باقی سب پگھل گئیں۔سنا ہے یہ عمارت آرٹس و تعلیمی معاملات میں استعمال ہوتی تھی۔ ہو سکتا ہے وہاں ادیب دانشور شعرا فنکار پینٹر اکٹھے ہوتے ہوں ۔پتہ چلا ادب و فن ایک مضبوط رشتہ ہے مگر اس عمارت کے اندر بیٹھے سب لوگ مر گیے شاید آپس میں اتفاق نہیں ہو گا۔
ہمارے شھر کے ادیب بھی حکومت سے کوئی آرٹس کونسل عمارت بنوا لیں تو اچھا ہے۔ڈاکٹر صاحب نے ایک جاپانی روایت کا ذکر کیا ہے جس کے مطابق کوئی کاغذ کے بنے ایک ہزار سارسcranes بنا لے تو اس کی ایک خواہش پوری ہو جاتی ہے۔ وہاں کی ایک لڑکی ساداکو بم میں زخمی ہو کر کینسر میں مبتلا ہو گئی اور کینسر سے لڑتے دس سال بعد جاں بحق ہوئی۔ساداکو نے ایک ہزار سارس بنانے شروع کیے کہ وہ یہ خواہش پوری کرواے گی کہ دنیا ایٹمی ہتھیاروں سے پاک ہو جاۓ۔مگر سارس مکمل کرنے سے پہلے مر گئی۔
یہاں اس لڑکی کی یادگار بنائی گئی اور پورے جاپانی بچے کاغذ کے سارس بنا کر یہاں لاتے ہیں اور نصب شدہ شیشے کے ڈبوں میں رکھتے ہیں۔آج دنیا میں یہ سارس امن کی علامت بن گیے ہیں۔ساداکو کے یادگار مجسمے کے نیچے یہ الفاظ لکھے ہیں۔۔۔۔یہ ہماری پکار ہے۔یہ ہماری دعا ہے۔کہ دنیا میں سدا امن رہے۔۔
ڈاکٹر صاحب نے تو ڈزنی لینڈ اور بہت کچھ دیکھا اور 55 سال سے بڑی عمر کے بچوں کو دیکھنے کی دعوت دی مگر میں سب نہیں بتا سکتا۔
یہ بھی پڑھیے: جہانِ حیرت :ڈاکٹر شاہد مسعود خٹک۔۔۔وجاہت علی عمرانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر