محمد سعید احمد شیخ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مِیں چند جملوں میں اِس کتاب کا پسِ منظر بتانے کی جسارت کرتا ھوں۔
پاکستان میں تصوف کی تمام کتب جب مخطوطہ جات (manuscripts ) سے مطبوعات (published versions) میں تبدیل ہوئیں تو بدقسمتی سے یہ حساس کام کسی مستند حکومتی ادارے کی بجائے ناشران اور کتب فروشوں نے سرانجام دیا جن کا واحد مقصد تصوف کی مقبولیت سے فائدہ اُٹھا کر دولت کمانا تھا۔
اِن ناشران اور کتب فروشوں نے تدوین اور ترجمہ کا کام کم معاوضہ پر کام کرنے والے اپنی منشاء کے اُن افراد کے حوالے کیا جن کا عربی اور فارسی زبانوں اور عالمی تصوف کا مطالعہ نہ ہونے کے برابر تھا ۔ نتیجتاً ان کتب میں موجود سینکڑوں ہزاروں عربی اور فارسی اصطلاحات (جو صدیوں سے دیگر کتبِ تصوف میں برابر مستعمل چلی آرہی تھیں) کی یا تو کم فہمی کی بنیاد پر املاء بدل دی گئی یا فارسی اور عربی زبانوں سے عدم واقفیت کے سبب اُن کے ترجمے میں قیافہ سازی اور تُک بندی سے کام لیا گیا ۔
‘ فرید دروازہ’ کے اِس حصہ اول میں اسی اھم ، حساس اور دلچسپ موضوع کو زیرِ بحث لایا گیا ھے ۔ ‘دیوان ِ فرید’ کو ایک پائلٹ پراجیکٹ بنا کر تدوین اور ترجمے کی سینکڑوں اغلاط کی نشاندہی کی گئی ھے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ تصوف کی ایک ہزار سالہ تاریخ سے امثال کے ذریعے اِس پوری تحقیق کو جاندار بنانے کی بھی حتی الامکان کوشش کی گِئی ھے ۔
اس بندہ ء ناچیز کی خواہش یہ ھے کہ اِسی تحقیقی نکتہ آغاز (prelude) کو بنیاد بنا کر وزارتِ اطلاعات کا ذیلی ادارہ ڈیمپ (DEMP) ہیر وارث شاہ ، سیف الملوک سے لیکر سچل سرمست رحمة اللہ علیھم اور دیگر اکابرینِ تصوف کے صوفیانہ کلام کے حقِ ملکیت(ownership) پر اصرار کرے ۔ نمایاں صوفیانہ تخیلقات کا عالمی مستند اُصولوں کے مطابق ازسرِ نو تدوین اور ترجمہ کیا جائے اور انہیں اپنے پریس سیکشنز کے ذریعے کلچرل ڈپلومیسی (Cultural Diplomacy) کیلیے استعمال کیا جائے ۔
وزیرِ اعظم پاکستان پہلے ہی تصوف اور روحانیات کو پبلک پالیسی کا حصہ بنانے کی خواہش کا اظہار کرچکے ہیں تو ھمیں اِس ضمن میں ایک بھرپور ادا کرنیکی کوشش ضرور کرنی چائییے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ