نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بے رحم سیاست اور کورونا کے وار(مکمل کالم)۔۔۔ آصف علی بھٹی

دوسری لہر نے متاثرین اور مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کیا تو حکمران خوفزدہ ہو کر بلاجواز جلسوں سے تائب ہو گئے مگر اقتدار کی منزل پانے کے خواہش مند اب تک نہیں رکے

آصف علی بھٹی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کرونا(کوویڈ-19)نے 2020 کےدوران دنیا بھر میں لاکھوں انسانوں کو موتکے گھاٹ اتارنے کےساتھ برق رفتار ترقی کے سفر کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا۔نامعلوم اور اندیکھےوائرس کی تباہی کا سلسلہ اب تک بلاتخصیص جاری ہے،

ترقی یافتہ ممالک ہوں ، ترقی پذیر یا غریب ملک کرونا سب سے برابری کی بنیاد پر ٹکرایا پہلے کاری وار کےبعد اب دوسری لہر نے رہیسہی کسر بھی نکال دی ہے۔
طبی ماہرین کےمطابق کوویڈ 19 کی دوسری لہر کی شدت پہلے سے کہیں زیادہ ہے جس کی بنیادی وجہ شایدوائرس خود نہیں بلکہانسان کی خود غرض سوچ اور مفادات پر مبنی من مانی حرکتیں ہیں جو اس کی ہلاکت خیزی میں بدترین اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔

دیکھا جائے تو کرونا سےدو سو سے زائد ملک متاثر ہوئےمگر سب سے زیادہ تباہی دنیا کے ترقی یافتہ اور طاقتور ملک امریکہ میں ہوئیہے،ڈبلیو ایچ او کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تقریبا ایک فیصد آبادی یعنی سوا چھ کروڑ انسان اس وائرس کا شکارہوئےجس میں 42 فیصد امریکی ہیں۔ڈیڑھ کروڑ افراد جان سےگئےجن میں سب سے زیادہ (تقریباساڑھے سات لاکھ )امریکی ہیں۔تیسفیصد یورپی جبکہ 17فی صدجنوبی مشرقی ایشیائی ممالک کےافرادمتاثر ہوئےہیں۔

اب یہ بھی واضح ہورہا ہےکہ کرونا کی تباہ کاریوںمیں بڑا ہاتھ خود حضرت انسان کا ہے بلخصوص سیاسی و معاشرتی لحاظ سے باہمی تقسیم اور عدم اعتمادہے۔جبھی وائرس ڈھیٹہوکر اپنے وار تیز سےتیزکررہا ہے اور تمام تر بھاری نقصانات کےباوجود انسانوں پر اجارہ داری قائم رکھنےپر مصر بےرحم سیاسی وطاقتور کردار اپنے مقاصد کی تکمیل میں لگے ہیں۔ معاشرہ انسانوں سے بنتا ہے اور انسان کی حرکات وسکنات معاشرے کو اچھا یابرا گرداننے میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں،

 

انسانوں کے رویے اور کردار ہی معاشرے کی ترقی اور کامیابیوں میں کلیدی کردار ادا کرتےہیں، کرونا وائرس کے دنیا بھر میں پھیلاؤ کےبعد مختلف معاشروں میں مجموعی ردعمل کا اندازہ لگایا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ سولائزڈ،سوفیسٹیکیٹڈُاور سپر پاور ہونے کا دعویدار ملک کےسربراہ ہی نےسب سے زیادہ غیر سنجیدہ اور غیر ذمہ دار ہونے کا ثبوت دیاہے پڑھے لکھے اور سمجھدار امریکی معاشرے میں اعلی ترین عہدیدار تباہ کن وائرس کی حقیقت سےہی انکاری رہا،ماسک خودپہنا، نہپہننے کی تلقین کی بلکہ پہننے والوں کا بھی مذاق اڑاتا رہا،

 

بدترین حالات میں متاثرکن رویہ اپوزیشن اور باشعور شہریوں کارہاجنہوں اپنی حفاظت خود کرنے کی ٹھانی ماسک پہنےاور غیرمہذب سوچ کےخلاف مہم بھی چلائی۔نتیجتا عوام نےاپنا ردعمل صدارتیانتخابات میں ووٹ کے ذریعے عدم اعتماد کی صورت دیا ۔یوں جمہوری معاشرےمیں عوامی تحفظ کے اقدام کا مذاق اڑانے والا خودمذاق بن گیا اورتاریخی شکست کے بعد تاریخ کاسیاہ باب بن کر رہ گیا۔بدقسمتی سے وطن عزیز کی سیاست کاانداز بھی کچھ مختلفنہیں،ایک طرف حکمران کرونا کا پھیلاؤ روکنےکےلئےپہلےلاک ڈاؤن لگانے یا نہ لگانے کے معاملے پر کنفیوز رہے ہیں تو دوسری طرف اپوزیشن بھی عوامی تحفظ کی حکمت عملی بنانےمیں ناکام رہی ،

البتہ حزب اقتدار اور اختلاف نےعوام کو سیاست کی بھینٹ چڑھانےاور کرونا کے ہاتھ یرغمال بنانے کی متفقہ حکمت عملی ضروربنا ڈالی ۔یہ بھی حقیقت ہےکہ پہلے مرحلے میں حکومت کا سمارٹ لاکڈاؤن کا فیصلہ کارگر اورقابل اطمینان ثابت ہوا مگر کرونا کی روانگی کا غلط اندازہ لگاکر سیاسی اشرافیہ نےعوام کو گھروں میںرکھنے کی بجائے ذاتی مفاد کی خاطر جلسوں میں اٹھالانے کا غیر دانشمندانہ فیصلہ کرکےدنیاکو حیران وپریشان اور کرونا کو خوشکردیا۔

دوسری لہر نے متاثرین اور مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کیا تو حکمران خوفزدہ ہوکربلاجواز جلسوں سے تائب ہوگئے مگراقتدار کی منزل پانےکےخواہش مند ابھی تک نہیں رکے شاید سیاست عوام کی زندگیوں سے بھی زیادہ عزیز اور قیمتی ہے۔سیاسی نقاد سمجھتے ہیں غیر محتاط سیاسی کردار بخوبی جانتے ہیں کہ محض جلسوں اور دھرنوں سے حکومتیں جاتیں ہیں نہ اقتدار ملتاہے مگر کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، جمہوریت کے نام پر اقتدار کی خواہش صبر کی تمام حدیں پار کر رہی ہے،

کرونا کی ہلاکت خیزی کو تسلیم کرناشاید سیاسی ناکامی سے تعبیر کرتےہوئےدانستہ زمینی حقائق کو نظرانداز کیاجارہاہے۔نقادوںکی رائےمیں گیارہ جماعتی اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے اندر مفادات کا رنگ گہرا اور تضادات کی دراڑیں وسیع ہو رہی ہیں ،

ن لیگ کے”انقلابی قائد “کےگوجرانوالہ بیانیہ کےبعد کوئٹہ ،پشاور اور ملتان میں شرکاء کی کمی بظاہر عوامی ردعمل کا نمونہ پیش کررہیہے،کرونا جو کچھ بھی کرےنون لیگ اور مولانا 13دسمبر کے لاہور جلسے کے بعد اسلام آبادکی طرف لانگ مارچ اور پارلیمنٹ کے سامنےدھرنا دینے کا ارادہ رکھتے ہیں مگر پیپلز پارٹی پارلیمنٹ کی مدت مکمل اور وفاق وصوبوں میں حکومت گرانے کامخالف بیانیہ لےکر انکی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے،اس مہم جوئی کو روکنےکےلئے ممکن ہےوہ اپوزیشن اتحاد سےنکلنے کی دھمکی بھی دے ڈالے یا کم اِز کم اس خودکش پالیسی سے فاصلہ اختیار کرلےمگر ایک بات طے ہے کہ موجودہ اور سیاسی مستقبل کےتحفظ مصلحت پسندانہ پیپلزپارٹی کی مجبوری ہےاور وہ ن لیگ کے استعفوں کے فیصلہ میں ساتھ کھڑی ہونے سے معذور ہے۔

کروناکےدور میں سیاسی و معاشرتی محاذ پر اخلاقی پستگی کا ایک منظرنامہ یہ بھی کہ تین مرتبہ وزیراعظم بننےوالا شخص عدالتی طلبیکےاحکامات کےباوجود اشتہاری بنناگوارا کرسکتا ہے مگر ذاتی مفادات اور بغیرڈیل اپنی سرزمین پرواپس آنےکو تیارنہیں چاہے والدین ، اہل خانہ سمیت خاندان و دوستوں کے مقدس رشتوں کی قربانی ہی کیوں نہ دینا پڑے۔

دوسری طرف افسوسناک امر یہبھی ہےکہ ریاست مدینہ کانام لےکر حکمرانی کرنیوالے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنےکی بجائے ناکامیوں کا سارا ملبہ اپوزیشن ،میڈیااور بیوروکریسی پر ڈالنےکےسواعملی طور پرکچھ کرنے کوتیار نہیں ۔ زندگی کاکوئی شعبہ تباہی و بربادی سے محفوظ نہیں مگر حکمران عوام سےڈرامے کرنے اوردکھانےکےمشن پر گامزن ہیں۔

سیاسی و طاقتور اشرافیہ کوُ یاد رکھنا چاہئے کہ 22 کروڑ عوام پہلےسے کہیں زیادہ باشعور ہوچکےہیں بلخصوص آبادی کے65فی صدنوجوان بہت کچھ جان اور پہچان چکے ہیں،پس آپ سمجھ لیں کہ کرونا سمیت معاشی و سماجی مشکلات سےعوامی زندگیوں کےتحفظ اور انکےحقوق کی پاسداری سےہی ووٹرز کے دل جیتے جاسکتےہیں اورمحض عوام کا ووٹ ہی پائیدار جمہوریت اور آئین کی بالادستی کا ضامن بن سکتا ہے۔۔۔!

About The Author