تحریر: زمان جعفری
ترجمہ: شہزاد عرفان، عباس ݙاہر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قسط نمبر 1
انتساب
سرائیکی، سندھی اور بلوچ حریت پسندوں کے نام
اظہار تشکر
میں تہہ دل سے سئیں شبیر حسن اختر کا ممنون ہوں جن کی معاونت سے زیر نظر تصنیف تکمیل پذیر ہوئی۔
میں سئیں ڈاکٹر مہر عبدالحق، سئیں استاد فدا حسین گاݙی اور سئیں مظہر عارف کی قابل قدر رہنمائی کا تہہ دل سے معترف ہوں کہ جن کا تعاون اگر شامل حال نہ ہوتا تو شاید زیر نظر تصنیف کی اشاعت ممکن نہ ہوپاتی۔
فہرست
پیش لفظ
قومی سوال
قومی تحریکیں
سرائیکی (وسیب)، سندھ ، بلوچستان (ایس ایس بی)
سرائیکی زبان
اختتامیہ
اڄ زیور یار کو ٹھانہدے ہن
متاں ݙینہہ سہاڳ دے آندے ہن
پیش لفظ
پاکستان کا مستقبل کیا ہے، شاید کوئی بھی پیشین گوئی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ محض ایسے تاریخی رجحانات کی نشاندہی کی جاسکتی ہے جو آئندہ وقتوں میں ہمارے لوگوں کی قسمت سنوار بھی سکتے ہیں اور بگاڑ بھی سکتے ہیں۔ برسوں کی جبری حکمرانی کے تجربے کے بعد پاکستان کثیر الجہتی مسائل سے دوچار ہوچکا ہے اور وطن عزیز کی سالمیت کو درج ذیل چند بنیادی سوالات درپیش ہیں۔ 1) پاکستان کے قیام کی سائنسی بنیادیں کیا ہیں؟ 2) کیا مذہب کی بنیاد پر کوئی قوم تشکیل پاسکتی ہے؟ 3) تاریخی طور پرقومیں اور قومیتیں کس طرح تشکیل پاتی ہیں اور آیا پاکستان ایک قومی ریاست ہے یا کثیر القومی ریاست؟ 4) سامراجی پیوندشدہ معیشت کے کیا اثرات ہونگے اور کیا فوجی حکمرانی کا تواتر ہماری قومی زندگی کا مقدر بن چکا ہے؟ 5) کیا سماجی نظام کے انتخاب کی آزادی میسر ہے؟ 6) آیا سب سے بڑا تضاد قومی سوال ہے یا طبقاتی سوال؟ یاجدلیاتی طور پر دونوں باہم مربوط ہیں؟
زیر نظر تصنیف میں ان سوالوں کے جوابات ڈھونڈنے اور ملکی سطح پر موجود متعدد تاریخی رجحانات کا جائزہ لینے کی عاجزانہ کوشش کی گئی ہے۔ ہمیں ادراک ہے کہ پیچیدہ معاشی نظام ، پاکستان میں مخصوص طبقاتی ڈھانچے، اور قومی سوال وغیرہ کا سرسری جائزہ تمام فلسفیانہ اور سائنسی تفصیلات کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ تاہم زیر نظر تصنیف سائنسی مباحثے اور صحت مند تنقید کے لئے اچھا خاصہ مواد باہم پہنچائے گی۔
زیر نظر تصنیف کا پہلا باب قوم، قومیتوں، قومی گروہوں، نسلی گروہوں کی تشریح ، مارکس، اینگلز اور لینن کے نظریات کی روشنی میں قومی اور بین الاقوامی باہمی تعلقات علاوہ ازیں سامراجیت کے بورژوا محققین اکثر جس کی وکالت کرتے نظر آتے ہیں آفاقیت پسندی اور قومی فنائیت کے موازنہ سے شروع ہوتا ہے ۔ باب ہذا میں بورژوا نیشنلزم اور پرولتاری بین الاقوامیت کے تصورات بھی شامل کئے گئے ہیں۔
زیر نظرتصنیف کے دوسرے باب میں عالمی سطح پر اٹھنے والی قومی آزادی کی تحریکوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔
تیسرے باب میں ایس ایس بی قومی آزادی تحریک سے متعلق بالکل نیا تصور پیش کیا گیا ہے۔ تاریخی اصولوں کی بنیاد پر ایس ایس بی کی قومی تشکیل کا مختصرخاکہ دیا گیا ہے، ساتھ ہی ایسے عوامل کا جائزہ لیا گیا ہے جو سرائیکی وسیب، سندھ اور بلوچستان کے لوگوں کو ایک لڑی میں پرو رہے ہیں۔ معاشی استحصال فوجی مطلق العنانیت اور قومی جبر جیسے عوامل کوبھی زیر بحث لایا گیا ہے جو ایس ایس بی قومی آزادی تحریک کے اہم محرکات بن سکتے ہیں ۔ قومی جبر کے حوالے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ملٹری سول بیورو کریسی اور پاکستان کے حکمران طبقے کے ساتھ ساتھ پنجاب بھی اس استحصال میں شریک ہے اور اب پختون بھی اس کے ناگزیر اتحادی کے طور پر سامنے آچکے ہیں اور یہ سب اقتدار کی جنگ میں مشترکہ طور پرشریک ہیں جو جنگ وطن عزیز کے لاکھوں لوگوں کی زندگیا نگل چکی ہے اور جس میں ایس ایس بی کے لوگ بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ تاہم ان استحصالی قوموں کا محنت کش طبقہ پاکستان میں قومی آزادی تحریک کا حامی ہے۔
زیر نظر تصنیف کے آخر میں یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ قومی جبر، قومی محکومی کے پیش نظر وطن عزیز پاکستان کی سالمیت کو خدشات لاحق رہیں گے تاوقتیکہ 1) ایس ایس بی ، 2) پنجاب اور 3) پختونخواہ بشمول متعدد آزاد قومی ریاستیں، خودمختار اور قومی علاقہ جات جیسے آزاد فیڈریٹنگ زونز پر مشتمل رضاکارانہ، آزاد مرضی اور برابری کی بنیاد پر فیڈریشن کا قیام عمل میں نہیں لایا جاتا ۔
ایس ایس بی کو بالخصوص مد نظر رکھتے ہوئے زیر نظرتصنیف میں قومی آزادی انقلابات پرکھل کر بات کی گئی ہے کیونکہ ایس ایس بی کی محکوم قومیتوں کی پسماندگی، تبدیلی کا فیصلہ کن عنصر بن سکتی ہے اور اس مفروضے نے مارکس وادیوں اور لیننسٹوں کے اس خیال کو جلا بخشی ہے کہ قومی آزادی کا انقلاب ناگزیر ہے۔ بلاشبہ آج پاکستان میں فسطائیت عروج پرہے اوراس کا مجسم اظہار مطلق العنانیت ، آئینی حقوق پر پابندی، رجعت پسند دھڑوں کی تنظیم سازی، فوجی قوت میں اضافہ اور جارحانہ خارجہ پالیسی میں ہورہا ہے۔
پاکستان کے اندر استحصالی اور استحصال زدہ طبقے کو اب طبقاتی اصطلاحات کی بجائے قومی اصطلاحات کے ساتھ زیادہ آسانی کے ساتھ پرکھا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں طبقاتی انقلاب نہایت پیچیدہ اور متضاد نوعیت کا ہے جس میں آزاد خیال طبقہ ، قومی آزادی انقلابات، جمہوری انقلابات اور کسان تحریکیں اور قومی جبر کے خلاف مقبول جدوجہد شامل ہیں۔ سوشلزم کے رستے پر پاؤں رکھنے کے لئے لازمی ہے کہ سامراجیت کی زنجیروں کو توڑا جائے جس کا مرکز و محور ایس ایس بی قومی آزادی تحریک ہے۔
لینن نے ” خالص” سوشلسٹ انقلاب کا خواب دیکھنے والے خیال پرستوں اور اصول پرستوں کا تمسخر اڑایا ہے۔ وہ مستقبل میں دنیا کی انقلابی لڑائی میں قومی آزادی کی تحریک کی اہمیت کو بھانپ چکا تھا۔
سرمایہ دارانہ قوتوں کے نوآبادیاتی پھیلاؤ نے ہمیشہ سامراجیت کے پاؤں مضبوط کئے۔ سامراجی نظام کو شکست دینے کے لئے قومی آزادی کی تحریک نے ہمیشہ اپنے فطری اتحادی بین الاقوامی پرولتاریہ کا ساتھ دیا۔ ان کا باہمی اتحاد عالمی سوشلسٹ انقلاب کی فتح کی ضمانت ہے۔ فریقین کا سامراجیت مخالف کردار ان کے اتحاد کی بنیاد ہے ۔ لینن نے کہا تھا کہ کرہ ارض کی اکثریت آبادی کی تحریک ، سب سے پہلے قومی آزادی کا راستہ دکھاتی ہے جو بعد ازاں سرمایہ داریت اور سامراجیت مخالف ہوگی۔
زیر نظر تصنیف کا ایک اور اہم موضوع طبقاتی جدوجہد کا انحراف اور سرمایہ دارانہ ترقی کا راستہ ہے جو کہ لفظوں کے کھلاڑیوں اور بائیں بازو کے شعبدہ بازوں کی جانب سے مسلسل ابھارا جا رہا ہے۔ جو کہ ایسے تضادات کو جنم دے رہا ہے جن کا پیوند شدہ معاشی نظام کے اندر رہتے ہوئے حل ممکن نہیں۔
انہوں نے سرمایہ دارانہ ترقی کے طریقہ کار کو جواز دینے کیلئے اپنی رسمی اور تجریدی سوچ سے محنت کش طبقے کو مزید الجھن میں ڈال کر انقلابی جدوجہد کو سماج سے مکمل طور پر علیحدہ کر دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں پاکستان جیسے ملک میں سامراجی معیشت مزید مضبوط ہوئی ہے۔ اور ملک کو پسماندگی، جاگیردارانہ نظام اور اس سے بھی زیادہ متروک سماجی و معاشی ڈھانچے کی جانب دھکیل دیا ہے۔ خیال پرست بائیں بازو کے دانشور پاکستان کے معروضی حالات کا جائزہ لئے بغیر ایک طرف واقعات کا تعاقب کرتے ہیں اور دوسری طرف براہ راست یا بالواسطہ طور پر قبل ازسرمایہ داریت تعلقات کے تحفظ کے لئے سامراج کی مدد کرتے ہیں ، نیم نو آبادیاتی عہد میں سامراجیت کے اثرورسوخ کی بنیادی وجہ ان کی یہ خدمات ہیں ۔ ہماری قومی دولت آج تک سامراجیت کی لوٹ کھسوٹ کا شکار ہے۔ اور اب جدید نوآبادیاتی پالیسی کی پیروی کر رہے ہیں۔ جس کے دہرے مقاصد ہیں۔ پاکستان کو عالمی سرمایہ داریت کے دائرے میں روکے رکھنا اور بیرونی اجارہ داریوں کو پاکستان کا استحصال کرنے کی کھلی چھٹی دینا۔ پاکستان میں جدید استعماریت پسندوں کا طریقہ کار پوشیدہ نوعیت کا ہے۔ سرمائے کی برآمد سے لے کر خام مال کی سستی قیمتوں کے تعین تک اور غیر مساوی معاشی اور سیاسی معاہدوں کی جعلسازی تک قطعی مختلف ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سرمایہ دارانہ ترقی سے آزاد معیشت کو فروغ حاصل ہوگا۔ لیکن معاملہ یہ نہیں ہے۔ یہ طے ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی صنعتی پیداوار کی سطح تک پاکستان کو پہنچنے میں کم از کم سو سال لگیں گے۔
پاکستان میں بورژوا دانشوروں اور خیال پرست بائیں بازو نے شعوری یا لاشعوری طور پر وہ راستہ اختیار کیا ہے جو لینن کی غیر سرمایہ دارانہ ترقی کی تھیوری کے خلاف ہے۔ لہٰذا ان کے کردار اور رویوں نے اس پر نیا لیبل لگا دیا ہے جس کو وہ "تیسرا راستہ” قرار دیتے ہیں۔ تیسرے راستے کی تھیوری کے مضمرات کو سمجھنے کے لئے تیسری دنیا میں سرمایہ دارانہ عملی اقدامات کو سمجھنا ہوگا۔ جیسا کہ ہمیں اپنے ملک میں سامراجیت کا شاخ در شاخ پورا نیٹ ورک نظر آتا ہے ۔ اکثر اوقات مالی معاونت کے نام پہ ہمارے داخلی معاملات میں مداخلت کی جاتی ہے اور جب اس سے کام نہ بن رہا ہو تو براہ راست فوجی مداخلت کی جاتی ہے۔ لیکن اس عمل سے امریکی سامراج بذات خود پاکستان میں سرمایہ دارانہ ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔ اور اس عمل سے وہ غیر سرمایہ دارانہ ترقی اور سماجی معاشی تبدیلی کے لئے انقلابی جدوجہد کو بھڑکا رہے ہیں۔
نو آبادیاتی نظام سے آزادی پانے والے ممالک میں غیر سرمایہ درانہ ترقی کا تصور مارکس اور لینن کے عالمی انقلاب کے عمل کا حصہ ہے۔ لینن کے مطابق پسماندہ ممالک سرمایہ دارانہ ترقی کے مدارج سے گزرے بغیر ترقی یافتہ ممالک کے پرولتاریہ کی مدد سے سوویت نظام میں قدم رکھ سکتے ہیں اور منصوبہ بندمعیشت کے مخصوص مدارج سے گزر کر کمیونزم میں داخل ہو سکتے ہیں”۔ غیر سرمایہ دارانہ ترقی کا یہ بنیادی تصور قومی آزادی تحریکوں کے لئے نئے راہیں کھول رہا ہے۔ معروضی تاریخ نے غیر متغیر طور پر قومی آزادی تحریک کے مقابلے میں سامراجیت کو مات دی ہے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ جس ملک میں بھی انقلاب پھوٹا، امریکی سامراج وقت ضائع کئے بغیر رد انقلاب قوتوں کو براہ راست برآمد کرکے رجعت پسندوں کی مدد کو پہنچا ہے۔
پاکستان میں فوجی نظام کے حامی غیر جمہوری قوتوں اور اجارہ داریوں کے گروہوں سے سازباز کر کے ہزاروں سیاسی شہیدوں کے خون کی قیمت پر جمہوریت کو بیچنا چاہتے ہیں، حالانکہ ان کے خون کی قدر ان کے آقائوں کے زہریلے درختوں کی آبیاری کے علاوہ کچھ نہیں ہوتی۔ ان کے نزدیک یہ انقلابی جمہوری روایات کو پامال کرنے کے لئے گولہ بارود کا کھیل ہے، اور وہ محض پیادے ہیں جو اپنے سامراجی آقاؤں کے لئے شرم ناک خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ان کی اقتدار کی خواہش اور لالچ ختم ہی نہیں ہوتی اور یہ ہو بھی کیسے ؟ کیونکہ یہ تو آدم خور بن چکے ہیں۔
لیکن ان تمام انسدادی اقدامات اور سفاکیت کے باوجود پاکستان کے عوام کی سیاسی جدوجہد بتدریج ملک بھر میں پھیل رہی ہے۔ بالخصوص سندھ وادی سمیت شاید ہی ملک کا کوئی ایسا کونہ ہو جو انقلابی جذبے سے سرشار نہ ہو۔ ماضی میں بلوچستان کے لوگوں کی مزاحمت قابل قدر ہے جو اس بات کی گواہی ہے کہ ایس ایس بی قومی آزادی انقلاب ناگزیر اور نوشتہ دیوار بن چکا ہے۔ حالانکہ یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے کیونکہ سامراج اس کے پیچھے بھی اپنے خفیہ مفادات کی تجارت کرے گا لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ آگ کے خلاف آگ سے لڑا جاتا ہے اور کس طریقے سے لڑا جاتا ہے۔
(جاری ہے)
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا