مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسن بھائی ہنس مکھ آدمی تھے۔ چہرہ بھی ہنستا مسکراتا اور مزاج بھی سدابہار۔
دور کے رشتے دار تھے اور اتفاق سے ان سے پہلی ملاقات بھی بہت دور ہوئی۔ شام کے ایک سفر میں۔ حلب میں راس الحسین کے مقام پر دو قافلے اکٹھے ہوئے۔ ایک میں ہم تھے اور ایک میں وہ۔ زیارت کے بعد میں ایک جگہ جاکر بیٹھا تو وہ پہلے سے وہاں بیٹھے تھے۔ بے وجہ بات شروع ہوئی۔ کسی رشتے داروں کے نام پر دونوں چونکے۔
انھوں نے کہا، ارے تو آپ کھلو خالا کے نواسے ہیں؟ میری نانی اماں کا نام تحسینہ خاتون تھا لیکن امروہے میں انھیں کھلو کے نام سے پکارا جاتا تھا کیونکہ کھلکھلاتی بہت تھیں۔ سات عشروں پرانا یہ نام کراچی میں بھلا کسی کو کیسے معلوم ہوسکتا تھا؟
خاص رشتے داروں کے گھر ہی میں ایسی باتیں ہوسکتی ہیں۔ میں نے کریدا تو معلوم ہوا کہ وہ قمو باجی اور بھائی ابن حسن کے بیٹے ہیں۔
بھائی ابن حسن کو کون سا صحافی اور صاحب کتاب ادیب شاعر نہیں جانتا۔ وہ پاکستان کے سب سے بڑے پرنٹنگ پریس کے مالک اور بڑے اخبارات کو تکنیکی تعاون فراہم کرنے والی شخصیت تھے۔ ان کے بعد حسن بھائی نے انھیں کی طرح کام جاری رکھا۔ انھیں صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور باپ کا نام روشن کیا۔
حسن بھائی دلچسپ گفتگو کرتے تھے۔ میڈیا مالکان سے قریبی تعلقات کی وجہ سے بہت کچھ جانتے تھے۔ بعد میں خاندان کی شادی بیاہ یا دوسری تقریبات پر ملاقات ہوتی تو اندر کی باتیں بتاتے۔
ایک بار ذرا طویل وقفے کے بعد ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا، کہاں غائب ہیں۔ انھوں نے کہا کہ شکیل صاحب نے بلایا تھا۔ یعنی میر شکیل الرحمان نے۔ انھوں نے کہا کہ لاہور میں ایک نیا پریس لگانا ہے۔ جدید مشینیں منگوا رہا ہوں۔ آپ لاہور چلے جائیں۔
حسن بھائی کے بقول انھوں نے کہا کہ میں تو اپنا پریس چلا رہا ہوں۔ بھائی میرے ساتھ کام کرتے ہیں۔ میرے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ گھر کا اچھا خاصا خرچہ ہے۔ شکیل صاحب نے پوچھا، ماہانہ کتنا خرچہ ہے؟ حسن بھائی کے منہ سے نکلا، پانچ لاکھ۔ شکیل صاحب نے فیصلہ سنایا، آپ کی تنخواہ پانچ لاکھ مقرر۔ آپ کا پریس عشروں سے چل رہا ہے۔ چھوٹے بھائی سنبھال لیں گے۔ آپ لاہور جائیں۔
ان دنوں بول میڈیا گروپ نے کام شروع کیا تھا۔ بڑے بڑے دعوے تھے کہ چینل بھی لائیں گے، ریڈیو بھی چلائیں گے، اخبارات بھی چھاپیں گے۔ انھوں نے بھی حسن بھائی کو بلایا تھا۔ شاید شکیل صاحب نے سوچا ہوگا کہ حسن بھائی کو باندھ لیں تاکہ وہ بول والوں کے کام نہ آسکیں۔
حسن بھائی ایک ڈیڑھ سال بعد ملے تو میں نے پوچھا، لاہور میں نیا پریس لگادیا؟ کہنے لگے، ہاں لگالیا۔ میں نے کہا کہ شکیل صاحب تو بہت خوش ہوئے ہوں گے۔ حسن بھائی نے کہا، جنگ کا نہیں، اپنا چھاپا خانہ لگایا ہے۔ جنگ میں تو کوئی کام ہی نہیں ہوا۔ مجھے لاہور بھیجا اور بھول گئے۔ نہ نئی مشینیں آنی تھیں، نہ میرے لیے کوئی کام تھا۔ میں نے کئی بار معذرت کرکے واپس جانا چاہا لیکن شکیل صاحب نہ مانے۔ ہر مہینے اکاؤنٹ میں پانچ لاکھ روپے آتے رہے۔ ایک سال میں ساٹھ لاکھ جمع ہوگئے۔ میں نے دیکھا کہ لاہور میں چھپائی کا کام کافی ہے۔ چنانچہ ان پیسوں سے پریس لگالیا ہے۔ کام چل پڑا ہے۔
ذکر حسن بھائی کا ہے لیکن شکیل صاحب کا تذکرہ آگیا ہے تو ایک اور واقعہ سن لیں۔ جنگ میں ایک صاحب ہوتے تھے قاری ہلال۔ بڑے میر صاحب کے زمانے کے کارکن تھے۔ شکیل صاحب کی خاص کابینہ میں شامل۔ ان کے ذاتی کام بھی کرتے تھے۔
قاری صاحب کا دفتر الرحمان بلڈنگ میں تھا اور میرا دوسری بلڈنگ میں۔ ان سے شناسائی دفتر میں نہیں، پارکنگ لاٹ میں ہوئی تھی۔
کراچی کلب کے پاس جنگ جیو کے ملازمین کے لیے بڑا سا پارکنگ لاٹ ہے۔ ملازمین وہاں گاڑی پارک کرتے ہیں اور شٹل انھیں دفتر سے لاتی لے جاتی ہے۔
شٹل کے آنے میں دیر ہوتی تو قاری صاحب مزے مزے کی باتیں سناتے۔ ایک بار قصہ سنایا کہ شکیل صاحب کے سامنے مسئلہ پیش کیا گیا کہ جنگ جیو نے درجنوں ملازمین کو گاڑیاں دی ہیں لیکن آئی آئی چندریگر روڈ پر پارکنگ کا بہت مسئلہ ہے۔ شکیل صاحب نے کہا کہ چند میل کے دائرے میں کوئی جگہ ڈھونڈیں جہاں گاڑیاں پارک کی جاسکیں۔ وہ جگہ کرائے پر لے لیں اور وہاں سے شٹل چلوادیں۔
متعلقہ ملازمین نے آس پاس گشت کیا۔ پھر اطلاع فراہم کی کہ کراچی کلب کے پاس کئی ایکڑ کا پلاٹ خالی پڑا ہے۔ اتنا بڑا ہے کہ بیچ سے ایک نالہ بھی گزرتا ہے۔ خدا جانے کس کا ہے۔ کوئی والی وارث، کوئی چوکیدار موجود نہیں۔
شکیل صاحب نے قاری ہلال سے کہا کہ اس پلاٹ کے مالک کے بارے میں معلوم کریں۔ کے ڈی اے، بلڈنگ اتھارٹی وغیرہ کےافسروں سے پوچھیں۔
قاری صاحب نے بتایا کہ کاغذات دیکھے تو معلوم ہوا کہ وہ پلاٹ میر خلیل الرحمان کے نام تھا۔ پتا نہیں انھوں نے کب خریدا تھا۔
قاری صاحب کے انتقال کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ اور اب حسن بھائی بھی چلے گئے۔ شاید کرونا ہی ہوا تھا۔ کئی ہفتے وینٹی لیٹر پر رہے۔ پہلے آصف بھائی یعنی آصف فرخی اور اب حسن بھائی کی موت سے میں دو بڑے بھائیوں اور مہربانوں سے محروم ہوگیا ہوں۔
ایک اور دکھ کی خبر چند دن پہلے علی حیدر کا انتقال ہے۔ وہ انچولی میں میرے محلے دار تھے اور پھر جیو میں کولیگ بھی بنے۔ سینئر کیمرامین تھے۔ انچولی کے قریب ایک حادثے میں شدید زخمی ہوئے اور چند دن بعد اسپتال میں چل بسے۔ ایسے جوان آدمی کی موت دوستوں کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔
ایک افسوس ناک اطلاع کل ملی کہ عزیز دوست نثار احمد خان کی امی کا انتقال ہوگیا ہے۔ میں اور نثار خانیوال میں ایک ہی گلی میں، ایک ہفتے کے فرق سے پیدا ہوئے۔ پھر پانچ سال پرائمری کے ہم جماعت رہے۔ بلکہ ایک ہی ڈیسک پر بیٹھتے تھے۔ نثار روزانہ سرمہ لگاکر آتا تھا۔ ایک دن میں اسکول جارہا تھا کہ نثار کی امی نے مجھے پکڑ کے سرمہ لگادیا۔ آج تک آنکھیں روشن ہیں۔
میں خانیوال سے نکلا اور کہاں کہاں آوارہ گردی کرتا رہا۔ نثار آج بھی اسی گلی میں رہتا ہے۔ تین سال پہلے میں خانیوال گیا تو نثار نے ہمیشہ کی طرح گھر پر دعوت کی۔ میرے بیوی بچے بھابھی بچوں کے علاوہ آنٹی سے مل کر بھی خوش ہوئے۔ آج ہم سب غمزدہ ہیں۔
یہ بری خبروں کا سال ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ زندگی کی کہانی کا کوئی کردار کم نہ ہوا ہو۔ چند دن کے اندر آنٹی، جیو کے سابق کولیگ ارشد وحید چودھری، میاں نواز شریف کی والدہ، ایڈمرل فصیح بخاری، حریت کانفرنس کے رہنما عباس انصاری اور جناب اشفاق سلیم مرزا رخصت ہوگئے۔
میں صحافی ہوں اور خبروں کے لیے تیار رہتا ہوں۔ لیکن ایسی خبروں کے لیے نہیں۔ اتنی بری خبروں کے لیے۔ سن رہے ہیں کہ کرونا وائرس کی ویکسین بن گئی ہے۔ کاش بری خبریں روکنے والی بھی کوئی ویکسین بنائی جاسکتی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر