نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملتان جلسہ میں عکس بے نظیر ۔۔۔ ملک سراج احمد

تاہم حکومتی حلقوں میں معاملہ فہمی کے فقدان کے سبب اپوزیشن جماعتیں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے حکومتی مشکلات میں اضافہ کرنے جارہی ہیں۔

ملک سراج احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جلسہ تو ہو کررہے گا کا نعرہ لگانے والی اپوزیشن نے بالآخر ملتان میں جلسہ کرہی دیا۔ملتان کے قلعہ کہنہ قاسم باغ میں ہونے والے جلسے کو روکنے کے لیے حکومت نے ہر حربہ استعمال کیا۔ایک خوف کی فضا پیدا کی گئی پیپلزپارٹٰی اور ن لیگ کے کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔جلسہ گاہ کو جانے والے راستوں کو کنٹینرز لگا کر بند کردیا گیا۔مخدوم سید یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے ورکروں کے ساتھ قاسم باغ میں جانے کے لیے زور لگاتے رہے۔تین دن ملتان انتظامیہ اور ورکروں کے درمیان آنکھ مچولی ہوتی رہی اور حکومتی کارکردگی نے روایتی احتجاجی جلسے کی بجاے ایک بھرپور مذاحمتی جلسہ بنا دیا۔تمام تر خوف کے باوجود جنوبی پنجاب کے اضلاع سے کارکن قافلوں کی صورت میں نکلے۔ڈیرہ غازی خان ،راجن پور اضلاع سے سب سے بڑا قافلہ پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب سردار دوست محمد خان کھوسہ کی قیادت میں ملتان پہنچا ۔ انتظامات نا ہونے کے باوجود جلسے میں عوام کی تعداد قابل تعریف تھی۔
ملتان کے گھنٹہ گھر چوک میں پی ڈی ایم کے اس جلسے کی خاص بات پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی چھوٹی ہمیشرہ آصفہ بھٹو زرداری کی شرکت تھی ۔2018 کے عام انتخابات کے بعد آصفہ بھٹو کی سیاست میں پہلی انٹری تھی۔شہید محترمہ بے نظیر بھٹو جیسے پہناوے اور انداز گفتگو سے عکس بے نظیر کہلانے والی آصفہ بھٹو نے ملتان میں خطاب کرتے ہوے عوام کو خراج تحسین پیش کرتے ہوے کہا کہ وہ سلیکٹڈ حکومت کے ظلم وجبر کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں جمع ہوئے ہیں۔آصفہ بھٹو نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پی پی پی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلزپارٹی کی بنیاد عوامی جمہوری اور فلاحی ریاست کے لیے رکھی تھی اور وہ اس مقصد سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے اور نا ہی وہ پیچھے ہٹیں گی ۔ن لیگ کی قائد مریم نواز شریف نے پیپلزپارٹی کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ آصفہ بھٹو اپنے گھر سے پاکستانیوں کے حقوق کی خاطر باہر نکلی ہیں اور یہ خوش آئند بات ہے۔
پی ڈی ایم اپنے طے کردہ شیڈول کے مطابق پہلے مرحلے کے اختتام کی طرف بڑھ رہی ہے اب آخری جلسہ 13 دسمبر کو لاہور میں ہوگا اور اس جلسے کی میزبان جماعت مریم نواز شریف ہوں گی۔توقع ہے کہ ن لیگ اس جلسے کو کامیاب کرنے کے ایڑی چوٹی کا زور لگائے گی ۔پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ملتان کے گیلانی ہاوس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوے کہا کہ 8 دسمبر کو پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس ہوگا جس میں 13 دسمبر کے بعد کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔اس کے بعد پتہ چلے گا کہ پی ڈی ایم اپنے احتجاج کے دوسرے مرحلے میں کیا کرنے جارہی ہے ۔اس وقت تک پی ڈی ایم کے بظاہر دو ممکنہ راستے ہیں ایک تو قومی وصوبائی اسمبلیوں سے اجتماعی استعفے اور دوسرا راستہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا ہے۔
اب اگر ان دو ممکنہ راستوں کا جائزہ لیں تو میرا خیال ہے کہ ابھی پی ڈی ایم اجتماعی استعفوں کی طرف نہیں جائے گی اس کی دو وجوہات ہیں ایک تو شائد یہ کہ اپوزیشن اسمبلیوں کو تحلیل نہیں کرنا چاہتی اور وہ ان ہاوس تبدیلی کی خواہشمند ہوسکتی ہے کیونکہ کورونا اور معاشی ابتری کے سبب معروضی حالات ایسے ہیں جس میں نئے انتخابات ممکن ہی نہیں ہیں۔اس لیے پی ڈی ایم کے رحجان کا اندازہ ہورہا ہے کہ وہ تبدیلی سرکار کی تبدیلی کے خواہش مند ہیں اور یہ ان ہاوس تبدیلی سے ہی ممکن ہے لہذا فی الوقت پی ڈی ایم اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا ٹرمپ کارڈ ابھی استعمال نہیں کرے گی۔بالفرض اگر پی ڈی ایم اسمبلیوں سے مستعفی ہوجاتی ہے تو الیکشن کمیشن 90 روز میں الیکشن کرانے کا پابندہے تویہ انتخابات مارچ کے سینٹ کے انتخابات سے پہلے ممکن ہوسکتے ہیں اس لیے پی ڈی ایم کے مستعفی ہونے کا آپشن بھی فروری سے پہلے ممکن نہیں ہے۔
دوسرا راستہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا ہے تو سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں اور خاص طورپر اسلام آباد میں دسمبر اور جنوری کا موسم بہت شدید ہوتا ہے اور اتنی سردی میں پی ڈی ایم لانگ مارچ کا فیصلہ نہیں کرئے گی۔اس کے لیے موسم کے بہتر ہونے کا انتظار کیا جائےگا اور اسلام آباد کا موسم 15 فروری تک بہتر ہوجائے گا۔تو اگر پی ڈی ایم نے لانگ مارچ کا فیصلہ کیا تو یہ فروری سے پہلے نہیں ہوگا
اب سوال یہ ہے کہ 14 دسمبر سے 15 فروری تک دو ماہ میں پی ڈی ایم کیا کرے گی توایک حل یہ ہے کہ پی ڈی ایم انہی جلسوں کا سلسلہ برقرار رکھے گی اور ملک کے دیگر بڑے شہروں میں جلسوں کا ایک شیڈول جاری کرکے وہاں پر جلسے کرے گی ۔ممکنہ شہروں میں حیدرآباد،سکھر،راولپنڈی،فیصل آباد،رحیم یار خان،چارسدہ جیسے شہر ہوسکتے ہیں۔اگر ایسا ہوا تو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ہونے والے جلسہ میں آصفہ بھٹو زرداری کی تقریر سننے والی ہوگی۔
20 ستمبرکو اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد تشکیل پانے والے اتحاد پی ڈی ایم کی پرفارمنس اب تک بہتر رہی ہے ۔ابتر معاشی حالات اور ہوشربا مہنگائی نے عوام کو بددل کردیا ہے ۔پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا یہ بیان کہ حکومت کی رٹ ختم ہوچکی ہے اور اب بات حکومت کی نہیں نظام کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے اس بات کا اشارہ ہے کہ اب اگر تبدیلی ہوئی تو وسیع پیمانے پر تبدیلی ہوگی اور بہت کچھ تبدیل ہوجائے گا۔لیکن اگر اپوزیشن نے محض وقتی تبدیلی پر انحصار کیا تو یہ نا صرف عوام کو بلکہ خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا۔اس ضمن میں دیکھنا ہوگا کہ مولانا فضل الرحمن جیسے زیرک سیاست دان کس طرح اپنے احتجاج کو منطقی انجام تک لے جاتے ہیں اور مطلوبہ نتائج حاصل کرتے ہیں۔اب تک کی صورتحال یہی بتا رہی ہے کہ مولانا الیون اچھا پرفارم کررہی ہے اور حکومتی الیون کے لیے مشکلات میں آئے روز اضافہ کررہی ہے ۔تاہم اپوزیشن کو محتاط رہنا ہوگا کہ کپتان پرانا کھلاڑی ہے اور بال کو ٹمپر کرکے ریورس سوئنگ کرانے کا ماہر ہے۔پی ڈی ایم کی زرا سی غلطی سے وکٹیں اڑا سکتی ہیں اسلیے محتاط ہوکر کھیلنے کی ضرورت ہے۔
تحریر : ملک سراج احمد
براے رابطہ 03334429707
وٹس ایپ 03352644777

About The Author