نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’کتنے لوگ تھے؟‘‘ والا سوال اٹھانا وقت کا زیاں ہوگا۔ ’’مکدی گل‘‘ یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد -پی ڈی ایم- پیر کے روز ملتان میں اپنا جلسہ منعقد کرنے میں کامیاب رہا۔ چار سے زیادہ دنوں تک پھیلی پولیس اور انتظامیہ کی پھرتیاں اسے روکنے میں مضحکہ خیز حد تک ناکام رہیں۔ واضح طور پر غیر ضروری نظر آتی ان پھرتیوں نے تجسس اور تنائو کا جو ماحول پیدا کیا اس نے مجھ ایسے ’’ٹی وی بیزار‘‘شخص کو بھی مجبور کر دیا کہ بستر سے نکل کر ریموٹ کا بٹن دبائے اور ملتان والے جلسے کی لمحہ بہ لمحہ کارروائی سے آگاہ رہے۔ جلسے میں ہوئی تقاریر سنتے ہوئے مگر ذہن میں ’’تو کمزور تھا تو…‘‘والا سوال ہی گردش کرتا رہا۔ مریم نواز صاحبہ کا اس جلسے سے خطاب ہر حوالے سے مفصل اور جارحانہ تھا۔ بنیادی پیغام ان کی تقریر سے یہ ملا کہ وہ اور ان کے والد فی الوقت کوئی ’’نرمی‘‘ دکھانے کو ہرگز آمادہ نہیں۔ عمران حکومت ہی نہیں اس کے بہی خواہوں سے بھی ’’تخت یا تختہ‘‘ والی جنگ پر تلے ہوئے ہیں۔ ’’بندہ ایمان دار ہے‘‘ کی صورت میں اس جلسے کے حاضرین اور دیگر ذرائع سے تقاریر سننے والوں کو بلکہ مریم نواز صاحبہ نے اپنی جماعت کے بیانیے کے فروغ کے لئے ایک نیا مصرعہ یا Refrain فراہم کیا ہے۔ آنے والے کئی دنوں تک یہ فقرہ حکومتی ترجمانوں کی فوج ظفرِ موج کو حواس باختہ رکھے گا۔ ان کے لہجے میں مزید تلخی اور شدت نظر آئے گی۔ ملتان جلسے کی بدولت نمودار ہوئے کلیدی پیغام پر نگاہ رکھنے کے بجائے حکومتی ترجمان اور میڈیا پر حاوی ان کے مہربان اگرچہ مذکورہ جلسے میں آصفہ بھٹو زرداری کی شرکت کی وجہ سے ’’موروثی سیاست‘‘ کا حقارت سے ’’تجزیہ‘‘ کرتے رہے۔
آصفہ بھٹو زرداری کی ملتان جلسے میں شرکت کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرنے سے قبل مجھے اعتراف کرنا ہوگا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کی اس بیٹی کا ذکر کرتے ہوئے میں ’’غیر جانب دار‘‘ ہونے کا ڈھونگ رچانے کی کوشش کروں تو یہ منافقانہ عمل ہوگا۔ آصفہ کو میں اپنے گھر کی بیٹی ہی شمار کرتا ہوں۔ ان کا رویہ بھی میرے ساتھ انتہائی مؤدبانہ ہے۔ 2018 کے انتخاب کے بعد جب نئے اراکینِ قومی اسمبلی کی حلف برداری ہوگئی تو اجلاس کے اختتام کے بعد میں سیڑھیوں سے اُترکر پارلیمان ہائوس کے پہلے فلور پر کیفے ٹیریا کو جانا چاہ رہا تھا۔ سیڑھیوں سے اُترتے ہوئے میں نے دیکھا کہ نوجوانوں کا ایک ہجوم سیلفیاں لینے کے لئے کسی ’’سیاستدان‘‘ کو گھیرے ہوئے ہے۔ میں ہجوم کے بکھرنے کا انتظار کرنے کے لئے سیڑھیوں پر ہی رک گیا۔ اس دوران نہ جانے کیسے ہجوم سے باہر نکلنے کی جگہ بناتے ہوئے آصفہ میرے سامنے نمودار ہوگئیں اور نہایت گرم جوشی سے ’’السلام وعلیکم نصرت انکل‘‘ کہتے ہوئے مجھے چونکادیا۔ اپنی بہن بختاور اور سینیٹر شیری رحمن کے ساتھ وہ بلاول بھٹو زرداری کے حلف اٹھا لینے کے بعد کار پارکنگ کی طرف جارہی تھیں۔ میں ان تینوں کے ہمراہ چلنا شروع ہوگیا۔ کارپارکنگ کی جانب چلتے ہوئے آصفہ کو تنگ کرنے کے لئے میں مسلسل یہ سوال کرتا رہا کہ انہوں نے قومی یا صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں حصہ کیوں نہیں لیا۔ 2018 کے انتخاب سے کئی ہفتے قبل میری اسلام آباد میں آصف علی زرداری سے تنہائی میں ایک طویل ملاقات ہوئی تھی۔ اس ملاقات کے دوران ا نہوں نے انکشاف کیا کہ وہ آصفہ کو سندھ اسمبلی میں براہِ راست انتخاب کے ذریعے لانے کے خواہاں ہیں۔ ان کی خواہش ہوگی کہ بطور رکن سندھ اسمبلی وہ اپنی پھوپھی یعنی ڈاکٹر عذراپیچوہو کی معاونت کرتے ہوئے صحت عامہ کے مسائل سمجھنے اور ان کا حل ڈھونڈنے پر توجہ دیں۔ میرے سوال کی وجہ ان کے والد کی بیان کردہ خواہش تھی۔
آصفہ مگر “Ask The Party Uncle?” کہتے ہوئے شرارتی لیکن مؤدبانہ انداز اختیار کرتے ہوئے واضح جواب دینے سے کتراتی رہیں۔ بالآخر ڈھٹائی سے میں یہ دعویٰ کرنے کو مجبور ہوگیا کہ آصف علی زرداری اور بلاول ،آصفہ کے سیاسی Potential یعنی امکانات سے ’’جلتے‘‘ ہیں۔ مارے ’’حسد‘‘ کے ان کی ’’سیاسی اڑان‘‘ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔ میری دوست شیری رحمن نے تیکھی نگاہوں سے میرے پھکڑپن کی بابت خفگی کا اظہار کیا۔ بختاور بھٹو زرداری میری اور آصفہ کے مابین ہوئی گفتگو سے مگر مسکراتے ہوئے لطف اندوز ہوتی رہیں۔ میں اپنے دعویٰ پر لیکن ڈٹا رہا۔ کم از کم دوبار آصفہ کی موجودگی میں ان کے والد کو آگاہ کیا کہ میری ’’اصل لیڈر‘‘ تو ان کی بیٹی آصفہ بھٹو زرداری ہیں۔ ان کے امکانات یعنی Potential کو نگاہ میں رکھتے ہوئے میں انہیں اپنے ’’بڑھاپے کا سہارا‘‘ سمجھتا ہوں۔ یہ فقرہ میں نے کئی بار بلاول بھٹو زرداری کے سامنے بھی دہرایا ہے۔ پیپلز پارٹی کے جواں سال چیئرمین کے سامنے بلکہ ’’اعتراف‘‘ یہ بھی کیا کہ میں آصفہ کو ’’ان کے مقابل‘‘ لانے کا خواہش مند ہوں۔ ہماری یہ گفتگو خاندان میں ہوئی باہمی چھیڑ چھاڑ کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ پی ڈی ایم کے ملتان والے جلسے میں پیر کے روز نمودار ہوکر آصفہ بھٹو زرداری نے میرے جبلی اندازے کو درست ثابت کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے ملتان والا جلسہ کئی اعتبار سے طویل المدتی بنیادوں پر ’’کلیدی‘‘ اہمیت کا حامل تھا۔ اس جلسے کے انعقاد کے ذریعے یوسف رضا گیلانی اور ان کا گھرانہ سرائیکی وسیب کی سیاست میں بنیادی طور پر ملتان پولیس اور انتظامیہ کی حماقتوں کی بدولت بہت توانائی سے Bounce Back ہوتا نظر آیا ہے۔ ان جلسے میں بلاول بھٹو زرداری کی شرکت لازمی تھی۔ وہ مگر کرونا کی زد میں آگئے۔ ان کی نمائندگی کے لئے آصفہ بھٹو زرداری اگر ملتان نہ پہنچ پاتیں تو پیپلز پارٹی کو پنجاب اور خاص طور پر سرائیکی وسیب میں اپنے ا حیاء کے لئے بہت دنوں تک مزید لگن اور مشقت کے ساتھ انتظار کرنا ہوتا۔
روایتی اور سوشل میڈیا پر چھائے میرے کئی بہت ہی پڑھے لکھے دوست نہایت دُکھ اور حقارت سے آصفہ بھٹو زرداری کی ملتان آمدکے حوالے سے ’’موروثی سیاست‘‘ کا ذکر کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ ان کی خدمت میں ہاتھ باندھ کر عرض صرف یہ کرنا ہے کہ ہمارے عوام اپنے تئیں بہت کائیاں اور ہوشیار ہیں۔ کسی سیاست دان سے محبت یا نفرت کے لئے انہیں مجھ جیسے عقل کل ہوئے ڈنگ ٹپائو لکھاریوں اور Ratings کے محتاج اینکر خواتین وحضرات سے ’’رہ نمائی‘‘ درکار نہیں ہے۔ جنوبی ایشیاء میں سیاست ایک منفرد ثقافتی روایت اور تناظر ہی میں جلوے دکھاتی ہے۔ بھارت میں نہرو کی موت کے بعد اندراگاندھی نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ سری لنکا میں بندرانائیکے خاندان کی خواتین بھی اس کی بدولت بے پناہ اہمیت کی حامل رہیں۔ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد منفرد ثقافتی پسِ منظر کی بدولت ہی وزیر اعظم کے منصب پر آج بھی براجمان ہے۔ بھارت اور سری لنکا میں لیکن ’’موروثی سیاست‘‘ اپنا اثر کھو چکی ہے۔ پاکستان میں بھی اگر ہماری دائمی اشرافیہ کسی ایک سیاسی خاندان کو ہر صورت ’’مائنس‘‘ کرنے کی ضد چھوڑدے تو ’’موروثی سیاست‘‘ یقینا اپنے منطقی انجام سے دو چار ہوجائے گی۔ ’’وہ‘‘ مگر ہمارے چند سیاسی خاندانوں کو ’’مائنس‘‘ کرنے کی ضد نہیں چھوڑتے۔ ان کی ضد سے جھلا کر خلقِ خدا کا ایک مؤثر حصہ اندھی نفرت اور عقیدت کی بنیاد پر اپنے پسندیدہ سیاست دان کے ’’وارثوں‘‘ سے وفاداری کا اظہار شروع کردیتا ہے۔ یہ ’’دلاں دے سودے‘‘ والا قصہ ہے۔ اسے منطقی دلائل سے جانچنا دانشورانہ بددیانتی ہے۔ کوئی پسند کرے یا نہیں پاکستان پیپلز پارٹی محض ایک سیاسی جماعت ہی نہیں ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اسے طاقت ور ثقافتی شناخت اور رویوں سے بھی مالامال کیا۔ تارا مسیح کے ہاتھوں پھانسی لگنے کے بعد وہ مزاحمت کی علامت بھی بن گئے۔ مزاحمت کی روایت کو ان کی دختر محترمہ بے نظیر بھٹو نے بے پناہ لگن اور توانائی کے ساتھ مزید گہرائی اور گیرائی فراہم کی۔ آصف علی زرداری نے طویل برس جیلوں میں گزارنے کے باوجود اپنے انداز سیاست سے ’’مزاحمت‘‘ سے منسلک رومانس کو دھندلا دیا تھا۔ ایک مشہور اور جید ماہر نفسیات Carl Gustav Jung نے Collective Unconscious یعنی اجتماعی لاشعور کو طویل تحقیق کی بدولت دریافت کیا تھا۔ سادہ اُردو میں اسے ہم اجتماعی حافظہ یا اجتماعی لاشعور پکارسکتے ہیں۔ Jung کا اصرار تھا کہ کسی ایک فرد کی نفسیاتی ساخت میں اس معاشرے کا اجتماعی حافظہ یا لاشعور بھی اہم ترین کردار ادا کرتا ہے جس میں وہ پل بڑھ کر جوان ہوتا ہے۔ آصفہ بھٹو زرداری ملتان کے سٹیج پر نمودار ہوئیں تو پیپلز پارٹی کے ساتھ 1967 سے وابستہ کم از کم تین نسلوں کو اس جماعت کی اجتماعی تاریخ یاد آگئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کم از کم دو دہائیوں تک مذکورہ تاریخ اور ثقافتی شناخت کی بھرپور علامت رہی ہیں۔ آصفہ بھٹو زرداری حیران کن حد تک ان کی یاد دلادیتی ہیں۔ سیاست میں ان کا متحرک ہونا پیپلز پارٹی کی مزاحمتی Base اور ثقافتی پہچان کے احیاء میں لہٰذا اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ 2020کی سیاست میں یہ ممکنہ احیاء کیا اثر برپا کرسکتا ہے اس کا تجزیہ کرنے کے لئے ابھی کئی دنوں تک انتظار کرنا ہوگا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ