شمائلہ حسین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے دنوں ایک سرکاری ہسپتال میں جانا ہوا، وجہ یہی تھی، کورونا ٹیسٹ۔
وہاں کام کرنے والے سٹاف میں جو نرس سیمپل لے رہی تھیں، انہیں چھ ماہ کا حمل تھا اور وہ اپنی ڈیوٹی بڑے اطمینان سے نبھا رہی تھیں۔
کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ آپ کی بیوی، بہن، بیٹی یا ماں حاملہ ہو اور آپ اسے کسی بھی ایسی جگہ بھیج دیں جہاں کورونا لگنے کے چانسز سوفی صد تک ہوں؟ پھر ان حالات میں کہ مسلسل کئی ڈاکٹر اور نرسز اس کا شکار ہو کر موت کے منہ میں بھی جاتے رہے ہوں؟
مجھے ان خاتون پر بے طرح پیار آگیا، میں نے اس کا اظہار بھی کردیا اور وہ شرمائی سی ہنسی ہنستے ہوئے وہاں سے چلی گئیں۔
آپ خود اپنے چچا، ماموؤں، خالاؤں سے روز یہ سنتے ہوں گے کہ کورونا وغیرہ کچھ نہیں ہے بس حکومت عالمی طاقتوں سے فنڈ لینا چاہتی ہے، ڈاکٹر جان بوجھ کے دوسری بیماری والے مریضوں کو بھی ٹیکہ لگا کر ماررہے ہیں اور کورونا کے سر ڈال رہے ہیں۔
یہ تو اکثر سننے میں آتا ہے ’80سال کے والد صاحب ٹھیک ٹھاک ان کے پاس لے کر ہم لوگ آئے تھے، بس پہلے چھوٹے ہسپتال والوں نے کہا کہ ان کے بس کا کام نہیں ہے، شہر لے جائیں، ذرا سی دیر کیا ہوئی ان ڈاکٹروں کی لاپروائی سے ابا جی اللہ کو پیارے ہو گئے۔’ یا پھر ‘بیٹا ون ویلنگ کر رہا تھا، گرا، ہسپتال لے کر گئے، ڈاکٹر بچا ہی نہیں پائے، ان کی غفلت کی وجہ سے مر گیا۔’
ایسی باتوں پر کبھی آپ یقین کرتے ہوں گے کبھی مشکوک ہو کر خاموشی اختیار کر لیتے ہوں گے، کبھی صرف سن کر آگے بڑھ جاتے ہوں گے۔ پنجابی میں کہتے ہیں راہ پیا جانے یا واہ پیا جانے یعنی جس کا واسطہ اس صورتِ حال سے پڑتا ہے اسے ہی سمجھ آتی ہے۔
میری سہیلیوں میں تین چار ڈاکٹر ہیں ۔ میں نے ان سے کئی بار پوچھا کہ تم لوگ اتنے غافل کیوں ہوتے ہو کہ مریض مر جاتا ہے؟ وہ کون سا ٹیکہ ہے جو تم لگاتے ہو اور بندے کو مار دیتے ہو؟ کیوں کورونا کے مریضوں کی تعداد تم لوگ بڑھا چڑھا کر بتاتے ہو؟
وہ بے چاریاں یہی کہتی ہیں کہ جب آپ لوگ بے احتیاطی سے ڈرائیو کرتے ہیں ، گھریلو حادثات کی اصل وجہ نہیں بتاتے ، الٹا سیدھا کھا کے پیٹ خراب کرتے ہیں ، بچوں کے ہاتھ میں سواریاں تھما دیتے ہیں ، وبائی ایس اوپیز کا خیال نہیں کرتے ، بیماری کو سنجیدہ نہیں لیتے ، بیمار ہونے کی صورت میں اتائی ڈاکٹروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں ، مرض بگاڑ کر بستر مرگ پر پڑے مریض کو ہمارے پاس لاتے ہیں، تو ہم کیسے مُردوں میں جان ڈال سکتے ہیں؟ ہم ایسے مسیحا بھی نہیں کہ مرتے ہوؤں کو زندہ کرنے کا اعجازرکھتے ہوں ۔ رہی بات کورونا والے انجیکشن سے مریضوں کو مارنے والی سازش کی، تو ہم کم از کم اپنے ساتھیوں کو تو یوں بے بسی کے ساتھ موت کے منہ میں جاتا ہوا نہ دیکھ رہے ہوتے، کیا انہیں بھی ہم انجیکشن سے مارتے ہیں؟ ہم تو انہیں بھی نہیں بچا پاتے۔
اس طرح کے الزامات لگاتے وقت معلوم نہیں ہم کیوں نہیں سوچتے کہ ڈاکٹر ہمارے جیسے ہی لوگ ہیں، ہم میں سے ہی وہ آگے بڑھے اور ہم سے سو گنا زیادہ پڑھنے اور محنت کرنے کے بعد وہ ڈاکٹر کے عہدے پر بیٹھے ہیں۔ ایک اور ظلم یہ ہوتا ہے کہ مریض کی موت کی صورت میں ورثا ڈاکٹروں پر الزام لگانے کے علاوہ تشدد پر بھی اتر آتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ وہ ملک جنہیں ہم تہذیب یافتہ سمجھتے ہیں وہاں بھی صحت سے متعلقہ شعبوں میں کام کرنے والوں کے ساتھ یہ سب کچھ ہو رہا ہوتا ہے۔
2016 کی ایک ریسرچ کے مطابق آسٹریلیا میں 3300 ایسے واقعات رپورٹ ہوئے اور 2012 سے 2014کے درمیان گیارہ دیگر یورپی ممالک کے ریکارڈ پر4200 طبی عملے کے افراد ایسے واقعات کا شکار ہوئے۔ دیکھ کر ایک خود غرض قسم کی فیلنگ بھی آئی کہ چلو کہیں تو ہم اکیلے نہیں جنگلی پن میں۔
پولیو ٹیموں پر حملے کے واقعات تو آپ نے سن ہی رکھے ہوں گے ، ایسے واقعات میں جو مر گیا وہ تو گیا لیکن جو بے چارہ زندہ رہ جاتا ہے اس کے دماغ پر کیا گزرتی ہو گی، یہ سوچیں۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ ان کی حفاظت کے لیے آس پاس کوئی سیکیورٹی بھی نہیں ہوتی ۔ ایسے کسی بھی اچانک حملے اور مار پیٹ کے وقت ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ انہیں خاموش رہ کر یا چھپ کے اپنا دفاع کرنا پڑتا ہے ۔
اس صورتِ حال کا سامنا زیادہ تر جونیر ڈاکٹروں کو ہوتا ہے کیونکہ ایمرجنسی سے لے کر جنرل وارڈ تک عموماً وہی ڈیوٹی کر رہے ہوتے ہیں ۔ وہ شریف لوگ قانونی پیچیدگیوں میں بھی نہیں پڑتے کہ ان کا وقت اور پیسہ ضائع ہوتا ہے، حاصل وصول بھی کچھ نہیں ہوگا، یہ بھی انہیں پتہ ہے۔
آپ کسی بھی سرکاری ہسپتال چلے جائیں، اکثر شعبوں میں مشینری کی بدترین صورت حال کے پیش نظر مریضوں کو مہنگے داموں نجی ہسپتالوں سے ضرروی ٹیسٹ کروانے پڑتے ہیں۔ کبھی تو میجر قسم کی سرجری کے لیے بھی انہیں نجی ہسپتالوں کا رخ کرنا پڑ جاتا ہے۔ یہ ہر حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے ہوتا ہے۔
عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس میں قصور موقعے پر موجود ڈاکٹروں کا ہے کہ وہ ہسپتال میں بنیادی سہولتیں بھی مہیا نہیں کر پارہے اور وہ بس چڑھ دوڑتے ہیں انہی پر۔
یقین کریں اصل معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں کو ملنے والے فنڈ کا حال یہ ہے کہ ڈاکٹروں کو اپنی تنخواہیں جاری کروانے کے سو پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، اسی طرح مشین خرابی رپورٹ انتظامیہ تک اگر پہنچ جائے تو اس کے ٹھیک ہونے کے مراحل سے گزر تے گزرتے مہینوں لگ جاتے ہیں۔اور مریضوں کا سارا غصہ آن ڈیوٹی میڈیکل اور پیرا میڈیکل سٹاف پر نکلتا ہے۔
آپ بس اسی نرس کا سوچیں جو چھ ماہ کی حاملہ ہے اور کرونا سے بے پرواہ اپنی ڈیوٹی کیے جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ لوگ کب تک ایسے کام کرتے رہیں گے؟ کیا ان کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری نہیں ہے یا بس تنخواہ کے عوض یہ قربان ہوتے رہیں گے؟
کوئی ڈیوٹی پہ مر گیا تو اسے شہید کہہ کر آخرت میں اجر کی بشارت دینا اب ہمارا معمول ہے، سوال اپنی جگہ ہے کہ درس گاہیں ، شفاخانے اور دفاتر کام کرنے کی جگہیں ہیں یا جنگ کا میدان؟
آپ صرف ایک کام کریں، ڈاکٹروں کی غفلت سے مرنے کی بجائے اپنی ذمہ داری پہ مر جایا کریں، قریبی لوگوں کو بھی اس پہ قائل کریں، نرسوں ڈاکٹروں کی زندگی یقین کیجے بہت آسان ہو جائے گی۔
*یہ بلاگ ڈی ڈبلیو اردو پر شائع ہوچکا ہے۔۔۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ