گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک گھر میں ایک بچی پیدا ھوتی ھے ۔قدیم زمانے سے بچیوں کو نیک شگون نہیں سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ اس نوزائدہ بچی کو ایک صندق میں ڈال کر دریا کی لہروں کے حوالے کر دیا گیا۔ یہ صندوق تیرتا ھوا بھنبھور شھر پہنچتا ھے جہاں دریا پر ایک دھوبی کپڑے دھو رہا ھے۔ وہ اس صندوق کو پکڑ لیتا ھے اور اس میں ایک چاند سی بچی کو دیکھ کر گھر لے جاتا ھے کیونکہ دھوبی کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ اب اگلا مرحلہ بچی کے نام رکھنے کا آتا ھے ۔بچی اتنی خوبصورت ھے کہ رخ مھتاب رکھتی ھے۔ چنانچہ دھوبی یہ فیصلہ کرتا ھے کہ بچی کا نام سسی ھو گا۔۔سسی اصل میں انکی زبان میں چاند کو کہتے ہیں۔ مہران کا یہ چاند جب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتا ھے تو سسی کے حسن کی دھوم مچ جاتی ھے۔ مکران کا شھزادہ پنوں جب سسی کو دیکھتا ھے تو دیوانہ ھو جاتا ھے۔ وہ بھمبھور کی گلیوں میں مشک و عنبر بیچنے والے تاجر کے روپ میں آتا ھےاور سسی سے شادی کی فرمائش کر ڈالی۔ سسی کے والدین پنوں سے اس شرط پر شادی کرنے پر راضی ھو جاتے ہیں کہ پنوں ساری زندگی دھوبی بن کر ان کے ساتھ زندگی گزارے گا۔پنوں دھوبی بن جاتا ھے اور شادی ھو جاتی ھے۔پنوں کے خاندان کو جب پتہ چلتا ھے کہ شھزادہ دھوبی بن گیا ھے تو پورا خاندان سخت برھم ھوتا ھے۔ اس کے بھائی اس کی تلاش میں بھمبھور پہنچ جاتے ہیں۔ اور بہلا پھسلا کر سسی اور پنوں کو نشہ آور دوا پلا دیتے ہیں اور دونوں کو کیچ لے جاتے ہیں جھاں کے وہ حکمران تھے۔سسی کو راستے میں جنگل میں پھینک دیتے ہیں اور پنوں کو آگے لے جاتے ہیں۔اب سسی کو جب ھوش آیا تو اس کے دل کا بھمبھور لٹ چکا تھا اور وہ دیوانہ وار کیچ مکران کی طرف دوڑتی ھے۔ ہجر کی آگ میں جلتی سسی تپتے صحرا میں پیروں ننگی بھاگتی جاتی ھے تو اسے سخت پیاس گھیر لیتی ھے ۔اس سنسان تپتے صحرا میں پانی کا نام و نشان نہیں آخر اسے ایک چرواہا نظر آتا ھے جو مویشی چرا رہا ھے مگر چرواھے کی بُری نیت بھانپ کر سسی حسرت سے آسمان کی طرف نگاہ کرتی ھے ۔۔۔زمین پٹھتی ھے اور وہ اس میں سما جاتی ھے۔ ادھر پنوں کو جب ھوش آیا تو وہ سسی سسی کرتا بھمبھور کی طرف بھاگا۔اس کی ملاقات اس چرواھے سے ہوئی ۔ماجرہ معلوم ھوا تو وہ سسی سسی کرتا اس جگہ کی طرف دوڑا۔۔ سسی کی کربناک آواز آئی۔۔۔۔۔ پنوں ۔۔۔ قبر شق ھوئی اور پنوں سسی سے جا ملا۔۔۔۔ اب یہ حقیقت ھے سا فسانہ مگر سندھ کے رھگزاروں میں دیوانہ وار پنوں کو ڈھونڈتی سسی کے متحرک کردار کو شاہ عبدلطیف بھٹائی کے جمال پرور ذھن نے ایسا تراشا ھے کہ اس لوک داستان پر حقیقت کا گمان گزرتا ھے۔یہ داستان ۔شاہ جو رسالو میں بیان ھوئی ھے۔۔۔ یہ سندھی رومانی المیہ ھے۔۔ہاشم شاہ نے نے بھمبھور پر ایک شعر لکھا ھے۔۔۔ ؎شھر بھمبھور مکان الہی باغ بھشت بنایا۔۔۔۔فرش فروش چمن گل بوٹا ہر اک ذات لگایا۔۔۔سسی کا بھمبھور بار بار کیوں لٹتا رہا؟ شھر کے آثار اور معتبر تاریخی حوالے بتاتے ہیں کہ بھمبھور اس وقت کے ایک تاریخی تجارتی شاھراہ پر واقع تھا۔اور کافی ترقی یافتہ شھر تھا۔ تعمیرات تراشیدہ پتھروں سے بنائی گئی تھیں بھمبھور کی گلیاں کشادہ تھیں۔گھر کمروں درآمدے اور فصیل پر مشتمل ھوتا تھا۔گھر ترتیب اور سلیقے سے بنے ہوۓ تھے۔شھر کے خوبصورت دروازوں سے جاہ و جلال کا پتہ چلتا تھا۔۔۔مجھے بھمبھور کی کہانی لکھنے پر کیوں مجبور ھونا پڑا؟ کیونکہ
ڈیرہ اسماعیل خان کی کہانی بھمبھور سے کچھ کچھ ملتی جلتی ھے۔
اجڑ گئے بھمبھور دلیں دے۔۔۔
ڈیرہ اسماعیل خان کی کہانی بھمبھور سے بہت ملتی جلتی ھے۔۔جب میں تاریخ اٹھا کر دیکھتا ھوں تو پتہ چلتا ھے ڈیرہ بھی بھمبھور کی طرح ایک بڑی تجارتی شاھراہ گومل درے پر واقع تھا اور اس تجارت سے شھر میں خوشحالی اور امن تھا۔ پاکستان بننے کے بعد یہ روٹ بند اور درہ خیبر چالو ہوا۔ 1901ء کے نومبر کے اسی مہینے میں ڈیرہ کو انگریزوں نے ایک نئے صوبے سے منسلک کر دیا ۔ ہمیشہ نئے درخت پر پیوندکاری وقت لیتی ھے۔ ہمارے پاکستان کے صوبوں کا مسئلہ یہ ھے کہ تمام وسائل پر پہلے کیپیٹل قبضہ کرتا ھے اور پھر اگر کچھ بچ جاۓ تو خیرات کے طور پر ضلعوں کو دان ھوتا ھے۔ تمام اعلی تعلیمی ادارے۔میڈیکل اور انجنیرنگ کالجز۔یونیورسٹیاں۔میٹرو ۔کیپیٹلز۔ تخت لھور یا تخت پشور کی زینت بنتی رھتی ہیں اور ہماری سسیاں آلودہ جوھڑوں کا پانی سر پر ڈھوتی اور پیتی رھتی ہیں۔۔CPEC کا بھی احسان ہم پر دھرا جا رہا ھے کیونکہ یہ شاھراہ کا قدرتی راستہ ھے ۔اصل میں یہ CPEC کی لنک روڈ ھو گی جو انڈسٹریل زون بننے ہیں وہ تو مشکل ہی یہاں بنیں۔ اس لئے اس معاھدے کو سات پردوں میں خفیہ رکھا گیا تھا۔ انڈس ہائی وے ریل روڈ کا قدرتی روٹ ھے مگر یہان سے پرانی پٹڑیاں بھی اکھیڑ کر فاونڈری کا ایندھن بنا دی گئیں۔ ڈیرہ اسلام آباد موٹر وے مکمل ہونے کی تاریخیں لمبی ہو رہی ہیں۔ ڈیرہ پشاور موتر وے نقشوں پر بن رہی ہے اور پرانی سڑکوں کی مرمت تک بند کر دی گئ ہے۔ڈیرہ شھر میں ستر سال سے نہ چلڈرن۔نہ نیورو ۔نہ کارڈیالوجی ہسپتال بن سکا۔ شرمناک بات یہ ھے کہ بھکر جو کبھی ڈیرہ کی تحصیل ہوا کرتا تھا میں ایک بہترین چلڈرن ہسپتال بنا دیا گیا جس پر شھباز شریف مردہ باد۔ ہم زندہ باد کہ بچوں کو بھکر دکھا آتے ہیں۔ ڈیرہ شھر میں بجلی کے بلوں پر مسلسل جرمانے اور ٹھیک کرانے کا اختیار اور کمپوٹر بنوں رکھ دیا جو کہ بنوں ایک وقت ڈیرہ ڈویژن کا ضلع رہا ہے۔ آپ بنوں جا کر بل ٹھیک کرائیں۔۔کم ازکم ہر ضلع کو ایڈمنسٹریٹیو اختیارات دے دیں ۔اسی طرح ہمیں پشاور کے چکروں سے بچائیں یار حلوے کا تحفہ ہم ویسے بھیجتے رہینگے۔ہمارے بچوں نے آج تک چیف منسٹر kpk کی شکل نہیں دیکھی جو ڈیرہ کی میٹنگ پشاور ہوتی ہے اس کے پریس ریلیز میں منصوبوں پر ستر سال والا غور جاری رہتا ھے منظوری سانپ کاٹنے کی ویکسین کی بھی نہیں دی جاتی یا کئ ماہ بعد ۔۔ دنیا کی خوبصورت ترین ہماری سسیاں چار چار میل جوھڑوں کا پانی سر پر اٹھائیں کسی کے سر پر جوں نہیں رینگتی۔
ارے بھائی ڈیرہ کی آبادی لوکل اور افغان مہاجرین کی وجہ سے چار گنا بڑھ گی۔ہسپتالوں کے فرشوں اور ٹائلٹ میں مریض پڑے ہیں۔۔ہر دوسرا مریض پشاور ملتان اسلام آباد ریفر ھو رہا ھے کبھی گنتی کی؟ ہمارے لیڈروں کو جمھوریت کی فکر ھے کیونکہ وہ ان کی عیاشی کا ذریعہ ھے عوام زندہ باد مردہ باد کے لئے پیدا ھوۓ ہیں ۔۔ ان کا مقدر سیاستدانوں کی عیاشیوں کا ایندھن بننا ھے اور یہ بھی آگ میں جلنے سے خوش ہیں۔۔۔1947ء کے غدر نے کتنی سسیوں کو کنوں میں چھلانگ لگانے پر مجبور کیا؟ کتنی سسیاں تپتے صحراوں میں زندہ درگور ھو گئیں۔ان میں بھی بہت سی خوبصورت سسیوں کا تعلق بھمبھور نہیں ڈیرہ سے تھا۔۔۔۔۔
سرائیکی شعر ھے ؎
اتھے سسیاں نوں لُٹ لیندا تھل وے۔۔اس دنیا توں دور دلا چل وے۔۔۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ