نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بدلتا علاقائی منظر اور او آئی سی کا زوال۔۔۔امتیازعالم

سارا علاقائی منظر بدل چکا ہے۔ اب او آئی سی کے ایجنڈے پہ سلگتا ہوا فلسطینی سوال ایک خوفناک مضحکہ بننے جا رہا ہے

امتیاز عالم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ بھی کیا وقت تھا جب پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹونے فروری 1974ء میں لاہور میں اوآئی سی کے دوسرے سربراہی اجلاس میں اس تنظیم میں ایک نئی روح پھونکی تھی۔ یہ بھٹو ہی کا وژن تھا جس نے او آئی سی کو اک نئی مزاحمتی راہ پہ ڈالا۔ اس کایا پلٹ میں ان کے ساتھ کیسے کیسے لیڈر شامل تھے جن میں یاسرعرفات، کرنل قذافی، شاہ فیصل اور شیخ مجیب الرحمان نمایاں تھے۔ ان میں سے کوئی بھی قدرتی موت نہ مرا۔ماراگیا۔ یہی وقت تھا جب فلسطینیوں کی جدوجہد کا پھریرا دنیا بھر میں لہرایاگیا اور عربوں کو بھٹو ہی نے سمجھایا کہ تیل بطور سیاسی و معاشی ہتھیار دنیا میں کیا رنگ جما سکتا ہے؟ یہ بھٹو ہی تھے جو سوئی ہوئی مسلم امہ کو جگانے میں کامیاب رہے تھے اور پاکستان کو بھارت کے ہاتھوں شکست اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پھر سے عالمی و علاقائی سیاست کے مرکز میں کھینچ لانے میں کامیاب رہے ۔یہی وہ وقت تھا جب آرگنائزیشن آف پٹرولیم ایکسپورٹنگ کنٹریز (OPEC)فعال ہوئی اور عرب دنیا کی کایا پلٹ گئی۔ اِن حالات سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے بھٹو نے پاکستان کا رخ مغرب کی بجائے مشرق وسطیٰ کی جانب موڑا۔ عام آدمی کو پاسپورٹ فراہم کیا جو خلیج کے ملکوں میں جا کر ترقی کے معمار بنے اور زرمبادلہ کے حصول کا بڑا ذریعہ۔ اسی اثنامیں بھارت نے ایٹمی دھماکہ کردیا اور بھٹو نے عرب دوستوں خاص طور پر کرنل قذافی کی مالی مدد سے پاکستان کے نیوکلیئرپروگرام کی بنیاد رکھی ۔لیکن او آئی سی کے دوسرے سمٹ کے تقریباً تمام بڑے لیڈر خوفناک انجام سے دوچار ہوئے ۔اورپھر گزشتہ چار دہائیوں میں مشرق وسطیٰ اور جنوب مغربی ایشیا میں کیا کیا تبدیلیاں ہیں جو وقوع پذیر نہیں ہوئیں۔ سب سے پہلے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان کے انقلابِ ثورکے خلاف جہاد کی داغ بیل ڈالی اور مسلم دنیا سے جہاد کے شیدائیوں نے پاکستان اور افغانستان کا رخ کیا اور ایسی آگ لگائی جو چار دہائیاں گزرنے پر بھی بجھنے کو نہیں آئی۔ عراق ایران جنگ چھڑوائی گئی اور عراق امریکی حملے کا نشانہ بنااور پھر دوسری بار کے حملے میں بالکل تباہ ہوکر رہ گیا۔ا س کے ساتھ ہی شام و لیبیا کی شامت آئی۔ اور مشرق وسطیٰ کا محاذ شکست سے دوچار ہوگیا۔ مصر پہلے ہی عظیم عرب قوم پرست ہیرو جمال ناصر کی شکست کے بعد انورسادات کی قیادت میں کیمپ ڈیوڈ پہنچ کر اسرائیل سے امن معاہدہ کرچکا تھا۔ تیل کی دولت کی فراوانی تھی اور عربوں کا مغرب سے بڑھتا تعلق۔ اس دوران بہارِ عرب آئی اور گزر گئی۔بادشاہتیں تگڑی ہوتی گئیں اور عیش و عشرت میں ڈوب گئیں ۔ جو تبدیلی بڑی تھی وہ شاہ ایران کا تختہ ، ایران کا خمینی انقلاب جس کے دوررس نتائج برآمد ہوئے ۔ انہیں ایران کے انقلاب سے خطرہ تھا جس سے ڈر کر خلیج کی ریاستیں مغرب کی گود میں جا بیٹھیں۔ عربوں ہی کے پیسے سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے مشرق وسطیٰ کو تاراج کردیا اور ہر جانب اپنا تسلط قائم کرلیا۔ مشرق وسطیٰ میں جو تباہی لائی گئی جانے کب کتنی دہائیوں میں اس کا سدباب ہوسکے گا۔ ایسے میں ٹرمپ امریکہ کے صدر بنے اور اس نے سعودی عرب کیساتھ مل کر مشرق وسطیٰ میں ایک نئی بازی کھیلنے کا آغاز کیا۔ شہزادہ محمد ولی عہد بنے جس نے سعودی عرب میں اصلاحات کے دورکا آغاز کیا۔ صدر ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے مشیر اور ان کے داماد کشنر مسئلہ فلسطین کے صہیونی حل کے لیے میدان میں اترے تاکہ عربوں اور اسرائیل کے مابین صلح کرواکے ایران کے خلاف ایک نیا اتحاد ثلاثہ تشکیل دیا جاسکے۔ کشنر اپنے مقصد میں کامیاب رہے اور متحدہ عرب امارات اوربحرین کے بعد سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کے مابین امریکی سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو کے ذریعے خفیہ ملاقات کا اہتمام کیا گیا۔ او رپومپیو کے بقول کئی عرب ممالک آئندہ ہفتوں اور مہینوں میں اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرلیں گے۔ ٹرمپ کے ہوتے ہوئے یا ٹرمپ کے بعد۔

سارا علاقائی منظر بدل چکا ہے۔ اب او آئی سی کے ایجنڈے پہ سلگتا ہوا فلسطینی سوال ایک خوفناک مضحکہ بننے جا رہا ہے،اسکے باوجود کہ او آئی سی نے ایک زبردست قرارداد کشمیر پہ پاس کردی ہے لیکن اب عربوں کو اِس مسئلہ میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں رہی۔ ایسے میں ہمارے خوش لہن وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اپنی خفت کو مٹائیں تو کیسے سوائے قرارداد کے کاغذی پھرے کے۔ فلسطینیوں کی طرح کشمیریوں کو بھی اپنے اپنے دگرگوں حالات کے رحم و کرم پر تنہا چھوڑ دیاگیا ہے ۔حرم کے پاسباں ہی جب مسلم امہ کے پاسباں نہ رہے تو اقبال کا خواب ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے، بس خواب ہی ہوا۔ اب عربوں کا بھارت کے ساتھ تعلق زیادہ نفع بخش ہے۔ یمن کے مسئلے پہ سعودی ناراضی تو اب نئے منتخب صدر بائیڈن کی یمن کی جنگ کے خلاف سخت پوزیشن کے باعث قصہ پارینہ ہوجائے گی۔ انسانی حقوق کی امریکہ کے ایجنڈے پہ واپسی سے امریکہ کی آمرانہ ریاستوں کے ساتھ تعلقات میں کیا گڑبڑ ہوگی؟ اس کا نظارہ کتنا پرلطف یا بورنگ ہوگا؟ جلد ہی پتا پڑجائے گا۔ان بدلتے حالات میں پاکستان کو اپنے روایتی نظریے اور امہ کی پاسبانی کے خوابوں سے نکلنا ہوگا۔ اور واپس اپنی ہی علاقائی جڑوں کی جانب راغب ہونا پڑے گا۔ نئی عالمی، علاقائی صف بندیوں میں چین کے ساتھ مل کر اپنی حکمت عملی کا ازسرنو تعین کرنا ہوگا۔ ماضی کے خواب میں گم رہنے سے مستقبل کے تقاضوں کو پورا نہیں کیاجاسکتا۔ عالمی تعلقات ضرورتوں اور مفادات کے تعلقات ہیں۔ اس میں دوست مستقل ہیں، نہ دشمن۔

عربوں اور ایرانیوں کی جنگ میں پاکستان کیوں پھنسے ۔اگر عرب پاکستان اور بھارت سے الگ الگ تعلق پہ مصرہیں تو ہم کیوں نہ عربوں اورایرانیوں سے علیحدہ علیحدہ تعلقات بڑھانے کی تدبیر کریں۔ پھر سے CPECکو پاکستان کی زرعی، صنعتی و تکنیکی اور سائنسی کایا پلٹ کے لیے فعال کرنے کی ضرورت ہے اور کاسہ گدائی سے جان خلاصی کی۔ اب او آئی سی کے مردہ گھوڑے میں کوئی جان ڈالے بھی تو کیوں؟ جب سب اپنی اپنی راہ لیں گے۔

About The Author