نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

محبت آپ کی میز پر تازہ روٹی ہے۔۔۔رانا محبوب اختر

مقامی زبانوں کو بے وقعت کرنے کی کولونیل پالیسی پوسٹ کولونیل عہد میں جاری ہے۔مقامی ادب سامراجی پیراڈائم کو exposeکرتا ہے۔

رانامحبوب اختر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زبان،حقیقت کی تشکیل کرتی ہے۔تاریخ کو لکھتی ہے۔تہذیب کو سنوارتی ہے۔ہستی کا حال کہتی ہے۔جرمن عالم ، ہائیڈ گر نے کہا:
"The German language speaks Being, while all the others merely speak of Being.”
مادری زبان زندگی اور باقی زبانیں زندگی کے بہانے ہیں۔وسیب میں ہفت زبانی معتبر ہے کہ کثیر اللسانی فطرت کی منشاء ہے۔بائبل کی کتابِ پیدائش میں لکھا ہے کہ طوفان ِنوح کے بعد مشرق کی طرف سفر کرتے ہوئے ایک گروہ سنعار کے میدان میں آیا۔ایک شہر آباد کیا جس میں پتھر کی جگہ اینٹوں اور گارے کی جگہ چونے سے کام لیا۔پھر انھوں نے شہر کی ایک چوٹی آسمان تک پہنچانے کا سوچا کہ خداوند سے کلام کریں۔گھمنڈ نے انھیں آ لیا تھا۔Tower of Babel بنتا تھا۔وہ تکثیریت کے دشمن تھے۔”پس خداوند نے ان کو تمام روئے زمین پر پراگندہ کیا۔سو وہ اس شہر کو بنانے سے باز آئے”۔اب وہ کئی زبانیں بولتے تھے۔لفظ بابل عبرانی کے لفظ balal سے نکلا ہے جس کا مطلب خلط ملط کرنا ہے۔ Babelسے انگریزی لفظ babble ہے جس کے معنی غرانا یا بے تکی بات کرنا ہے۔ کثیراللسانی منشائے خدا وندی ہے۔مگر ہر زمانے میں آفتاب اقبال جہالت کا بابلی مینار بناتے رہے ہیں۔گوپی چند نارنگ نے کہا سرائیکی پانینی کی زبان ہے اور سنسکرت سے پرانی ہے۔ٹوڈیوں کے لئے یہ قبول کرنا مشکل ہے کہ ان کو انگریزی سامراج کی مرعوبیت نے مارا ہے۔آج کے عہد میں بابل کا مینار بناتے ہیں!
گزشتہ پانچ صدیوں میں یورپ نے نوآبادیاتی قبضہ گیری سے دنیا کی تاریخ کو سر کے بل گاڑ دیا ہے۔کولونیل ازم طاقت کے زور پر کمزور قوموں پر قبضے اور ان کے معاشی ، سیاسی اور ثقافتی اثاثوں کو لوٹنے کا نام ہے۔God, Gold and Gloryکی تثلیث استعماری ہے۔مشنری خدا کے نام پر ساون مل کو ساون مسیح بناتا ہے۔مقامی آدمی کا نام بدلتا ہے۔اپنی قسمت بدلتا ہے۔مشین گن اور مشنری کے دہانوں سے جہنم کی آگ برستی ہے۔ مقامی آدمی کو demonizeیا جاتا ہے۔ ویدوں میں مقامی لوگ راکشش ہیں۔کالے اور بڈے۔مقامی زبانوں کو بے وقعت کرنا سامراجی پالیسی ہے۔پانچ صدیاں پہلے امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی زبان انگریزی نہ تھی۔سامراجی قبضے کے دوران ہزاروں مقامی زبانیں مٹ گئیں۔تاریخ اورتہذیب کاقتل ہوا۔ظلم ،اخلاقی زوال اور زرگری کا منطقی نتیجہ بیسویں صدی کی دو عالمی جنگیں تھیں۔دوسری عالمی جنگ کے بعد اٹلانٹک چارٹر کے تحت تیسری دنیا میں آزادی آئی۔مگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں، کثیرالقومی کارپوریشنز اور مقامی اشرافیہ کی نئی تثلیث کا سامراجی قبضہ جاری ہے۔اب مقامی لوگوں کی دو قسمیں ہیں۔وہ غلام ہیں یا آفتاب اقبال ہیں۔غلام خوئے غلامی میں پختہ ہیں، ماضی کے رومان سے مرتے ہیں۔آفتاب اقبال سامراجی پیراڈائم کا پرچار کرکے مزے کرتے ہیں۔ریاستیں نئے سامراج کی غلام ہیں۔اپنے بچوں کو روٹی، علاج اور تعلیم دینے کی بجائے گالی دیتی ہیں ۔ گولی مارتی ہیں۔ غریب ریاستوں کا کام غیر کو شیطان بنا کر جنگی پیراڈائم سے خوف کے قلعے تعمیر کرنا ہے۔قلعہ بند اشرافیہ غریبوں سے ڈرتی ہے اور قلعے کے باہر دشمن بیٹھا ہے۔محصور لوگ مجبوروں کے حکمران ہیں۔دوسروں کی تضحیک اور اپنی برتری کے بے جا احساس سے پیدا ہونے والاجنگی پیراڈائم طاقتور اشرافیہ کا بیانیہ ہے۔ استعمار کے بنائے کارٹون بادشاہ ہیں۔کالے آدمی نے سفید ماسک پہنا ہے۔زبان کو لہجہ ، آزادی کی جنگ کو بغاوت ، احمد خان کھرل کو غدار اور آزادی کے مجاہدوں کی زبان کو جانگلی کہنا، کولونیل رویہ ہے!
مقامی زبانوں کو بے وقعت کرنے کی کولونیل پالیسی پوسٹ کولونیل عہد میں جاری ہے۔مقامی ادب سامراجی پیراڈائم کو exposeکرتا ہے۔ انگلش سپیکنگ کولونیل افسر سے سرائیکی ، پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی یا چہتر مادری زبانوں میں سے کسی مادری زبان میں بات کرنا پہلے درجے پر بدتمیزی اور آخری درجے پر بغاوت ہے۔مقامی زبانوں کا انکار اور انھیں مٹانا کولونیل پالیسی کا تسلسل ہے۔کہ زبان کی فصلیں کتاب، گیت اور فلم ہیں جو کپاس اور گندم کی طرح بکتی ہیں۔انگریزی زبان امریکہ اور برطانیہ کی بڑی ایکسپورٹ ہے۔ مقامی لوگوں کی زبان کا انکار ان کے ثقافتی وجود اور معاشی potentialکا انکار ہے ۔مقامی زبانوں کی ترقی سے سامراجی زبانوں کے معاشی مفادات اور سماجی سٹیٹس پر زد پڑتی ہے۔چین اور جاپان کی ترقی سے ڈر لگتا ہے!
سرائیکی ادبی ایوارڈ مقامیت کی تفہیم اورتحسین کا سندیسہ ہے۔مقامیت کو ہمسایہ مقامیت سے جوڑنے کی سعی ہے۔2019 میں سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر اور پارت نے ایوارڈ کا اجراء کیا تھا۔2018کا ایوارڈ جامعہ بہاؤالدین ذکریا کے وائس چانسلر کی مقرر کردہ کمیٹی نے متفقہ طور پر عاشق بزدار کو دیا تھا۔عاشق بزدار پہلے سرائیکی ادبی لاری ایٹ ہیں۔2019کے سرائیکی لاری ایٹ رفعت عباس ہیں۔رفعت کا بڑا کارنامہ کولونیل پیراڈائم کو توڑنا ہے۔وہ مقامیت(nativity)اور وسیب کا روشن وسوں مکھ ہیں۔18نومبر 2020کو سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر میں ایوارڈ کی تقریب تھی۔پروفیسر طارق انصاری صدر اور ڈین ،ڈاکٹر عبدالرحیم مہمان_ خصوصی تھے۔عاشق بزدار، اشو لال اور جہانگیر مخلص مہمانان ِاعزاز تھے۔ ڈاکٹر ممتاز کلیانی اور ان کی ٹیم میزبان تھے۔مختصر عرصے میں پروفیسرکلیانی کتابوں کی اشاعت اور وسیب کی دانش سے مکالمہ کرکے وسوں کے محبوب ہیں۔خوشی کی بات یہ تھی کہ رئیس ِجامعہ پروفیسر منصور اکبر کنڈی نے ناگزیر مصروفیت کے باعث سابق وائس چانسلر کو اپنی نمائندگی کے لئے بھیجا تھا۔بھاگ وند پروفیسر انصاری ماں بولی کے انصار میں سے ہیں۔مادرِعلمی میں یہ رواداری نہ تھی۔ڈاکٹر کنڈی اس اچھائی کے نقیب ہیں۔ایک زمانے میں جامعات نظریات اور برادریوں کے اکھاڑے بنی تھیں۔قبائلی رویے عام تھے۔”مذہبیت” اور سوشلزم کا دایاں اور بایاں ہاتھ علم اور آزادی کی گردن پر رہتا تھا۔مفادات کی مذہبیت قائم تھی( "قائم ہے” لکھنے میں مادرِعلمی کا احترام حائل ہے۔شعبہ انگریزی کے طالب علم اور استاد ہونے کا اعزاز ترکٹی پہ چڑھا ہے)۔ بات پہ زبان کٹتی تھی۔سرائیکی سٹدی سنٹر میں آرکیالوجی، کولونیل سٹڈیز اور کلچرل سٹڈیز کی خالی آسامیاں ماضی کے خزانوں اور خطاوں سے اغماض کا استعارہ ہیں۔کولونیل پالیسی کا نیو کولونیل درشن ہیں!تقریب میں طلبہ کی شرکت حوصلہ افزا تھی۔ کورونا کی وجہ سے ایس او پیز کی پابندی کے باوجود طالب علموں نے دوپہر سے پیشی اور دیگر ہمارے ساتھ کی تھی۔سامراجی سوچ کی ” دیگر” نوشتہء دیوار تھی!
رفعت عباس کا خطبہ تقریب کا حاصل ہے۔ایک ایک لفظ مقامی آدمی کی دانش میں گندھا ہوا ہے۔”فصل الخطاب” ہے۔پڑھئیے کہ بیشک آپ کی آنکھوں پہ تالے نہیں ہیں:
"ایوارڈ کے لئے میں "سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر” اور "پارت” کا شکر گزار ہوں۔یہ ایوارڈ میری اپنی وسوں سے پھوٹا ہے۔یہ ان کی طرف سے پذیرائی ہے جن کے لئے میں نے لکھا اور آواز اُٹھائی۔
میری دانست میں شاعری ہر بندے کے قریب سے ہو کر گزرتی ہے یا یوں سمجھیں کہ ہر بندہ شاعری کے قریب سے گزرتا ہے۔آج سے بہت پہلے جب میں پانچ سات سال کا تھا میں نے پہلی بار شاعری کو دیکھا تھا۔یہ چناب کے مغربی کنارے ایک ریلوے اسٹیشن چناب ویسٹ بنک کے ڈاک بنگلے میں پٹونیا البا کے پھول پر ایک زرد ٹراپیکل پوپٹ(تتلی)کی شکل میں بیٹھی تھی۔میرے والد ریلوے ملازم تھے اور ڈاک بنگلے کے قریب ہمارا گھر تھا۔دوسری بار شاعری مجھے اپنے گھر کے سامنے پیپل کے نئے گلابی پتوں میں نظر آئی تھی۔میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ شاعری اور میرا بچپن اکٹھے گزرا ہے لیکن یہ کہہ سکتا ہوں کہ میری جوانی اور اب بڑھاپا اکٹھے گزر رہا ہے۔
ساٹھ سال سے کچھ زیادہ عمر میں ہم دونوں کسی کیفے میں اکٹھے کافی پی سکتے ہیں۔کسی دوست کو ملنے شہر کی کسی گلی میں جا سکتے ہیں۔نئے موسم میں کپڑوں کے رنگ پر متفق ہو سکتے ہیں۔ملتان سے کارونجھر تک پندرہ سو کلومیٹر میٹر کا سفر کر سکتے ہیں۔نئی جگہیں دیکھ اور نئے دوست بنا سکتے ہیں۔بارش بنا کر بارش کی لاریاں ان شہروں کو بھجوا سکتے ہیں جہاں بارش نہیں ہوتی!
شاعری نے سب سے پہلے میرے لئے وسیب کے سانجھے خوابوں اور سانجھی خودکلامی کا در کھولا تھا۔ہم دونوں ملتان کی گلیوں میں چلتے اور بیت بناتے تھے۔اب اس شاعری سے میرے لئے ایک قدیمی شہر سے پورے جہان کو مخاطب کرنے کا وقت ہے۔اب یہ شاعری وسوں کے اندر سے کل عالم سے مکالمے کا مقام ہے۔سب قوموں کا احترام ہے۔ ان حملہ آوروں کی قبروں کے لیے بھی پھول ہیں جو ہماری دھرتی میں سوئے ہیں۔
قومیں اپنے سفر میں مشکل وقت سے گزرتی ہیں۔ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جاگتی وسوں اپنی تنہائی، مونجھ اور رومان کے پاتال میں اتر جاتی ہے۔قومیں اپنی تاریخ، تہذیب اور قدامت کے رومان کا شکار ہو جاتی ہیں۔ان کے لئے اپنے شہروں اور دریاؤں کے سامنے دنیا کے شہر اور دریا کم مایہ ہو جاتے ہیں۔اپنے مور کے سامنے قطب جنوبی کا پینگوئن اجنبی لگتا ہے۔اپنے دکھ کے سامنے افریقہ کے لوگوں کا دکھ اور غلامی دور کی بات لگتی ہے۔میرے لیے شاعری اس پاتال سے نکلنے کا راستہ اور اپنی دھرتی کے ساتھ مل کر ہمسایہ اور دور بستی اقوام کے لیے نئی دید ہے۔ مجھے پبلو نرودا، لورکا، ناظم حمکت یا محمود درویش کی شاعری اور دھرتی بھی ایسے ہی شاندار لگتی ہیں جیسے سرائیکی شاعر اور سرائیکی دھرتی۔میرے لیے شاہ لطیف،رحمان بابا،شاہ حسین،سچل سرمست،جام درک اور مست توکلی اتنے ہی عظیم ہیں جتنے خواجہ فرید اور مولوی لطف علی تھے۔
شاعر ہمیشہ جنگ روکنے اور روٹی کی مساویانہ تقسیم کے لئے آتا ہے۔آج کی سرائیکی شاعری تمام دنیا کے لوگوں کے لئے محبت اور ان کی میز کے لئے تازہ ڈھوڈا(روٹی) ہے”۔
بے شک محبت آپ کی میز پر تازہ روٹی ہے۔ماں کے جیسی ہے اور ماں کی گود سے ہی تہذیب اور ماں بولی کی ابتدا ہوتی ہے !

About The Author