ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حمل کے پانچویں مہینے میں ہونے والا الٹرا ساؤنڈ تھا۔ ادھیڑ عمر ریڈیولوجسٹ انہماک سے سکرین پہ نظریں گاڑے، ہاتھ سے مشین پروب کو پکڑے تصویر پہ توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے۔ یکایک ان کی پیشانی پہ کچھ شکنیں ابھریں اور آنکھیں سکڑ گئیں۔ چہرے پہ لکھی تشویش پڑھی جا سکتی تھی۔ کاؤچ پہ دراز مریضہ نے ڈاکٹر کی بدلتی حالت دیکھ کر کچھ متفکر ہو کر پوچھا، ”ڈاکٹر صاحب سب ٹھیک ہے نا؟“
” مجھے افسوس ہے کہ آپ کے لئے میرے پاس اچھی خبر نہیں ہے“
مریضہ کانپتی ہوئی آواز میں بولی، ”کچھ بتائیے تو“
” بچہ جسمانی طور پہ نارمل نہیں ہے“
وہ بھنچے ہوئے لہجے اور دھیمی آواز میں بولے
خاتون کے منہ سے چیخ نما کچھ لفظ نکلے، ”کیا؟ کیا مطلب؟“
” بچے کے پیٹ کی دیوار نہیں بنی سو جگر اور معدہ پیٹ سے باہر لٹک رہے ہیں“ وہ سر جھکا کے بولے،
”اف خدایا میں اسی لمحے سے ڈرتی تھی“
دبی دبی سسکیوں کے ساتھ آنسوؤں کی جھڑی بندھی تھی۔
کہانی ہے تو سترہ برس قبل کی لیکن ہر برس یوں لگتا ہے کہ جیسے دائروں میں گھومتی اس کہانی کا نقطۂ آغاز کل کی بات ہو۔ جیسے وہ لمحات یہیں کہیں فضا میں سرگوشیاں کرتے ہوئے ادھر ادھر تیرتے ہوں اور کبھی کبھی یونہی در دل پہ دستک دے کر احساس کی رگوں میں تلاطم برپا کرنے اتر آتے ہوں۔
حیدر میاں کی آمد سے قبل ہم چار حمل بھگتا چکے تھے اور نتیجہ تھا، دو صحت مند بچیاں اور دو اسقاط۔ مزید کی ہمت نہ تھی سو ببانگ دہل اعلان کر چکے تھے کہ دو بچے خوشحال گھرانا!
مگر کیا کیجیے کہ آس پاس پائے جانے والے مہربانوں کو کہاں چین تھا سو مفت مشوروں کی برسات تھی۔
”سنو، دو بچے تو کافی نہیں ہوا کرتے“ (کس بات کے لئے کافی؟ )
”خاندان لڑکے کے بغیر مکمل نہیں لگتا“ ( ہمارا قطعی یہ خیال نہیں )
”بہنوں کا ایک بھائی ہونا چاہیے“ (کیوں بھئی؟ اور کیا ضمانت کہ بھائی آئے گا)
یہ سب ہم نے ایک کان سے سنا کرتے دوسرے سے اڑا دیا کرتے۔ لیکن ایک دن کیا ہوا کہ ایک دو رکنی وفد درخواست لے کر ہم تک آن پہنچا۔ آپ کے لئے اندازہ کرنا مشکل نہیں ہو گا کہ اس وفد کے ممبران کون تھے۔ ہمیں قائل کرنا چونکہ مشکل تھا سو ہماری اماں کی مدد لی گئی تھی جو اس وفد کا ہراول دستہ تھیں۔
ہم نے دونوں کی درخواست سنی اور پھر اپنی تقریر شروع کی، ( آپس کی بات ہے ہمیں تقریر کرنے کے لئے صرف اشارہ چاہیے ہوتا ہے )
”دیکھیے ہم نے زندگی میں صرف بچوں کو جنم ہی تو نہیں دینا، انہیں کسی مقام پر بھی تو پہنچانا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ہمارا کیرئیر بھی بہت محبوب ہے۔ ماں باپ ہونے کا میوہ بیٹیوں کی وجہ سے چکھ چکے ہیں۔ بیٹے کی ضرورت پہ ہمارا ایمان نہیں، کیا کام ہے جو بیٹی نہیں کر سکتی؟“
اماں جھٹ سے بولیں،
”دیکھو بیٹے ماں باپ کے بڑھاپے کا سہارا ہوتے ہیں“
”اماں، اول تو میں سہارا نامی بات پہ یقین نہیں رکھتی! مجھے لگتا ہے کہ ہر شخص اپنا سہارا خود ہوا کرتا ہے۔ دوسرے مجھے بڑھاپا کسی بھی بچے کے پاس نہیں گزارنا، میری ذات کی وجہ سے میرے پیاروں کی زندگی میں خلل پڑے، مجھے قبول نہیں۔ تیسرے میں بلا مشروط محبت کی قائل ہوں۔ بچوں کو جنم دینا اور پرورش کرنا میرا اپنا فیصلہ ہے سو اس کا اجر یا بدلہ مجھے وصول نہیں کرنا“
ہمارا فلسفہ اماں نے سنا ان سنا کر دیا!
”ہائے ہائے، کیا بوڑھا بڑھیا تنہا پڑے رہیں گے؟“
”جی بالکل، اکیلے گھر میں مزا کریں گے“
اماں کو ہماری بات بالکل نہیں بھائی اور منہ بنا کے بولیں، ”دیکھو تو تمہارے ابا کے بعد کیا میں اکیلی رہ سکتی تھی؟ تم لوگوں کے پاس ہی آ کر رہتی ہوں نا“
”ارے اماں، من کی دنیا آباد ہونی چاہیے۔ یادوں سے، باتوں سے، محبتوں سے، احساس سے اور درد سے۔ جب دامن میں اتنا کچھ ہو تو پھر کوئی کہاں تنہا ہوتا ہے“ ہم نے اماں کی بات کو چٹکیوں میں اڑایا۔
”یہ فلسفہ میرے سامنے مت بگھارو، اور اللہ کا نام لے کے تیاری پکڑو“
ہمیں گھیرنے کی تیاری پوری شد و مد سے کی گئی تھی۔
لیجیے جناب، نادر شاہی فرمان نازل ہو چکا، اب تو طوعاً و کرہاً بھگتنا ہی تھا۔
الٹرا ساؤنڈ کی رپورٹ ہاتھ میں تھامے، آنسوؤں اور سسکیوں کے ساتھ بڑی مشکل سے گاڑی چلا کے گھر پہنچے اور پھر ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔
یہ صورت حال طبی اصطلاحات میں Gastroschisis اور Omphalocele کہلاتی ہے۔ دونوں میں بچے کے پیٹ کی دیوار مکمل طور پہ بن نہیں پاتی اور پیٹ میں پائے جانے والے اعضا (انتڑیاں، جگر، معدہ) باہر نکل آتے ہیں۔ سبب عموماً کروموسومز اور جینز کی ترتیب اور مخصوص نمبر میں کمی بیشی ہونا ہے۔ سو جسمانی طور پہ نامکمل ہونے کے ساتھ ساتھ ذہنی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔
اب ماں اگر خود گائناکالوجسٹ ہو تو کس سے کیا سمجھے اور خود کو کون سی طفل تسلیوں سے بہلائے؟
اس سے آگے کی کہانی اماں کی کہانی ہے!
منتیں، نیازیں، وظیفے، تسبیحات، آنسو اور جائے نماز پہ آہ و بکا! سجدے طویل ہو گئے اور اماں نے اللہ کی چوکھٹ پکڑ لی۔
حیدر میاں کبھی کبھی جم سے آنے کے بعد ہمیں اپنے six packs دکھاتے ہیں تو ہم تھوڑی آنکھیں پھاڑ کے ان عضلات کو دیکھتے ہیں جن کی غیر موجودگی کے اعلان نے ہماری زندگی کے کچھ مہینوں کو اضطراب اور آنسوؤں میں بدل دیا تھا!
( الٹرا ساؤنڈ کی وہ تصویر آج بھی کاغذات کے تھیلے میں رکھی ہے )
اماں ساری عمر اس پہ نازاں رہیں کہ ان کے سجود کی قبولیت تھی کہ حیدر میاں کی حالت پلٹ دی گئی تھی۔
ہم کیسے بھولیں کہ الزائمر کی آخری سٹیج پہ بھی وہ نہ بھولیں کہ حیدر کو آواز دینا ہے۔
چھبیس نومبر کو پیدا ہونے والے اس فرشتے کی آج سترہویں سالگرہ ہے۔ حیدر اپنے نانا سے بہت مشابہہ ہیں، وہی صورت اور وہی درد دل! ابا کے بال اوائل عمری میں سفید ہوئے اور حیدر کے سر میں بھی ابھی سے چاندی لہرا رہی ہے۔
حیدر میاں! سالگرہ مبارک!
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر