نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کچھ لوگ ٹیکہ لگائیں گے۔۔۔رضاعلی عابدی

دیکھیں گے کیسے کیسے گُل کھلیں گے یہ ویکسین بازار میں آتے ہی۔ دیکھیں گے کہ غریبوں کو کون کون ٹیکہ لگائے گا۔

رضاعلی عابدی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہت بڑی خبر ہے۔ کورونا کے دو تین نہیں کئی کئی ٹیکے بن گئے ہیں۔اچھی خبر یہ ہے کہ وہ سارے کے سارے کامیاب اور موثر ثابت ہور ہے ہیں۔ دواساز کمپنیاں اب کروڑوں کے حساب سے ٹیکے بنائیں گی اور یہ دنیا بھر میں دستیاب ہوں گے۔ یہ دستیابی اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس وبا پر دنیا کے گوشے گوشے میں قابو پانا ضروری ہے۔ اگر کوئی چاہے کہ مالدار ملکوں میں وبا ختم ہوجائے اور مفلس اور نادار ملک دو ا کو ترستے رہیں تو یہ علاج بے اثر رہے گا۔ کچھ دوا ساز اداروں نے بڑے پن کا ثبوت دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ غریب ملکوں کو یہ دوا سستے داموں دیں گے۔چلئے ، ان کا تو بڑا پن سامنے آگیا مگر جو مفلس ملکوںمیں غریبوں کی چمڑی ادھیڑنے والے منافع خور پہلے ہی اپنے خنجروں پر دھار بٹھا رہے ہوں گے ان کو بد دیانتی سے کون روکے گا۔دوا کے نام پر کروڑوں کمانا بعض ملکوں میں معمول ہے۔ اب کورونا کے ٹیکے کی خبر کے ساتھ یہ نوید بھی سننے میں آرہی ہے کہ ایک ٹیکے کی قیمت د و یا تین ڈالر سے زیادہ نہ ہوگی۔دیکھیں گے کیسے کیسے گُل کھلیں گے یہ ویکسین بازار میں آتے ہی۔ دیکھیں گے کہ غریبوں کو کون کون ٹیکہ لگائے گا۔

کامیاب دوا کئی مقامات پر بنی ہے جہاں سے یہ دنیا بھر میں فراہم کی جائے گی مگر اس کے ساتھ جو ضروری بات ہے وہ یہ کہ ٹیکہ لگواتے ہی آپ ہر شے سے بے نیاز ہوکر مزے نہیں کرنے لگیں گے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ویکسین کے باوجود احتیاط کرنی ہوگی کیونکہ بری طرح پھیلا ہوا مرض یوں آسانی سے تہس نہس نہیں ہوگا۔ یہ ہدایت ہوش مند لوگوں پر تو شاید اثر کرے، ہمارے علاقے کے تمام فکروں سے آزاد عوام اس پر کان دھریں گے، مشکل ہے۔خاص طور پر پاکستان میں احتیاط نام کی شے ناپید ہوتی جارہی ہے۔ ٹیکہ لگے یا نہ لگے، حفاظتی تدابیر کی ساری ہدایتیں اور ہر قسم کی تنبیہ لوگوں کے سروں کے اوپر سے گزر جاتی ہے اور مرنے اور جینے والوں کے اعداد و شمار کا منہ چڑاتی چلی جاتی ہے۔ لوگ مر رہے ہیں، ان کی بلا سے۔ ابھی دو روز ہوئے حزب اختلاف کے ایک جوشیلے سیاست داں کو یہ کہتے سنا کہ سب بکواس ہے، کچھ نہیں ہوگا۔یہ رویہ کسی ایک دریدہ دہن ہی کا نہیں، بہت عام ہو چلا ہے۔ کچھ نہیں ہوگا یا ’اوپر والے کو منظور نہیں تو خوف کس بات کا ‘کتنے ہی لوگوں کو کہتے سناہے۔ یہ ’کچھ نہیں ہوگا‘ دل اور جگر پر چھریاں چلانے والا فقرہ ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ اس بے حسی کو کیا نام دیا جائے۔ جہالت جیسا بھاری بھرکم لفظ بھی ان لوگوں پر پورا نہیں اترتا۔

یورپ میں کم ہی تقریبات پر دھوم دھام ہوتی ہے، بس لے دے کر کرسمس کے نام پر رونق لگتی ہے اور یہ شاید واحد موقع ہوتا ہے جب گھرانے اور کنبے ہی کے نہیں ،خاندان کے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں، جشن مناتے ہیں ، تحفوں کے تبادلے ہوتے ہیں اور ایک ہی میز پر بیٹھ کر بڑا کھانا کھایا جاتا ہے۔مگر اس مرتبہ کورونا کے خوف نے کرسمس کی ساری رونقیں چھین لی ہیں۔ خاندان کے بہت سے لوگوں کے ایک جگہ جمع ہونے میں خطرے ہی خطر ے ہیں۔ پھر بھی عام لوگوں کے جذبات اور احساسات کے پیش نظر حکومت کچھ رعایتیں دینے پر رضا مند ہورہی ہے ۔مثال کے طور پر کرسمس کے بڑے کھانے کے لئے تین گھرانوں کے افراد ایک چھت کے تلے جمع ہو سکتے ہیں۔ یہ رعایت تو دی جارہی ہے مگر ساتھ ہی اس خیال سے کپکپی بھی طاری ہے کہ کہیں مرض زور نہ پکڑ جائے۔ چنانچہ ساتھ ساتھ تنبیہ کی جارہی ہے کہ لوگ ہر ممکن احتیاط بھی کریں۔چلئے ،یہ لوگ ایسے ہیں کہ ہدایتوں اور مشوروں کو سن لیتے ہیں، جہاں نہیں سنتے وہاں 25دسمبر کی تعطیل اپنے ساتھ ہر طرح کی وبائیں لا سکتی ہے۔ کیونکہ کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی عاقبت نااندیش سیاست داں جوش خطابت میں کہہ رہا ہوگا :کچھ نہیں ہوگا، سب بکواس ہے۔

جی تو چاہتا ہے کہ یہ آنکڑوں والی گیند جیسا وائرس جو انسان کے خون کے خلیوں سے چمٹ کر دوسے چار او رچار سے آٹھ اور آٹھ سے سولہ ہونے لگتا ہے، کسی منہ پھٹ سیاست دان سے بھی بغل گیر ہوجائے۔

About The Author