عفت حسن رضوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’یہ ہوٹل اور آئی ٹی کے شعبے میں پندرہ سال گزارنے والی اور بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری یافتہ ایک لڑکی کی سی وی ہے، میں نے پوچھا تنخواہ کے حوالے سے آپ کی توقع کیا ہے۔ وہ بولی 30 ہزار۔۔۔ اس سے پہلے ای کامرس کی پوسٹ کے لیے ایک لڑکا انٹرویو دے کر گیا ہے وہ تو 10 ہزار پر بھی کام کے لیے راضی ہے۔‘
ارشد محمود نے تاسف بھرے لہجے میں چند صفحے لہرائے، ان صفحات پر نوجوانوں کی تعلیمی اور پیشہ وارانہ محنت کا حاصل درج تھا ۔ جسے ہم انگریزی میں ریسیومے یا پھر کریکلم ویٹائی کہتے ہیں۔ اردو میں اس کا کوئی مخصوص لفظ نہیں، آپ اسے قابلیت کے کوائف کہہ لیں یا پھر کچھ نہ سوجھے تو جو چلتی ہے وہی’پرچی ‘ سمجھ لیں۔
ارشد محمود پنجاب کے شہر وزیرآباد کے بیٹے ہیں۔ 17 برس کے تھے تب خالی ہاتھ بذریعہ ڈنکی اٹلی پہنچے، اطالوی زبان سیکھی اور کاروبار کا آغاز کیا۔ اس وقت اٹلی میں ایک فاسٹ فوڈ چین کے مالک ہیں اور پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں ای کامرس ، فیشن ، فوڈ ، امپورٹ ایکسپورٹ کے کاروبار چلارہے ہیں۔ پاکستان سے قسمت بنانے نکلے تھے قسمت بن گئی، اب پاکستان کی قسمت سنوارنے چلے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل میں ایک پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین اسلم خان سے ملی تو وہ پاکستان سے امید اور نا امیدی کے درمیان کہیں شش و پنج میں مبتلا تھے کیونکہ اس وقت عمران خان نے نئی نئی حکومت بنائی تھی۔ اب جبکہ خاں صاحب کی حکومت پانچ سال کی مقررہ مدت کا آدھا دورانیہ گزار چکی ہے، ایک اور بیرون ملک مقیم پاکستانی سرمایہ کارارشد محمود سے ملاقات بہت کچھ سمجھا گئی۔
میں نے ان کے مشن پاکستان کے بارے میں پوچھا تو وہ آپ بیتی سنانے لگے۔ وہ وزیر آباد میں اپنے آبائی علاقے کی ایک ذیلی سڑک پکی بنوانا چاہتے تھے۔ ایک عزیز نے کہا کہ ہمارا مشورہ تو شاید سمجھ نہ آئے تم باہر سے پیسہ لائے ہو اس لیے ایک بار خود آزما کر دیکھ لو۔ ارشد محمود نے تعمیرات شروع ہی کی تھی کہ اہل علاقہ یو سی چئیرمین کی سربراہی میں نعرے لگاتے ہوئے جمع ہوگئے۔ مختصر یہ کہ وہ سڑک نہ بنی جب تک کہ علاقہ چئیرمین کا موڈ نہیں بن گیا۔ ’مشکل یہ ہے کہ ہمارے لوگ اسے بھی نہیں چھوڑتے جو ان کا بھلا سوچتا ہے‘ارشد محمود جھنجھلاہٹ میں کہنے لگے: ’ یہاں صبح سے شام تک کھانا چلتا ہے، وزرا اور عہدے داروں سے کام کے لیے ملیں تو چائے بسکٹ اور خشک میوہ جات تو خوب پیش کیے جاتے ہیں لیکن کام کی بات کوئی نہیں کرنا چاہتا‘۔
انہوں نے بتایا کہ اٹلی کے ایک سرمایہ کار کو وہ پاکستان لائے ، یہاں حکام سے ان کی ملاقاتیں کرائیں لیکن ہمارے لوگوں کی سنجیدگی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ایک سرکاری ادارے کا اعلیٰ افسر دوران ملاقات میز کے نیچے دونوں ہاتھوں میں موبائل تھامے مسلسل مصروف رہا۔ ارشد محمود صرف حکومت پاکستان ہی نہیں ہمارے لوگوں کی ناقص پیشہ ورانہ تربیت کو بھی بڑا قصور وار ٹھہراتے ہیں۔ ان کے بقول پاکستان میں اس وقت ای کامرس پر مبنی کوئی کاروبار شروع کیا جائے تو اچھی افرادی قوت ڈھونڈنا ایک مسئلہ ہے۔ تعلیمی ادارے جو ڈگری یافتہ نوجوان مارکیٹ کو دے رہے ہیں وہ بین الاقوامی مسابقتی ماحول میں کافی پیچھے ہیں۔
’ہم بیرون ملک مقیم پاکستانی جورقوم پاکستان بھیجتے ہیں وہ پاکستان نہیں اپنے گھر والوں کے لیے ہوتی ہے، یہ کل ملا کر 22 ارب ڈالر ہے۔ سوچیں یہاں کاروبار کا ماحول بنے تو کتنا سرمایہ پاکستان آسکتا ہے۔ فی الحال تو سب ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہیں۔‘
ارشد محمود کا یہ جملہ کافی دیر میرے کانوں میں گونجتا رہا۔ ابھی میں بھی مشن پاکستان کے خدوخال سوچ ہی رہی تھی کہ ایک خبر نظر سے گزری۔ پشاور کے صحافی اظہار اللہ نے ایک بڑے آن لائن فراڈ کو رپورٹ کیا۔ یہ ایک ای کامرس کاروبار تھا جس میں خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد نے پچاس ہزار سے لے کر چالیس لاکھ روپے تک کی سرمایہ کاری کررکھی تھی۔ سب ڈوب گیا۔ ارشد محمود کہتے ہیں یہاں کاروبار کے لیے ماحول نہیں بنا۔ ادھر پشاور میں فراڈیئے آن لائن کاروبار کے نام پر کروڑوں لوٹ گئے۔ ان دومعاملات کو ذرا پرکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ قوانین ، سرکاری بابوؤں اور وزیروں نے مل کر پاکستان میں قانونی طریقے سے کاروبار جمانا مشکل اور فراڈ کرنا آسان بنا رکھا ہے۔
پلاٹوں میں سرمایہ لگانا ہمارا محبوب قومی کاروبار اس لیے ہے کیونکہ یہ محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ مگر یہاں قومی سطح پر پلاٹوں کی چائنا کٹنگ کا دھڑکا ہے۔ ایسے ہی چھوٹے کاروبار میں کوئی پیسہ لگائے تو ہر محلے میں ایک ڈبل شاہ نوٹوں اور خوابوں سے بھرا سوٹ کیس لیے کھڑا ہے۔ خاں صاحب ! یہ جو آپ کے چہار جانب بھانت بھانت کے مشیر، وزیر ، پارٹی رہنما اور پاکستان کے ہمدرد جمع ہیں یہ آپ کو اندر کی بات نہیں بتا رہے۔ جو کوئی بھی آپ کو راستہ بتارہا ہے وہ دراصل گمراہ کررہا ہے ہم جس پہ چل رہے ہیں وہ راستہ پیچھے کی جانب جاتا ہے۔ یہ ترقی کے جو نقشے آپ کو دکھائے جارہے ہیں یہ دراصل نقشے بازی ہے۔ جوہورہی ہے وہ ترقی معکوس ہے۔
خاں صاحب! ہم نے سنا ہے کہ آپ سیدھے سادے آدمی ہیں، ان کی باتوں میں نہ آئیے گا۔ مشن پاکستان پر لگے ارشد محمود جیسے سرمایہ کاروں سے ملیں جو بتائیں گے کہ پاکستان کا بھلا سوچنا کتنا مہنگا پڑرہا ہے۔ یا پھرایک فراڈ کاروبار کے نام پر اپنی پونجی لٹانے والے سینکڑوں پاکستانیوں سے ملیں۔ یہ آپ کو بتائیں گے کہ انہوں نےپاکستان میں کاروبار پر پیسہ لگانے سے کان پکڑ کر توبہ کیوں کرلی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر