ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منٹو، عہد حاضر کا سب سے بڑا نباض! دیکھئیے کیا لکھتا ہے،
”خان بہادر کی بیوی اپنے شوہر کے کمرے میں گئی جو کہ خالی تھا مگر بتی جل رہی تھی۔ بستر پر سے چادر غائب تھی۔ فرش دھلا ہوا تھا، ایک عجیب قسم کی بو کمرے میں بسی ہوئی تھی۔ خان بہادر کی بیوی چکرا گئی کہ یہ کیا معاملہ ہے، پلنگ کے نیچے جھک کر دیکھا مگر وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ لیکن ایک چیز تھی، اس نے رینگ کر اسے پکڑا اور باہر نکال کر دیکھا، خان بہادر کی موٹی مسواک تھی۔
شاداں جب گھر پہنچی تو لہولہان تھی، وہاں پہنچتے ہی بے ہوش ہو گئی۔ ماں باپ ہسپتال لے گئے۔ شاداں کو ایک لحظے کے لئے ہوش آیا، اس نے صرف ”خان بہادر“ کہا، اس کے بعد ایسی بے ہوش ہوئی کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سو گئی۔
جرم بہت سنگین تھا۔ استغاثے کے پاس کوئی عینی شہادت موجود نہیں تھی۔ ایک صرف شاداں کے لہو میں لتھڑے ہوئے کپڑے اور وہ دو لفظ جو اس نے مرنے سے پہلے کہے۔ ساتھ میں ایک گواہ جس نے شاداں کو شام کے وقت خان بہادر کے گھر کی طرف جاتے دیکھا تھا۔
صفائی کے گواہ صرف دو تھے۔ خان بہادر کی بیوی اور ایک ڈاکٹر۔ دونوں کے مطابق خان بہادر اس قابل ہی نہیں کہ وہ کسی عورت سے ایسا تعلق قائم کر سکے۔
خان بہادر رہا ہو گئے۔ بری ہو کر جب گھر آئے تو ان کی زندگی کے معمول میں کوئی فرق نہ آیا۔ ایک صرف انہوں نے مسواک کا استعمال چھوڑ دیا ”
کہنے کو یہ ایک دلخراش افسانہ ہے جو تقریباً سات آٹھ دہائیاں قبل رقم ہوا، لیکن یہ ایک ادھیڑ عمر شخص کی جنسی ہوس کا اندوہناک قصہ ہے جس نے نوعمر بچی شاداں کو کچھ چیزیں دلا کر اپنی طرف راغب کیا اور پھر اسے ریپ کا نشانہ اس طرح بنا ڈالا کہ وہ موت کی اندھیری گلی میں اتر گئی۔ جب عدالت تک بات پہنچی تو خان بہادر صاحب اپنی بیگم اور ڈاکٹر کی اس گواہی کے بعد بنا کسی مشکل کے رہا ہوئے جس کے مطابق خان بہادر صاحب تو جنسی اہلیت سے ہی محروم تھے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ شاداں کی موت کا سبب کیا بنا جو مرنے سے پہلے خان بہادر کا نام اپنے لبوں سے ادا کر گئی؟
منٹو نے نہ صرف شاداں کی بے کسی کا نوحہ لکھا بلکہ انسانی نفسیات کی ان گنجلک تہوں کو کھولنے کی کوشش کی جہاں ایک مرد جنسی تعلق تو قائم کرنے سے عاری ہے لیکن اختیار، طاقت، سنگدلی اور جبر پہ مبنی فطرت اس کو تشدد کا وہ طریقہ سجھاتی ہے جس کا انجام شاداں کی موت ہے۔ منٹو اپنے قاری کو کچھ نہیں بتاتا لیکن خان بہادر کے بستر کے نیچے پائی جانے والی مسواک، بیوی کی گواہی اور رہائی کے بعد مسواک کا ترک استعمال قاری کو ایک ایسی بند گلی میں لے جاتا ہے جہاں قاری منٹو کی تشخیص اور نفسیات کی اندھیری گلیوں کا ماہر ہونے کا قائل ہو جاتا ہے۔
آپ کو شاید یہ افسانہ حقیقت سے بہت دور محسوس ہو اس لئے ماضی سے اس جنونی کی خبر یاد کروانے میں کوئی حرج نہیں جو بیوی کی اندام نہانی میں الیکٹرک راڈ سے کرنٹ لگا کے حظ اٹھاتا تھا۔ ذرا تصور کیجئے، نازک حصوں میں دوڑتا کرنٹ، تڑپتی ہوئی عورت اور طاقت کے نشے میں چور شوہر! (مذہبی شہرت رکھنے والے ایک معروف دوا خانے نے راولپنڈی کے اس شخص قاری شریف کی سزا کا دس لاکھ روپے جرمانہ ادا کر کے اسے تبلیغ پر بھیج دیا تھا- و – مسعود)
آج ہمیں یہ سب قصے یوں یاد آئے جب شبلی فراز کی زبانی اس قانون کا مسودہ تیار ہونے کی خبر سنی جس کے مطابق ریپ کے ملزمان کو کیمیائی عمل سے جنسی طور پہ نا اہل بنایا جائے گا۔
اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا واقعی جنسی ریپ کا محرک جنسی خواہش ہے؟ اس سوال کا جواب منٹو نے تو برسہا برس قبل شاداں کی داستان لکھ کر دے دیا جو شاید آپ کو دیوانے کی بڑ لگے تو دیکھ لیتے ہیں کہ سماجی اور نفسیاتی سائنس کی تحقیق اس بارے میں کیا کہتی ہے؟
سائیکالوجسٹ نکولس گروتھ (Nicholas Groth) نے جنسی ریپ کو تین خانوں میں تقسیم کرتے ہوئے ریپ کے محرکات اور ریپسٹ کی خصوصیات بیان کی ہیں۔
1۔ غصیلا ریپسٹ:
اس ریپ کا محرک وہ شدید غصہ ہے جو ریپسٹ کو نہ صرف تشدد کرنے پہ اکساتا ہے بلکہ شکار کو جسمانی طور پہ مسخ اور ذہنی طور پہ تباہ کر کے اپنے غصے کو ٹھنڈا کرتا ہے۔ بے پناہ غیظ و غضب کا مالک بے انتہا جسمانی قوت کا استعمال کرتے ہوئے شکار کے جسم کو مضروب و شکستہ کرنا بھی اس کھیل کا حصہ سمجھتا ہے۔
2۔ طاقت و اختیار کی ہوس کا مارا ریپسٹ:
اپنے آپ میں محرومیوں کا خلا لئے، احساس کمتری کا شکار، معاشرے میں کم حیثیت ریپسٹ کسی کمزور اور خوفزدہ کو جبرا زیر کر کے بالادستی قائم کرنے میں لذت محسوس کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک شکار پہ اکتفا نہیں کرتا۔ وہ اس جرم کا ارتکاب بار بار کر نے پہ وہ خود کو مجبور پاتا ہے کہ لرزتا، کانپتا، رحم کی بھیک مانگتا بے بس شکار اسے اپنی کمزوریوں کو بھلا دینے میں مدد کرتا ہے۔
3۔ درد کی شدت سے تڑپتا شکار دیکھ کے جنسی حظ اٹھانے والا ریپسٹ:
نازک اعضا پہ کسی اوزار کی مدد سے تشدد اور درد سے تڑپتا بے کس، بے اختیار، خوفزدہ شکار دیکھ کر جنسی لطف اٹھانے والے ریپسٹ اس زمرے میں آتے ہیں۔ منٹو کے خان بہادر نے کم عمر شاداں کو مسواک سے چھلنی کر ڈالا اور وہ دم توڑ گئی۔ اکیسویں صدی کے جنونی نے جو شاید راولپنڈی سے تعلق رکھتا تھا، اذیت پہنچانے کے اس عمل کو مزید بڑھاتے ہوئے بے بس زوجہ پہ بجلی کے کرنٹ کا استعمال کر ڈالا۔
شکار کی اپنے شکاری کے چنگل سے نکلنے کی جدوجہد سادیت پسند ریپسٹ کو اس قدر محظوظ کرتی ہے کہ وہ اسے قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ آئے روز خواجہ سراؤں کے قتل اسی کی ایک مثال ہیں۔
آج کی بات ہم نے چھیڑی ہی اس لئے ہے کہ جان سکیں کہ کیا ریپسٹ کو کیمیائی عمل سے جنسی نا اہل کر کے ہم ریپ کے کیسسز میں کمی دیکھ سکیں گے؟ کیا ریپسٹ کو پھانسی پہ لٹکا کے ہم انسانی فطرت کے گھناؤنے پہلو کو بدل سکیں گے؟
معصوم بچی زینب کے قاتل عمران کو پھانسی گھاٹ پہ ہم پہنچا چکے۔ کیا کسی ریپسٹ کے کان پہ جوں رینگی؟ کیا ریپ کرنے سے کوئی خوفزدہ ہوا؟ نہ ریپ ختم ہوئے اور نہ ہی ریپسٹ!
بات کچھ اور ہے جو ہمیں آج بھی سمجھ نہیں آ رہی۔ اس پیچیدہ نفسیات پہ لکھی ”فحش کہانیاں“ ہمارے عوام اور حکام بالا کو پڑھنے کی اشد ضرورت ہے۔ شاید اس مسئلے کی گنجلک پرتوں کو سمجھ کے معاشرے کی ذہنیت پہ کچھ کام ہو سکے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر