اشفاق نمیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مسلمان 642ء میں برِصغیر میں آئے 642 سے1857 تک بارہ صدیوں کا عرصہ بنتا ہے اس عرصہ کے دوران کہیں بھی ہندو مسلم کا مذہب کی بنیاد پر فساد کا ذکر نہیں ملتا برِصغیر میں اس دوران لڑی جانے والی تمام جنگیں سیاسی بنیادوں پر تھیں اور ان جنگوں میں لڑنے والی فوجوں میں مذہب کو بالاۓ طاق رکھ کر فوجی بھرتی کیے جاتے تھے اور دونوں طرف سے مختلف مذاہب کے لوگ شریک ہوتے تھے اس دوران میں گنگا جمنی تہذیب اور اردو زبان نے جنم لیا اور گنگا جمنی تہذیب میں اتنی طاقت اور مضبوط تھی کہ کبھی کبھی ایسا لگتا تھا کہ یہ لوگ ایک مذہب کے ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ اس تہذیب نے ان لوگوں کے مذاہب پر بھی اپنے نقوش چھوڑے جیسے ہندوں میں برہمو سماج اور آریا سماج جیسی درجنوں تحریکوں نے پیدا ہوئیں اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ جب تُلسی داس نے رامائن کو سنسکرت سے آسان ہندی میں تبدیل کیا تو برہمنوں نے کوئی مزاحمت نہ کی مسلمانوں کی شادی اور اموات کی رسومات میں بھی ہندوؤں کی رسومات کی چھاپ نظر آنے لگی ہندوؤں کا جو تپسیا کا طریقہ کار تھا مسلمانوں نے اسے تصوف میں شامل کر لیا گُرو نانک، بھگت کبیر، گورکھ ناتھ، بُلے شاہ، میاں میر جیسے سینکڑوں کئی مذہبی رہنما دونوں کے مشترکہ رہنما بن گئے یورپی سازشوں سے پہلے کا برصغیر مکمل طور پر مختلف تھا
آپ کو جان کر شاید حیرت ہو کہ مغلوں کے دور حکومت میں پوری دنیا کی مجموعی آمدن کا پچیس فیصد ہندوستان کا حصہ تھا اور اشیاء اتنے سستے داموں فروخت ہوتی تھیں کہ جب غیرملکی سیاح یہاں آتے تو ان اشیاء کی قیمت سن کر یقین نہیں آتا تھا کہ اتنی سستی چیزیں بھی مل سکتی ہیں اٹھارویں صدی میں ہندوستان کا کوئی زمین دار ایسا نہ تھا جس کے ہاں یورپی، افریقی یا مشرق وسطٰی کا مزدور یا سپاہی ملازم نہ تھا
انگریزوں کی آمد کے بعد انہوں نے ہندوستان کو اتنا لوٹا اور معاشی طور پر اتنا کمزور کر دیا کہ وہی خطہ عالمی دولت میں پچیس فیصد حصے کا حامل تھا اب اس خطے کی آمدن ایک فیصد سے بھی کم ہو گئی تھی جس خطے میں اشیا کی سستی قیمتیں سن کر سیاحوں کو حیرت ہوتی تھی اسی خطے میں 1876ء سے 1878ء کے دوران ایک کروڑ سے زیادہ لوگ صرف بنگال اور اس کے اطراف میں بھوک سے مرے تھے اور اس تباہی کی ایک نہ ختم ہونے والی طویل داستان ہے لیکن اس سب سے بڑھ انگریزوں نے ہندوستان کا جو نقصان کیا وہ یہ تھا کہ یہاں مذہبی بنیاد پر فسادات کا بیج بو دیا اور نفرت کی اس آگ نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس نے ہندوستان کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا اور پھر اس مسلسل دشمنی کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ دونوں مذاہب کے لوگ الگ وطن لینے کے بعد بھی اس آگ کو نہ بجھا سکے اور کئی نسلیں اس کی بھینٹ چڑھ گئیں برصغیر میں ڈیڑھ ارب کے قریب لوگ بھوک، ننگ، افلاس اور بدترین حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں
کتنے دکھ کی بات ہے کہ پورے برصغیر میں ایک بھی بین الاقوامی معیار کا ہسپتال یا تعلیمی ادارہ موجود نہیں اس کے برعکس دونوں ممالک مسلسل مغربی دنیا سے بہترین اسلحہ خرید کر رہے ہیں پاکستان اور بھارت اپنے صحت اور تعلیم کے مجموعی بجٹ سے کئی گنا زیادہ اپنی جنگوں پر خرچ کرتے ہیں نا جانے ہمیں کب عقل آۓ گی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر