طاہر ملک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند ماہ قبل ملتان بورڈ کے امتحان میں شربت فروش حذیفہ نے گیارہ سو میں سے ایک ہزار پچاس نمبر لے کر پورے بورڈ میں اول پوزیشن حاصل کی.
حذیفہ ابھی اسکول میں ابتدائی کلاسز میں ہی تھا تو والد فوت ہوگئے اوپر سے والدہ اور دیگر بہن بھائیوں کی کفالت ماں امیر لوگوں کے ھاں برتن مانجتی مگر اس کی خواہش تھی کہ بیٹا تعلیمی سلسلہ منقطع نہ کرے ادھر حذیفہ نے گنے کے رس کی ریڑھی پر اسکول اوقات کے بعد دو سو روپے روز پر مزدوری شروع کردی. میٹرک کے امتحانات میں اول پوزیشن لے کر اس نے اپنی والدہ اور خاندان کا سر فخر سے بلند کردیا.
دوسری جانب ملتان کے گردیزی گیلانی قریشی پیر سجادہ نشینوں کے سالانہ عرس کی تقریبات میں کروڑوں روپے چندے نذرانے اور وظائف کی مد میں ان خاندانوں کے ہاں جمع ہوتے ہیں.
قرب میں تلمبہ خانیوال سے تعلق رکھنے والے مولانا طارق جمیل بھی صاحب وسائل ہیں ان کے پاس بھی زکوٰۃ صدقات کے کروڑوں روپے کا فنڈ موجود ہوتا ہے تو پھر رحمت کے ان آستانوں مزارات کے قرب و جوار میں غریب لوگ غربت کے ہاتھوں خودکشی کیوں کرتے ہیں.
حذیفہ جیسے یتیم تعلیمی سہولیات سے محروم اور مزدوروں کرنے پر کیوں مجبور ھوتے ہیں کیونکہ اس کے ذمہ دار بھی غریب سادہ لوح مسلمان ہی ہیں جو اپنے اردگرد بکھری غربت اور غریب ضرورت مند کی ضرورت سے منہ پھیر کر عرس جمعرات پر پیر کے غلے میں روپے ڈال کر نذر نیاز کرتے ھیں.
اور ہمارا متوسط طبقہ اپنے وسائل ان پیروں مولویوں پر لٹانا عین حصول ثواب کا ذریعہ سمجھتا ھے.
زیر نظر تصویر میں ھمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو ان کے ایک مرید سونے کا ھار پہنا رہے ہیں.
بقول اقبال
مجھ کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن.
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور