جام ایم ڈی گانگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وطن عزیز پاکستان میں شوگر ملز کو انتہائی لاڈلی انڈسٹری کا مقام و مرتبہ حاصل ہے. ہم طویل عرصہ سے یہ دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ اس لاڈلی کے باز نخرے ہوں یا مار دھاڑ ہر حکمران انہیں پورا کرتا اور بخوشی برداشت کرتا چلا آ رہا ہے. لاڈلی ضلع سے لیکر صوبے اور مرکز کے اداروں تک، اسٹبلشمنٹ سے لیکر پارلیمنٹ تک ہر ایک کی لاڈلی رہی ہے. اگر لاڈلی شوگر انڈسٹری کو وطن عزیز میں وائٹ گولڈ بنانے والا کارخانہ کہا جائے یا کھلے لفاظوں میں بے حساب نوٹ چھاپنے والی مشین کا نام دیا جائے تو ہرگز بے جا نہ ہوگا. شوگر ملز لگانے کے لائسنس کا حصول ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہے. یہ خاص الخاص لوگوں کو عطا کیے جاتے ہیں. گویا کسی پر یہ وقت کے حکمرانوں کی نوازشات کی انتہا ہوتی ہے.یہ جو شوگر ملز مالکان اربوں روپے خرچ کرکے ملز لگانے کا اکثر و بیشتر ملک و قوم پر احسان جتاتے ہیں.حقیقت اس کے الٹ ہے. شوگر ملز لگانے والے مالکان کا ذاتی سرمایہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے. لائسنس کے حصول کے بعد ملز کی انسٹال منٹ قومی سرمایے سے ہوتی ہے. ملز کو قرض کے ذریعے حاصل کردہ قومی بنکوں کے فراہم کردہ سرمایہ سے لوازمات پورے کرکے چلایا جاتا ہے. کسان کا سال بھر کی محنت سے تیار کردہ گنا شوگر ملوں کو فوری طور پر مفت میں دستیاب ہوتا ہے. جس کی چینی بنا کر اسے بیچ کر کسانوں کو گنے کی پیمنٹ کی جاتی ہے.ہم نے ایسا دور بھی دیکھا ہے کہ جب کسی وجہ سے مارکیٹ میں شوگر ملز کو، چینی کا مطلوبہ ریٹ نہیں ملتا تو شوگر ملیں کسانوں کو گنے کی نقد پیمنٹ کرنے کی بجائے چینی اٹھانے یا صبر کرنے کا کہتی ہیں. صبر کرنے کا کسان کو کوئی صلہ یا منافع نہیں دیا جاتا. شوگر ملز سےچینی اٹھانے والے اسے مارکیٹ میں سستی بیچنے پر مجبور ہوتے ہیں. جبکہ چینی کے مہنگا اور بلیک ہونے کی صورت میں یہی شوگر ملیں کسان کو مانگنے کے باوجود بھی چینی نہیں دیتیں بلکہ کہتی ہیں کہ ایسا کرنا ہماری چینی فروخت کرنے کی پالیسی کے خلاف ہے. ایسے حالات میں ذخیرہ اندوزی کے ذریعے مال سے کئی گُنا مال بنایا جاتا ہے.جیساکہ کہ گذشتہ سیزن کے دوران سے لیکر اب تک قوم خود ساختہ مہنگائی بھگت رہی ہے. گنے کے وزن میں ہیرا پھیری اور ناجائز کٹوتیوں کے ذریعے کسانوں کو اربوں روپے کا ٹیکہ لگایا جاتا ہے. قرضے معاف کرانے کا ایک اندرونی وسیع سلسلہ ہمیشہ سے موجود ہے. پھر اربوں روپے ریبیٹ کے نام پر بھی وصول کیے جاتے ہیں.کسان سے لیے گئے سستے گنے سے اپنی چینی ملک بھر کے عوام کو اپنی مرضی کے ریٹ پر مہنگی بیچ کر عوام کی جیبوں اربوں روپے نکالے جاتے ہیں.گویا اس لاڈلی کی پانچوں گھی میں ہیں. جب جہاں اور جیسے چاہتی ہے گنگا میں بلا روک ٹوک نہاتی رہتی ہے. جو بھی شوگر انڈسٹری میں داخل ہوا ہے. اُس کا اس لاڈلی کے بغیر کسی اور صنعت میں جی ہی نہیں کرتا. ایک شوگر ملز کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری اور تیسری کے بعد چوتھی الغرض وہ شوگر ملیں ہی لگانے کو ترجیح دیتا ہے. اس کی وجوہات اوپر بتا چکا ہوں
شوگر مافیا بے لغام کو بہت عرصے سے تھا وقت اور حالات نے اسے انتہائی منہ زور بھی بنا دیا ہے بلکہ صورت حال نے مزید سنگین اور خطرناک اژدھے کی شکل اور روپ دے ڈالا ہے.ہم دیکھ چکے ہیں اور بھگت بھی رہی ہے کہ یہ اژدھا اعلی عدالتوں میں گھس کر تحفظ حاصل کرکے بھی وار کرتا ہے. لاکھوں نہیں کروڑوں روپے وکلاء پر خرچ کرکے اپنی لوٹ مار کو جاری رکھنے کی راہیں تلاش کرتا ہے.2012ء میں گنے کی مٹھاس و ریکوری سے متعلق ہائی کورٹ نے ایک فیصلہ صادر فرمایا تھا. جس کی روشنی میں حکومت پنجاب سیکرٹری فوڈ نے نوٹیفیکشن بھی جاری کر دیا تھا. شوگر مافیا اسے اپیل کی صورت میں سپریم کورٹ لے گئی.افسوس صد افسوس کہ جنوبی پنجاب سرائیکی وسیب کا کسان مسلسل لٹ رہا لیکن ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا شوگر مافیا ہر پیشی پر وکیل بدل کر لمبی پیشی لے لیتا ہے. کسان میں لڑنے کی اتنی سکت نہیں. حکومتی ذمہ دار اداروں کے ذمہ دار آفیسران کشش کا شکار ہو جاتے ہیں. ان کا کیا لٹ تو سرائیکی وسیب کا کسان رہا ہے.خیر آگے چلتے ہیں. کچھ لوگ لالچ اور کچھ خوف سے اس کا نام نہیں لیتے بلکہ کام کرتے چلے جاتے ہیں. اس ظالم کا یہ دو دھارا قہری وار ملاحظہ فرمائیں.نام نہاد، لالچی کسان لیڈروں اور کچھ بلیک میلر. تنظیموں کو ہائر کرکے بھی اس نے کسانوں پر حملے کیے ہیں. حکومت سے اپنی بات منوانے کے لیے ان ڈائریکٹ مہم جوئی کی ہے. گذشتہ طور میں غیر قانونی شوگر ملوں کے کھلوانے کی تحریک کے پیچھے اور انویسٹرز کون تھے. اب یہ بات راز نہیں رہی. وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار نے پہلی بار کسانوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے شوگر فیکٹریز کنٹرول ایکٹ میں مثبت ترامیم کیں.بذریعہ آرڈیننس اسے فوری طور ہر نافذ بھی کیا. جس کا سوا ایک تنظیم کے ملک بھر کی کسان تنظیموں نے نہ صرف خیر مقدم کیا بلکہ بڑے اچھے الفاظ کے ساتھ حکمرانوں کے اس فیصلے اور کاوش کو خراج تحسین پیش کیا. ہر محکمہ میں موجود کالی بھیڑوں کی طرح کسانوں میں بھی کچھ ایسی کالی بھیڑیں موجود ہیں جو اکثر و بیشتر کرایہ پر دستیاب ہوتی ہیں. شوگر ایکٹ ترمیمی آرڈیننس2020ءکے خلاف بھی ایک ناکام مہم چلوائی جا چکی ہے. میں اس قسم کی مزید خرافات بارے فی الوقت کچھ نہیں لکھنا چایتا کیونکہ یہ میرا آج کا موضوع نہیں ہے.
محترم قارئین کرام،، منظور شدہ غیر منظور شدہ گنے کی وراٹیز کا چکر، ریکوری و مٹھاس کی بدمعاشی سمیت بہت ساری باتیں ہیں. خان پور ضلع رحیم یار خان کے معروف ترقی پسند زمیندار اور EN ایم این اے تحریک انصاف میاں غوث محمد کی گنے اور شوگر ملز کی پریمیم ڈاکہ زنی،کاٹن بیلٹ کو شوگر بیلٹ میں تبدیل کرنے، اپر پنجاب سے سرائیکی وسیب میں شوگر ملوں کی شفٹنگ کی اصل وجہ سمیت بہت ساری باتیں کرنی باقی ہیں. کالم کی طوالت کے پیش نظر انہیں ہم پارٹ ٹو میں پیش کریں گے.EXایم این اے کو تو آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں. لیکن ہم آپ کو وطن عزیز میں پائے جانے والے ENایم این اے کا مطلب بھی بتائیں گے.(نوٹ… جاری ہے)
………………………….
مضمون میں شائع مواد لکھاری کی اپنی رائے ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ