گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب میرے سامنے کوئی بھکر شھر کا نام لیتا ہے تو میرے دل و دماغ میں کرنے کے پھول کی خوشبو ۔ریاض انجم صاحب اور ملکہ نورجہان کی تصاویر جھلکنے لگتی ہیں۔ ملکہ نورجہان بھکر میں پیدا ہوئیں۔ ڈیرہ کے دانشور اور ماہر تعلیم ریاض انجم صاحب نے بھکر کو اپنا مسکن بنا لیا اور کرنے کا تیل بھکر
شھر کی سوغات ہے ۔ میرے بچپن کے زمانے لاھور کی تعلیم کے دوران لاھوری دوست دو چیزوں سے واقف نہیں تھے ایک ڈیرہ اسماعیل خان کا سوہن حلوہ اور دوسرا بھکر کا کرنے کا تیل۔ جب لاھوری دوستوں کی محفل میرے کمرے میں جمتی تو ایک بھینی بھینی خوشبو دل و دماغ کو معطر کر رہی ہوتی اور دوست مجھ سے پوچھنے لگتے یہ کہاں سے آ رہی ہے۔ میں ان کے سامنے کرنے کے تیل کی ایک خوبصورت بوتل رکھ دیتا کہ وہ خود دیکھیں اور وہ اس خوشبو بھرے تیل کو ہاتھوں پر لگانے لگتے۔بھکر کا یہ مشھور تیل برسوں سے ہمارے گھروں میں موجود تھا کیونکہ جو بھی بھکر آتا جاتا وہ یہ تیل ضرور ساتھ لاتا۔ میرا لاھور آنے جانے کا راستہ بذریعہ ٹرین دریا خان سے ہو کر جاتا تھا۔ لیکن جب خان بس سروس شروع ہوئی تو بھکر کا بس سٹینڈ ہمارا ٹھکانہ بنا اور پھر یہ نیو خان بس سروس بن گئی اور ڈیرہ۔دریا خان پل بننے کے بعد ہمارے شھر ڈیرہ میں نیو خان نے ایک بڑا بس سٹینڈ بنا لیا جو آج تک چل رہا ہے۔ ماضی کے دور میں میانوالی اور بھکر ڈیرہ ڈویژن سے منسلک تھے پھر پتہ نہیں کیا ہوا کہ یہ ہم سے علیحدہ کر دیے گیے مگر صدیوں پرانے دلوں کے رشتے تو ٹوٹ نہیں سکتے۔ جب گومل یونیورسٹی بنی تو بھکر کے طلبا و طالبات ہمارے ساتھ پڑھنے لگے اور ڈیرہ دریا خان پل بنا تو بھکر کے لوگ کپڑوں اور زیورات کی خریداری کے لیے ہماری مارکیٹوں میں نظر آتے کیونکہ باڑے کا غیرملکی کپڑا۔برتن اور سامان یہاں مل جاتا تھا۔اس وقت بھکر میں اچھے ہسپتال نہیں بنے تھے تو بھکر کے لوگ علاج کے لیے بھی یہاں آنے لگے۔ریڈیو پاکستان ڈیرہ کی نشریات شروع ہوئیں تو اس ریڈیو کے سرائیکی پروگرامز ڈیرہ سے زیادہ ضلع بھکر میں سنے جاتے اور پھر بھکر کو ریڈیو پاکستان نے باقاعدہ اپنے کوریج ایریا میں شامل کر لیا۔ بھکر کی ثقافتی سرگرمیاں یہاں سے نشر ہونے لگیں۔ بھکر کے ممتاز ادیب ۔شاعر صحافی نجف علی شاہ بخاری تو ہمارے ساتھ ایسے جڑے کہ وہ ریڈیو کے ہو کے رہ گیے ۔ ریڈیو ڈیرہ کے ابتدائی دنوں میں ہمارے کنٹرولر اور سینئر براڈکاسٹر عمر ناصر صاحب ہمارے تلفظ کو ٹھیک کرنے پر بہت زور دیتے تھے۔ہم میں اکثر لوگ بھکر کو با لہجہ سکھر اکثر بکھر پڑھتے تھے مگر ناصر صاحب سختی کرتے کہ بھکر کو اصلی طریقے سے پڑھا جاۓ بس پھر کیا تھا ہمارے نیوز ریڈرز کنول بخاری۔ آمنہ نقوی۔ محمد خالد۔ نیاز حسین زیدی۔ محمد عاشق ۔جلیل بلوچ ۔زکوڑی صاحب سب کی خبریں پڑھنے سے پہلے تلفظ ٹھیک کرنے کی کلاس لگتی۔ مجھے آج تک اس بات کا پتہ نہیں چل سکا کہ بھکر شھر میں کیا رومانس ہے کہ میں جب اس شھر سے گزرتا ہوں تو میرے دل و دماغ پر ایک رومانٹک وجد طاری ہو جاتا ہے ۔ اس شھر کے کچے کا علاقہ دل میں کھب جاتا ہے اور تھل کے ریت کے ٹِیلوں کے سرابوں میں مجھے ہرنیاں چوکڑیاں بھرتی نظر آتی ہیں۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ شہنشاہ جہانگیر کی ملکہ نورجہان کی جاے پیدائش بھی بھکر ہے کیونکہ ایران سے ایک قافلہ یہاں سے گزر رہا تھا اور وہ یہاں کچھ دن کو ٹہرا اور ملکہ نورجہان کی پیدائش یہاں ہوئی۔ملکہ نورجہان کا اصل نام مہرالنسا تھا بعد میں وہ نور جہان بنیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے ایک شاعر جب مقبرہ نور جہان دیکھنے لاھور گیے تو وہاں کی خاموشی اور ویرانی کو دیکھ کر یہ شعر کہا تھا؎ دن کو بھی یہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے.. کہـــــتے ہیں یہ آرام گہِ نورِ جہـــــاں ہے… مغل بادشاہ ہمایوں نے بھکر میں ایک تاریخی دلکشا باغ بنوایا تھا جبکہ قصر زینبؓ یہاں کی ایک مشھور مذھبی عمارت ہے۔ ریاض انجم صاحب فوٹو بنانے کے ماہر ہیں اس لیے بھکر کے خوبصورت مناظر ہمارے سامنے لاتے رہتے ہیں۔ دریا کے بیٹ کے علاقے میں اب اس طرح تیزی سے آبادی بڑھ رہی ہے کہ ایک دن ڈیرہ بھکر اس طرح مل جائینگے جیسے شیخوپورہ لاہور سے مل چکا ہے ۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ