نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حضرت خواجہ غلام فرید ؒ کوریجہ کا123واں عرس۔۔۔ظہور دھریجہ

یہ سن کر حضرت خواجہ فخر جہاں اور حاضرین مجلس پر وجد طاری ہو گیا اور ۔ اللہ والوں کی محفل تھی ، بات ملتانی قاعدے کی الف سے اللہ کی الف تک جا پہنچی

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عظیم صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید ؒ کوریجہ کا 123واں تین روزہ سالانہ عرس مبارک کوٹ مٹھن میں جاری ہے ۔اس مرتبہ کورونا کے باعث عرس کی تقریبات پر پابندی ہے جس پر وسیب میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے دوسری طرف عقیدت مند کثیر تعداد میں آئے ہوئے ہیں تاریخی پس منظر کے حوالے سے دیکھا جائے توحضرت خواجہ صاحب 26 ذیعقد 1261ھ بمطابق 1845ء میں خانپورکے مشہور قصبہ چاچڑاں شریف میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد حضرت خواجہ خدا بخش المعروف خواجہ محبوب الٰہی نے آپ کا نام تاریخی نام خورشید عالم رکھا ۔

بعد میں بابا فرید کی نسبت سے نام غلام فرید تجویز ہوا اوراسی نام سے شہرت حاصل فرمائی ۔ آپ کی پرورش مکمل اسلامی ماحول میں ہوئی ۔ 3 سال کی عمر میں آپ کے بڑے بھائی حضرت خواجہ فخر جہاں سئیں نے آپ کو اپنے بھائی حضرت خواجہ تاج محمود سئیں کے پاس پڑھنے کے لئے بٹھایا۔ ملتانی قاعدے کی الف پر انگلی رکھتے ہوئے خواجہ تاج محمود سئیں نے فرمایا ’’ آکھ فرید الف ‘‘ معصوم فرید نے بھی جواب میں کہا ’’ آکھ فرید الف ‘‘ ۔ خواجہ تاج محمد سئیں نے تین مرتبہ یہی الفاظ دہرائے اور جواب میں خواجہ صاحب نے بھی ہو بہو الفاظ دہرائے ۔

یہ سن کر حضرت خواجہ فخر جہاں اور حاضرین مجلس پر وجد طاری ہو گیا اور ۔ اللہ والوں کی محفل تھی ، بات ملتانی قاعدے کی الف سے اللہ کی الف تک جا پہنچی اور اللہ والوں کی محفل کیف و سرور بن گئی ۔ حضرت خواجہ غلام فرید کی عمر چار سال تھی کہ والدہ ماجدہ کا انتقال ہو گیا، آٹھ سال کی عمر میں والد ماجد اللہ کو پیارے ہوگئے ،والد صاحب کی وفات کے بعد بڑے بھائی حضرت خواجہ فخر جہاں سجادہ نشین بنے ، ان کی اولاد نہ تھی اور خواجہ صاحب کو اپنا بیٹا بنایا ۔ آپ نے خواجہ فریدؒ کی تعلیم، تربیت ، پرورش اولاد سے بڑھ کر کی اور آپ کو یتیمی کا احساس نہ ہونے دیا ۔ والدین کی وفات کے بعد نواب آف بہاولپور نے حضرت فخر جہاں سے استدعا کی کہ خواجہ فرید سئیں کو ہمارے ہاں بھیج دیں تاکہ شاہی محل میں کامل اساتذہ کی نگرانی میں آپ کی تعلیم ہو سکے ۔

چنانچہ فخر جہاں سئیں نے اپنے مرید کی استدعا قبول کرتے ہوئے خواجہ فرید کو شاہی محفل ڈیرہ نواب صاحب بھجوا دیا ۔ آپ نے آٹھ سال کی عمر میں نہ صرف قرآن مجید حفظ کر لیا بلکہ بہت سے دینی علوم سے بھی واقفیت حاصل کر لی ۔آپ نو سال شاہی محل میں مہمان رہے ۔ 1857ء میں آپ اپنے مربی اور بڑے بھائی خواجہ فخر جہاں کے دست بیعت ہوئے اور ان سے روحانی فیض حاصل کیا ۔ خواجہ صاحب نے فرمایا: فخر جہاں قبول کیتوسے ، واقف کل اسرار تھیوسے ہر جاہ نور جمال ڈٹھوسے ، مخفی راز تھئے اظہار اپنے محل و قوع کے اعتبار سے کوٹ مٹھن جاگیرداروں کے جھرمٹ میں ہے ۔ ایک طرف میر بلخ شیر مزاری ، نصر اللہ خان دریشک ، دوسری طرف مخدوم خسرو بختیار ، مخدوم احمد محمود و دیگرکے آبائی گھر ہیں ۔

یہ جاگیردار نسل در نسل بر سر اقتدار چلے آ رہے ہیں مگر اس خطے کی بہتری میں آج تک کوئی لمحہ نہیں آیا ۔ عرس کے موقع پر ہزاروں افراد کی بے بسی اور بے کسی کی حالت دیکھی نہیں جاتی ۔ نومبر کا مہینہ اورسردی کاہے ، غریب زائرین دور دراز سے آتے ہیں اور ان کو پوری پوری رات کھلے آسمان کے نیچے سردی میں گزارنا پڑتی ہے ۔ انہی جاگیرداروں نے وسیب کے ان غریبوں کو صوبے کے سُہانے خواب دکھا کر ووٹ لئے اور مرکز اور صوبے میں انہی کے ووٹوں سے حکومت بنا لی ۔ وسیب کے غریبوں کی امید بندھی تھی ، آس پیدا ہوئی تھی ، وہ تمنا کر رہے تھے کہ اب ہمارے دکھ ٹلنے والے ہیں ، ہمارا صوبہ بننے والا ہے ، تعلیم صحت اور روزگار کے ہمارے مسئلے حل ہونگے مگر وہ سب خواب چکنا چور ہو گئے ۔

اب یہ بھولے سے صوبے کا نام بھی نہیں لے رہے ۔ یہ جاگیردار غریبوں کے خوابوں کے اور ان کی آس ، امید اور تمنا کے قاتل نکلے ہیں ۔ اب لوگ مایوسیوں کی دلدل میں چلے گئے ہیں ، دربار پر قوالی ہو رہی تھی ، قوال گا رہے تھے کہ ’’ ہُنْ تھی فریدا شاد ول ، مونجھاں کوں نہ کر یاد ول ، جھوکا تھیسن آباد ول ، ایہ نئیں نہ واہسی ہک منڑی‘‘ ۔ یہ سن کر بہت سے عقیدت مند اشک بار تھے اور وسیب کے لوگ اسی آس پر نسل در نسل زندگی گزار رہے ہیں کہ ’’ جھوکاں تھیسن آباد ول ۔ ‘‘ مگر ان جاگیرداروں کی زندگی میں کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آیا ، جب کہ ان کے مردہ ضمیر زندہ ہوں ، ان میں انسانیت آئے اور وہ انسانوں کو انسان سمجھیں ۔

مجھے ایک واقعہ یاد آ رہا ہے کہ خواجہ فرید کے مرید نواب بہاولپور نے ایک شخص کو ریاست بدر کر دیا ۔ وہ روتا ہوا خواجہ فرید کے پاس پہنچا ، خواجہ فرید نے مختصر ترین خط لکھا نہ اس میں کوئی القابات لکھے نہ خطابات ۔ خواجہ صاحب نے لکھا ’’ صادق ! زیر تھی ، زبر نہ بنْ ، متاں پیش پووی ‘‘ ۔ سائل وہ خط لے گیا ، اسکی ریاست بدری ختم ہوئی ۔ خواجہ فرید اتنے انسان دوست تھے کہ معروف کتاب مقابیس المجالس کے مطابق خواجہ فرید نماز عصر کے بعد مجلس جمائے بیٹھے تھے ۔ ایک غیر مسلم عورت پلیٹ میں گرم پکوڑے لے کر آئی اور استدعا کی کہ سئیں یہ میں آپکے لئے لائی ہوں ، کھائیں ۔

آپ نے کھا لئے ۔ مجلس میں بیٹھے ہوئے مصاحبین نے کہا کہ حضور آپ روزے سے تھے ۔ آپ نے فرمایا مجھے معلوم ہے ، بتائیے کہ روزہ توڑنے کا کیا کفارہ ہے؟ تو علماء نے کہا کہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا یا ساٹھ روزے رکھنا ، آپ نے فرمایا یہ دونوں کام میرے لئے مشکل نہیں ۔ البتہ دل توڑنے کا کفارہ میں ادا نہ کر سکتا تھا ۔ وہ غیر مسلم عورت مسلمان ہو گئی ۔ خواجہ فرید کی پوری زندگی انسان دوستی سے بھری پڑی ہے۔ وہ جبہ و دستار سے کوسوں دور تھے ۔ سادہ لباس ، سادہ کھانا اور غریبوں میں اٹھنا بیٹھنا لیکن جاگیردار رات دن ہوس میں لگے ہوئے ہیں ۔ ان کو نہیں معلوم کہ دولت سے عزت بنتی تو لوگ قارون اور فرعون کا نام چومتے۔ آج ان کے نام گالی بن چکے ہیں ، وسیب کے جو جاگیردار قارون اور فرعون بنے ہوئے ہیں ان کو انسان دوستی کا راستہ اختیار کرنا چاہئے ، ورنہ ایسا انقلاب آئے گا کہ یہ اپنی جاگیروں سمیت برباد ہو جائیں گے۔

About The Author