ایم الیاس خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جسٹس وقار احمد سیٹھ، جن کی وفات حال ہی میں کورونا وائرس لگنے کے سبب ہوئی، ایک بے باک جج تھے اور ججوں کی اس قبیل سے تعلق رکھتے تھے جو پاکستان میں کمیاب ہے۔ انھوں نے روایت کے برعکس ملک کی طاقتور فوج کے مقابلے میں قانون کو ترجیح دی۔
خراج عقیدت پیش کرنے والوں نے انھیں ’جرات مند، نڈد اور آزاد‘ قرار دیا ہے۔ وہ 59 برس کے تھے۔
پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت میں ان کے فیصلوں نے فوج اور حکومت دونوں کو برہم کیا، ان میں پاکستان کے جلا وطن سابق فوجی سربراہ جنرل مشرف کی سزائے موت بھی شامل ہے، جس کی خبر دنیا بھر میں شہ سرخیوں میں نشر ہوئی۔
انھوں نے حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں پر اسٹیبلشمنٹ کو بھی چیلنج کیا، اور اس قانون کو منسوخ کیا جس کے تحت فوج خفیہ حراستی مراکز چلاتی تھی، اور درجنوں ایسے افراد کی رہائی کا حکم دیا جنھیں ناکافی ثبوتوں کی وجہ سے انسداد دہشتگردی قوانین کے تحت سزائیں سنائی گئی تھیں۔
جسٹس سیٹھ کی موت کو ایک ایسے ملک کے لیے دھچکا سمجھا جا رہا ہے جہاں فوج نے حالیہ برسوں میں اپنا اثر و نفوذ بڑھایا ہے۔
تیرہ نومبر کو ان کی وفات کے بعد وکلا برادری ملک بھر میں سوگ منا رہی ہے۔
ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل، حارث خلیق، نے ان کی وفات کو ’برائے نام جمہوریت میں خود مختاری کے لیے کوشاں عدلیہ کے لیے ضرب کاری‘ قرار دیا ہے۔
بی بی سی گفتگو کرتے ہوئے حارث خلیق نے کہا کہ جسٹس سیٹھ ’با ضمیر اور نڈر ججوں ۔۔۔ جو بدقسمتی سے تعداد میں قلیل ہیں‘ کے نمائندہ تھے۔
سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ جسٹس سیٹھ کا رتبہ صرف ان کے غیر معمولی عدالتی فیصلوں کی وجہ سے نہیں، ’بلکہ انتہائی جابرانہ حالات میں ایسے فیصلے لکھنے کے لیے درکار جرات‘ کی وجہ سے بڑھا ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عبدالطیف آفریدی انھیں ’ایک باہمت اور سمجھوتہ نہ کرنے والی‘ ایسی شخصیت قرار دیتے ہیں جو فوج کے مقابلے میں کھڑے ہونے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔
ایڈووکیٹ آفریدی نے روزنامہ ڈان کو بتایا کہ ’اس کی انھیں قیمت چکانا پڑی،‘ کیونکہ پشاور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بننے کے بعد سینیارٹی کے باوجود انھیں تین بار سپریم کورٹ میں ترقی سے محروم رکھا گیا۔
فیصلے جن سے فوج کو دھچکا پہنچا
جسٹس سیٹھ نے گذشتہ برس اس وقت تاریخ رقم کی جب ان کی سربراہ میں قائم خصوصی عدالت نے گذشتہ برس جنرل مشرف کو غداری کی پاداش میں ان کی غیر موجودگی میں سزائے موت سنائی۔ انھیں 2007 میں آئین معطل کرنے اور ایمرجنسی نافذ کرنے کے جرم میں غداری کا مرتکب پایا گیا تھا۔
یہ پہلی مرتبہ تھا کہ آئین میں غداری کی شق کا کسی کے خلاف اطلاق کیا گیا تھا، وہ بھی فوج کے سربراہ کے خلاف ایک سول عدالت کی جانب سے ایک ایسے ملک میں جہاں1947 میں برطانوی راج سے آزادی کے بعد زیادہ تر سیاسی فیصلوں میں فوج کا ہاتھ رہا ہو۔
سزا پر عملدرآمد کا امکان نہیں تھا۔ جن مشرف کو، جنھوں نے ہمیشہ کسی قانونی شکنی میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے، 2016 میں طبی بنیادوں پر پاکستان سے جانے کی اجازت دی گئی تھی۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اگر سزا سے پہلے ان کا انتقال ہو جاتا ہے تو ان کی لاش کو پارلیمان کے سامنے گھسیٹا جائے اور ’تین روز تک لٹکایا جائے‘۔
اس پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا، حکومت نے جسٹس سیٹھ کو نااہل کی بنیاد پر عہدے سے ہٹانا چاہا، اور قانونی ماہرین نے ان ہدایات کو غیر آئینی قرار دیا۔
یہ باعث تعجب نہیں کہ اس فیصلے نے فوج کی دکھتی رگ کو بھی چھوا، جس نے بیان جاری کیا کہ ’فیصلے سے فوج کے افسران اور جوانوں کو دکھ اور اذیت پہنچی ہے،‘ اور یہ کہ جنرل مشرف ’یقیناً کبھی بھی غدار نہیں ہو سکتے‘۔
ایچ آر سی پی کے حارث خلیق کا اس فیصلہ کے بارے میں کہنا ہے کہ جسٹس سیٹھ کے الفاظ کے انتخاب سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، مگر ’آئین کی روح کے مطابق ایک فوجی حکمران کو سزا سنانے کا فعل ایک تاریخی اقدام تھا‘۔
اس فیصلے کے خلاف اپیل کا عمل جاری ہے۔
جنرل مشرف کی سزا ہی فوج کی جسٹس سیٹھ سے ناراضی کا واحد سبب نہیں ہے۔ جون 2018 میں پشاور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بننے کے بعد انھوں نے 200 سے زیادہ ایسے افراد کی رہائی کا حکم دیا جنھیں دسمبر 2014 میں پاکستانی طالبان کے ہاتھوں پشاور کے آرمی پبلک سکول کے قتل عام کے بعد قائم کی گئی فوجی عدالتوں سے خفیہ سماعت کے بعد سزائیں سنائی گئی تھیں۔
ان مقدمات میں بریّت کے لیے انھوں نے شواہد کی کمی اور ’حقائق اور قانون میں بد نیتی‘ کا حوالہ دیا۔
گذشتہ برس اکتوبر میں انھوں نے خیبر پختونخوا میں میں جاری کیے گئے ایک ایسے قانون کی منسوخی کا حکم دیا جس کے تحت فوج کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ عام شہریوں کو عدالتی اور انتظامی نگرانی کے بغیر غیر معینہ مدت تک خفیہ حراستی مراکز میں رکھ سکتی ہے۔
پشاور میں روزنامہ ڈان کے قانونی امور کے سینیئر نامہ نگار وسیم احمد شاہ کا کہنا ہے کہ ’فوجی عدالتوں سے سزایافتہ افراد کی رہائی پر فوج کے بعض حلقوں میں ناک بھوں چڑھائی گئی، مگر جب انھوں نے حراستی مراکز سے متعلق قانون کو منسوخ کیا تو یہ بات عیاں ہوگئی کہ جسٹس سیٹھ نڈر ہیں اور مقتدر حلقوں کے کسی احسان کے خواہشمند نہیں۔
’بعد میں جب انھیں بظاہر خانہ پوری کے لیے جنرل مشرف پر مقدمہ چلانے والی تین رکنی خصوصی عدالت بینچ کا سربراہ مقرر کیا گیا تو زیادہ تر لوگوں کو اندازہ تھا کہ کس فیصلہ کی توقع کی جائے۔‘
قانونی ’باریک بین‘
وقار احمد سیٹھ 16 مارچ 1961 کو ڈیرہ اسمعیل خان کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے زیادہ تر تعلیم پشاور میں پائی، اور 1985 میں قانونی اور سیاسیات میں ڈگریاں حاصل کیں۔ اسی برس انھوں نے وکالت شروع کر دی۔
انھیں جاننے والے وکلا کہتے ہیں کہ وہ دل سے اشتراکیت کے حامی تھے۔ وہ بائیں بازوں کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی طلبہ تنظیم کے اہم رکن تھے، اور وکیل بننے کے بعد اپنے دفتر میں کارل مارکس، ولادمیر لینن اور لیون ٹروٹسکی کی تصاویر آویزاں کر رکھی تھیں۔
ان کے قریبی ساتھی اور پشاور کے وکیل شاہنواز خان کہتے ہیں کہ ’وہ اپنے کام سے کام رکھنے والے تھے اور پشاور ہائی کورٹ بار کی سیاست میں کبھی سرگرمی سے حصہ نہیں لیا، حالانکہ لوگ اسے ذاتی تعلقات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘
’اس کے بجائے وہ اپنے مقدمات کی تفصیل پر زیادہ توجہ مرکوز رکھتے تھے اور فیس کے لیے ہر طرح کا مقدمہ پکڑنے والے بہت سے دوسرے وکلا کے برعکس غیر اہم مقدمات لینے سے انکار کر دیتے تھے۔‘
جسٹس سیٹھ ایک ایسے وکیل کے طور پر جانے جاتے ہیں جو اگر کسی کو مستحق سمجھتے تو فیس معاف کر دیتے تھے۔
فیصلوں کے لیے ان میں قانونی ’مو شگافی‘ کا رجحان پایا جاتا تھا۔
بین الاقوامی عدالت انصاف یا انٹرنیشل کورٹ آف جسٹس نے پاکستان میں فوجی عدالتوں کے بارے میں جنوری 2019 میں جاری کیے گئے اپنے بریفنگ پیپر میں اس کا اعتراف کیا تھا کہ فوجی عدالتوں سے سزا پانے والوں کی اپیلیں 2016 میں جب سپریم کورٹ پہنچیں تو انھیں عدالتی دائرۂ اختیار سے باہر قرار دے کر مسترد کر دیا گیا، مگر جب وہ ہی اپیل کنندگان 2018 میں جسٹس سیٹھ کی ہائی کورٹ میں پہنچے تو نتیجہ مختلف نکلا۔
بہت سوں کو خیال گزرا تھا کہ وہ اسامہ بن لادن کو ڈھونڈنے میں امریکہ کی مدد کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کا حکم دے کر اسٹیبلشمنٹ کی چولیں ہلا دیں گے۔
2011 میں پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں ایک امریکی چھاپے کے دوران اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی وجہ سے پاکستان کو زبردست شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا، اور بہت سوں کا خیال ہے کہ ڈاکٹر آفریدی کو، جن پر بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا ہے، قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے۔
اس سلسلے میں ڈاکٹر آفریدی پر کبھی باضابطہ فرد جرم عائد نہیں کی گئی ہے، البتہ دوسرے الزامات میں سزا دی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انھیں منصفانہ سماعت کا موقع نہیں دیا گیا ہے۔
صحافی وسیم احمد شاہ کا کہنا ہے کہ ’جسٹس سیٹھ کے چلے جانے کے بعد ان کی رہائی کی امید کم ہی ہے، تاوقتکہ ذاتی مفاد کی بجائے اپنے منصب سے عشق کرنے والا کوئی دوسرا جج ان کی جگہ نہ لے لے۔‘
’عام سے انسان‘
کئی لوگوں کا خیال تھا کہ جسٹس سیٹھ کے فیصلے ان کے لیے خطرہ پیدا کر سکتے ہیں، یہ کس نے سوچا تھا کہ کورونا وائرس ان کی جان لے لے گا۔
مشرف کے مقدمۂ بغاوت میں ان کے فیصلے کے بعد مقتدر حلقوں کی سرپرستی والے عناصر نے ان کے خلاف نفرت انگیز مہم شروع کر دی تھی۔
ایڈووکیٹ شاہنواز کہتے ہیں کہ ’اعلی سکیورٹی انتظامات کو، جن کی بہت سے حکام تمنا رکھتے ہیں، بالائے طاق رکھنے کی ان کی عادت کی وجہ سے ہمیں ڈر لگا رہتا تھا کہ وہ خود کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
’کام پر جانے اور واپس آنے کے لیے وہ ہمیشہ ذاتی گاڑی استعمال کرتے تھے، اور اکثر اپنے اہل خانہ کے ساتھ بازار میں خریداری کرتے، یا کسی چائے خانے میں دوستوں کے ساتھ چائے کی چسکیاں لیتے نظر آتے تھے، بالکل عام انسان کی طرح۔‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ :بی بی سی اردوڈاٹ کام
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر