اسلم ملک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کی مقبول ترین لوک گلوکارہ ریشماں کی برسی بیس روز قبل 3نومبر کو گزر گئی۔وہ اپنے مداحوں کے حلقے میں بلبل صحرا کے نام سے معروف تھیں ۔
ریشماں مئی 1947ء کے لگ بھگ بھارت کی ریاست راجستھان کے گائوں لوہاتحصیل رتن گڑھ ضلع چرو میں پیدا ہوئی تھیں ۔ان کا تعلق ایک خانہ بدوش خاندان سے تھا جس نے اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا تھا۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد یہ خاندان پاکستان منتقل ہوگیا۔
نگری نگری گھوم کر گڑوی بجانے والی ریشماں کو عوام سے متعارف کرانے کا سہرا اسی شخص کے سر بندھتا ہے جس نے مہدی حسن جیسے نابغۂ روزگار گائیک کو متعارف کرایا تھا یعنی معروف براڈ کاسٹر سلیم گیلانی جو ریڈیو پاکستان میں موسیقی کے پروگرام پروڈیوسر تھے اور بعد میں ڈائریکٹر جنرل کے عہدے تک پہنچے۔سلیم گیلانی نے گڑوی بجانے والی اُس خانہ بدوش لڑکی کی آواز کراچی کی ایک گلی میں اتفاقاً سنی تھی۔
لڑکی تو آڈیشن دے کر چلی گئی لیکن جب اس کی ریکارڈنگ موسیقی کے اصل پارکھوں تک پہنچی تو ہر طرف سے واہ واہ کے نعرے گونجنے لگے۔اب اس گم شدہ ہیرے کی تلاش شروع ہوئی۔ خانہ بدوشوں کے ہر ڈیرے پر اس کی ڈھنڈیا پٹی لیکن اس گوہرِ نایاب کا کہیں پتہ نہ چلا۔ ڈیڑھ برس بعد سیہون شریف کے میلے پر سلیم گیلانی کو وہ لڑکی ایک بار پھر گڑوی بجاتی ہوئی نظر آگئی، لیکن اس بار انھوں نے اس ذرِ نایاب کو ہاتھ سے جانے نہ دیا اور اسے فورا‘‘ ریڈیو پاکستان کراچی مدعو کرکے اس کی آواز میں نغمے نشر کرنا شروع کردئیے۔ ۔ اب ریشماں کے لائیو پروگرام نشر ہونے لگے اور ریکارڈ شدہ گانے بھی گلی گلی سنُے جانے لگے۔
دھیرے دھیرے ریشماں پاکستان کی مقبول ترین فوک سنگر بن گئیں ۔ اس کی آواز میں صحرا کی وسعت تھی، جنگل کا درد تھا، دریا کی روانی تھی اور قدیم معبدوں کی گونج تھی۔
۔1960 کی دہائی میں پاکستان ٹیلی وژن کی بنیاد رکھی گئی تو ریشمان نے ٹی وی کے لیے بھی گانا شروع کر دیا۔ انہوں نے پاکستانی فلموں کے لیے بھی متعدد گیت گائے۔ ان کی آواز سرحد پار بھی سنی جانے لگی۔
معروف بھارتی ہدایت کار سبھاش گھئی نے ان کی آواز اپنی ایک فلم میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔ یوں ریشماں نے ان کی فلم ’ہیرو‘ کے لیے ’لمبی جدائی‘ گایا جو آج بھی سرحد کے دونوں جانب انتہائی مقبول ہے۔
ریشماں کے کچھ دیگر مقبول گیتوں میں’سُن چرخے دی مِٹھی مِٹھی کُوک ماہیا مینوں یاد آؤندا‘، ’وے میں چوری چوری‘، ’دما دم مست قلندر‘، ’انکھیاں نوں رین دے انکھیاں دے کول کول‘ اور ’ہائے ربا نیئوں لگدا دِل میرا‘ شامل ہیں۔
ریشماں کی آواز کے پرستار دنیا بھر میں موجود تھے ۔ ریشماں نے ہر اُس ملک کا دورہ کیا جہاں برِصغیر کے لوگ آباد تھے۔انہوں نے اردو، سندھی، سرائیکی، پنجابی، پشتو اور راجستھانی زبان کے علاوہ فارسی، ترکی اور عربی زبان میں بھی کئی بار صوفیانہ کلام پڑھا ۔انہیں پاکستان میں متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا۔جن میں صدارتی ایوارڈ برائے حسنِ کارکردگی ، ستارہ امیتاز اور ’لیجنڈز آف پاکستان کے اعزازات سرفہرست تھے۔
تین نومبر 2013 ء کو لمبی جدائی کی بات کرنے والی ریشماں اپنے مداحوں سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو گئی ۔
[عقیل عباس جعفری سے استفادہ]
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ