نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کوئی ہے؟۔۔۔سہیل وڑائچ

سب کونظر آ رہا ہے کہ پی ڈی ایم کے جلسوں کا نیا اور خطرناک دور شروع ہو گیا ہے جس کے بعد اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا مرحلہ ہوگا،

سہیل وڑائچ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا، کوئی ہے جو سامنے نظر آنے والے تصادم کو روک سکے؟ کیا، کوئی ہے جو پھر سے بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی کو ختم کر سکے؟ کیا، کوئی ہے جو ملک کو سیاسی اور پھر معاشی عدم استحکام کی طرف جانے سے روک سکے؟ کیا، کوئی ہے جو حکومت کو مفاہمت اختیار کرنے پر مجبور کر سکے؟ کیا، کوئی ہے جو اپوزیشن کو لانگ مارچ کے انتہائی اقدام سے روک سکے؟ کیا، کوئی ہے جو مہنگائی کے عذاب میں مبتلا عوام کو ہمدردی کے دو بول سنا سکے؟ کیا، کوئی ہے جو کورونا کے خوفناک موسم میں حکومت اور اپوزیشن کو کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد کروانے پر مجبور کر سکے؟

افسوس یہ ہے کہ اِس ملک میں کوئی بھی ایسا تیسرا فریق نہیں جو آمادۂ جنگ فریقین کے درمیان مفاہمت کروا سکے۔ افسوس یہ ہے کہ اِس ملک میں کوئی ایک بھی جمہوری بڑا نہیں جو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پڑ کر درمیانی راستہ نکال سکے۔ افسوس تو یہ ہے کہ اِس ملک کا کوئی بھی آئینی یا جمہوری ادارہ ایسا نہیں جو بیچ تصادم میں کود کر فریقین کو روک سکے۔ افسوس تو یہ بھی ہے، سامنے نظر آ رہا ہے کہ سیاسی جنگ ہونے والی ہے، کوئی ادارہ، بڑا یا چھوٹا ٹس سے مَس نہیں ہو رہا، کیا جب تصادم کی آگ بھڑک اٹھے گی تب سب کی نیند کھلے گی؟

سب کونظر آ رہا ہے کہ پی ڈی ایم کے جلسوں کا نیا اور خطرناک دور شروع ہو گیا ہے جس کے بعد اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا مرحلہ ہوگا، ظاہر ہے کہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ سے پہلے پہلے تیسرے فریق کو متحرک ہو جانا چاہئے تاکہ لانگ مارچ جیسا خطرناک کام ہونے سے پہلے ہی روک دیا جائے۔ حکومت اگر اپنی طاقت اور انتظامی ہتھکنڈوں سے روکنے کی کوشش کرتی ہے تو اِس سے پورے ملک میں پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہوگا اور اگر فری ہینڈ دے دیتی ہے (جس کا امکان بہت کم ہے) تو دارالحکومت اسلام آباد میں امن و امان کا شدید مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔ حکومت کیلئے تو تحریکِ لبیک کا لانگ مارچ روکنا مشکل ہو گیا تھا۔ 11سیاسی جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کا دھرنا تو اور بھی بھاری ہوگا۔

اگر کسی نے ملک کے نظام کو بچانا ہے، جمہوریت کو قائم رکھنا ہے، موجودہ حکومت کے مینڈیٹ کو چلانا ہے، اپوزیشن کے مطالبات کو اہمیت دینی ہے، ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام کو برقرار رکھنا ہے تو پھر یہی وہ وقت ہے جس میں کوئی کردار ادا کیا جاناچاہئے۔ اِس وقت زمینی صورتحال یہ ہے کہ حکومت اپوزیشن کو اگلے انتخابات کے لئے اصلاحات کی پیشکش کر رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بہ نفسِ نفیس یہ بیان دیا ہے کہ وہ انتخابی اصلاحات کے لئے تیار ہیں لیکن وزیراعظم کی یہ پیشکش ایک طرح سے اپوزیشن کا منہ چڑانے کے مترادف ہے کیونکہ جب بھی بامعنی مذاکرات کا ڈول ڈالا جاتا ہے، اُس کے لئے سازگار ماحول بنایا جاتا ہے، اعتماد سازی کے لئے اقدامات کئے جاتے ہیں، درمیان میں لوگ ڈالے جاتے ہیں جو فریقین سے مذاکرات کرکے قابلِ عمل اور اتفاقِ رائے والا حل نکالتے ہیں۔ وزیراعظم نے ایسا کچھ نہیں کیا بس خالی مذاکرات کی دعوت دی، جسے ظاہر ہے اپوزیشن نے فوراًمسترد کر دیا۔

مجموعی صورتحال یہ ہے کہ موجودہ سیٹ اپ کا ہیولا کچھ اِس طرح سے بن کے نکلا ہے کہ اگر اِس میں سے ایک اینٹ نکالتے ہیں تو سارا نظام گرنے لگے گا۔ اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ ریاستی اداروں کی طرف سے وزیراعلیٰ بزکش کی کارکردگی پر اعتراضات اُٹھا کر انہیں رخصت کرنے کو کہا گیامگر بڑے خان صاحب نے یہ بات ماننے سے انکار کر دیا۔ شنید یہ ہے کہ کابینہ کے اندر ردوبدل اور گورننس کے بارے میں اہم مشوروں کو بھی مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ریاستی اداروں کو خدشہ ہے کہ موجودہ سیٹ اپ کے ہیولے کو ہلکا سا دھچکا بھی لگا تو نظام کا چلنا مشکل ہو جائے گا تاہم افواہیں بھی زوروں پر ہیں کہ مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف کے درمیان اختلافات پھر سے بڑھ گئے ہیں۔ ن لیگ چاہتی ہے کہ وہ مریم نواز کو چودھری شجاعت کی عیادت کے لئے بھیج کر حکمران اتحاد میں اختلافات کی خلیج کو وسیع کرے اور اپنی طرف سے خیر سگالی کا عندیہ دے، دوسری طرف ق لیگ بہت محتاط ہے کیونکہ چودھری پرویز الٰہی کسی واضح سگنل کے بغیر کوئی بڑا قدم نہیں اٹھائیں گے، انہیں ماضی میں کئی تلخ تجربات ہو چکے ہیں۔ جب اُنہوں نے آدھے پیغام کو پورا سگنل جانا اور بعد میں وہ معاملہ الٹ گیا۔ دوسری طرف سب غیرسیاسی لوگ بڑے خان صاحب کے ردِعمل سے بھی خوفزدہ رہتے ہیں۔ پنجاب میں بڑے خان صاحب کی مرضی کے خلاف چھیڑ چھاڑ ہوئی تو خان صاحب لازماً جوابی ردِعمل کا اظہار کریں گے۔ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ پنجاب میں تبدیلی لاتے لاتے پورا نظام دھڑام سے نیچے گر جائے۔ سب تبدیلی کے خواہاں ضرور ہیں مگر یہ نہیں چاہتے کہ اِس کے نتیجے میں پورے سیاسی ہیولے کو نقصان پہنچے۔

سیاست میں ٹائمنگ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ اپوزیشن نے اپنے جلسے، جلوسوں اور لانگ مارچ کی ٹائمنگ سیٹ کر رکھی ہے، اب سوال یہ ہے کہ کیا حکومت نے جوابی حکمت ِعملی تیار کی ہے؟ کیا کوئی لانگ ٹرم پلان ہے یا پھر ہر جلسے یا لانگ مارچ کے موقع پر صرف وقتی پالیسی بنائی جائے گی؟ ضرورت اِس امر کی ہے کہ لانگ مارچ سے پہلے پہلے اعتماد سازی کے اقدامات کرکے ملکی استحکام کو فروغ دیا جائے۔

آخر میں پوچھنا یہ تھا کہ کیا اِس ملک میں کوئی بھی ایسا شخص یا ادارہ نہیں جس کو تصادم کو روکنے کا خیال ہو؟ ہر کوئی اپنی حب الوطنی کا ڈھنڈورا تو بہت پیٹتا ہے مگر کوئی آگے آ کر اِس کشیدہ صورتحال کا تدارک کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتا؟ کیا کل جب تصادم ہو رہا ہوگا، ملک میں آگ لگی ہوگی، لانگ مارچ کے لئے قافلے اسلام آباد روانہ ہو رہے ہوں گے، جگہ جگہ پولیس اور حفاظتی دستے اُن قافلوں کو روک رہے ہوں گے، ملک میں سیاسی استحکام ختم ہو جائے گا، معاشی استحکام ختم ہونا شروع ہوگا تو تب سب کو ہوش آئے گا؟ پھر اِس آگ کو بجھانا، معاشی گراوٹ کو روکنا، کشیدگی کو ختم کرانا اور لڑائی کو صلح میں بدلنا مشکل ہوتا جائے گا۔ ابھی وقت ہے کہ متعلقہ اشخاص اور ادارے صورتحال کا فوری ادراک کرتے ہوئے مذاکرات کا راستہ کھولیں۔ یاد رکھیں لانگ مارچ ہوا تو پھر اسمبلیوں سے استعفے بھی دور نہیں رہ جائیں گے اور یہ ہوگا تو حکومت چلنا مشکل ہو جائے گی، اور پھر صرف حکومت ہی مشکل میں نہیں ہوگی پورا پاکستان بھی مشکل میں ہوگا۔

About The Author