رفعت عباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرائیکی ایریا اسٹڈی سینٹر میں سئیں رفعت عباس کو دئیے گئے سرائیکی ادبی ایوارڈ کی تقریب میں سئیں رفعت عباس کی طرف سے پڑھی گئی تاریخی تحریر قومی تحریکوں اور ادب سے جڑے ہر انسان کیلیے ایک اثاثہ ہے۔ ان کا آفاقی نظریہ انسانیت قومی تحریکوں سے منسلک جہد کاروں کیلیے مشعل راہ ہے۔
(سرائیکی تحریر کا اردو ترجمہ ۔رؤف قیصرانی )
اس ایوارڈ کیلیے سرائیکی ایریا سٹڈی سینٹر(بی زیڈ یو) اور تنظیم پارت کا شکر گزار ہوں۔ یہ ایوارڈ میری اپنی زبان اور دھرتی سے پھوٹا ہے۔ یہ ان لوگوں کی کی طرف سے پذیرائی ہے، جن کیلیے میں نے لکھا اور آواز اٹھائی۔
میں سمجھتا ہوں کہ زندگی میں شاعری ہر انسان کے قرب سے گزرتی ہے یا پھر ہر انسان کبھی نا کبھی شاعری کے نزدیک آ جاتا ہے۔ آج سے بہت پہلے پانچ، سات سال کی عمر میں، میں پہلی دفعہ شاعری سے روشناس ہوا۔ یہ دریائے چناب کے اترتے کنارے پر واقع ایک ریلوے اسٹیشن، چناب ویسٹ بینک کے ایک ریلوے ڈاک بنگلے میں پٹونیا البا کے پھول پر ایک زرد ٹراپیکل پوپٹ (تتلی) کی شکل میں بیٹھی تھی۔ میرا باپ ریلوے ملازم تھا اور اسی ڈاک بنگلے کے ساتھ ہمارا گھر تھا۔ دوسری بار یہ میرے گھر کے سامنے پیپل کے تازہ گلابی پتوں میں نظر آئی۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ شاعری اور میرا بچپن ایک ساتھ گزرا پر یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ہماری جوانی ایک ساتھ گزری اور اب بڑھاپا بھی اکٹھے گزر رہا ہے۔
اس ساٹھ سال سے چڑھتی عمر میں ہم دونوں مل کر کسی کیفے میں کافی پی سکتے ہیں، کسی دوست کو ملنے کسی گلی میں جا سکتے ہیں، نئے موسم میں کپڑوں کے رنگ پر متفق ہو سکتے ہیں، ملتان سے کارونجھر تک پندرہ سو کلومیٹر کا طویل سفر کر سکتے ہیں، نئی جگہوں کی سیر کر سکتے اور نئے دوست بنا سکتے ہیں۔ بارش بنا کے بارش کی لاریاں غیر برساتی شہروں تک بھجوا سکتے ہیں۔
اس شاعری نے پہلے پہلے میرے لیے اس وطن کے مشترک خواب اور اجتماعی خود کلامی کا در وا کیا۔ ہم دونوں ملتان کی گلیوں میں گھومتے اور بیت بنائے۔ آج یہ شاعری میرے لیے اس قدیمی شہر سے پورے جہان سے کلام کرنے کا وقت ہے۔ آج یہ شاعری میرے لیے اپنی دھرتی سے کل عالم کے ساتھ مکالمے کی جگہ ہے۔ تمام قوموں کی تکریم ہے۔ حملہ آوروں کی قبروں پر چڑھانے کیلیے بھی پھول ہیں کیونکہ وہ ہماری دھرتی میں سوئے ہوئے ہیں۔
قومیں اپنے(شناختی/تحریکی) سفر میں بہت کٹھن وقت سے گزرتی ہیں۔ ایک وقت آتا ہے کہ جیتی جاگتی دھرتی اپنی تنہائی، مونجھ(افسردگی) اور رومان کے پاتال میں جا گرتی ہیں۔ قومیں اپنی تاریخ، تہذیب اور قدامت کو رومینٹیسائز کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ اپنے شہروں اور دریاوں کے سامنے دنیا کے شہر اور دریا کم مایہ محسوس ہوتے ہیں۔ اپنے مور کے سامنے قطب جنوبی کا پینگوئن پرایا لگتا ہے۔ اپنے دکھ کے مقابل افریقہ کے لوگوں کی غلامی اور دکھ دور افتادہ محسوس ہوتے ہیں۔ میرے لیے شاعری اس پاتال سے نکلنے کا راستہ ہے۔ اپنی دھرتی کے ساتھ مل کر ہمسایہ اور دور بستی اقوام کو دیکھنے کی نئی دید ہے۔ مجھے پبلو نرودا، لورکا، ناظم حمکت یا محمود درویش کی شاعری اور دھرتی بھی ایسے ہی پیاری لگتی ہیں جیسے سرائیکی شاعر اور سرائیکی دھرتی۔میرے لیے شاہ لطیف،رحمان بابا،شاہ حسین،سچل سرمست،جام درک اور مست توکلی اتنے ہی عظیم ہیں جتنے خواجہ فرید اور مولوی لطف علی۔
شاعر ہمیشہ جنگ روکنے اور روٹی (وسائل) کی منصفانہ تقسیم کیلیے آتا ہے۔ آج کی سرائیکی شاعری بھی تمام عالم کے لوگوں کے لیے محبت اور ان کی میز کیلیے تازہ ڈھوڈا(روٹی) ہے۔
رفعت عباس
18نومبر 2020
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور