گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک پرانا مقولہ ھے ۔۔پڑے پارس بیچے تیل دیکھو قسمت کے کھیل ۔۔ تیلی کولھو کا بیل چلاتے چلاتے بوڑھا ہو گیا جب وہاں ایک سیانا گیا تو کیا دیکھتا ھے کوھلو کا بیل جن کنکریوں پر چل رہا ھے وہ تو ھیرے ہیں جن کی مالیت لاکھوں کروڑوں روپے بنتی ھے۔پھر یہاں اس نے وہ بات کہی جو مقولہ بن گیا۔اور یہ بات پاکستان کے لوگوں پر مکمل فٹ آتی ھے۔ اب پوری کہانی سنیے۔جب میں سنگاپور اپنی ڈیوٹی کے سلسلے گیا تو مصطفے شاپنگ مال زبردست جگہ ھے جہاں ہر قسم کا سامان مل جاتا ھے جانے کے لئے ٹیکسی پر بیٹھا تو ٹیکسی والا فر فر انگلش بول رہا تھا میں نے پوچھا انگریزی تمھاری مادری زبان ھے تو اس نے بتایا انگریزی ہماری سرکاری زبان ھے مگر اکثر لوگ جانتے ہیں ۔ چینی اور ملایا زبان مقامی ہیں ۔خیر یہ ٹیکسی ڈرائیور تو اتنا کمال کا تھا کہ راستے میں ہی سنگاپور کا کلچر سمجھ آ گیا۔ سب سے پہلے کہنے لگا سر جی اگر آپ سگریٹ پیتے ہیں تو باھر کوئی ٹوٹا نہیں پھینکنا فوراً جرمانہ ھو جائیگا۔۔ ۔۔۔ہیں ۔۔میں نے کہا میں سموکر تو نہیں مگر یار یہ تو بڑے سخت قوانین ہیں۔۔ ۔۔اس نے بتایا یہاں چیونگم بیچنے پر بھی پابندی ھے اور اگر چیونگم بیچتے کوئی پکڑا جاۓ تو ایک لاکھ ڈالر جرمانہ یا پھر دو سال قید ۔ آپ کھلے عام روڈ پر کوئی میوزک بجانا شروع کریں تو ایک ھزار ڈالر جرمانہ ۔واہ میں نے پوچھا اور؟ اگر آپ پتنگ اڑا رھے ھوں اور ٹریفک میں خلل پڑے تو 5000 ڈالر ٹُھک گئے ۔۔اگر پبلک میں آپ گانا شروع کر دیں اور اسمیں فحش الفاظ ھوں تو تین ماہ جیل جانا ھوگا اور اگر فحاشی کی تشھیر کی تو بھی تین ماہ جیل ھوگی۔۔اگر آپ نے کافی شاپ۔مارکیٹ۔سکول۔روڈ۔تھیٹر میں تھوک دیا تو ایک ھزار ڈالر جرمانہ دینا ھو گا۔ اگر آپ نے کسی دوسرے شخص کی Wifi استعمال کر لی دس ھزار ڈالر دینا ھو گا۔آپ نے پبلک ٹائلٹ استعمال کیا اور فلش نہیں کیا 150 ڈالر جرمانہ ۔آپ پبلک میں یا پردوں کے بغیر گھر میں ننگ دھڑنگ پکڑے گئے تودو ھزار ڈالر یا تین ماہ قید۔ اور تو اور آپ کبوتروں یا پرندوں کو پبلک جگہوں پر دانہ بھی ڈالیں گے تو 500ڈالر جرمانہ ھو گا۔ پبلک جگہوں پر گند پھیلانا ۔دیواروں پر لکھنا۔لاپرواہی سے سڑک کراس کرنا سب کام کا جرمانہ ۔۔ملک میں باہر سے نشہ آور ڈرگ لانا سخت منع اور سزائیں ۔
چلو یہ تو یہاں کے قوانین ہیں مگر اتنا چھوٹا ملک جو صرف چھ میل چوڑا اور چودہ میل لمبا ھے اتنی ترقی کیسے کر گیا؟۔ میں کافی شاپ پر سوچتا رھا کہ پاکستان کے اکثر لیڈر سنگا پور کی تیز ترقی کا ماڈل پاکستان پر اپلائی کر نا چاھتے تھے۔مگر ایسا ھو نہیں سکا۔ سنگا پور ایک زبردست صاف وشفاف سبزے سے پُر چھوٹا سا جزیرہ ھے جس کی آبادی اس کی آزادی کے وقت 1965 میں دس لاکھ تھی جو اب 57 لاکھ ھے۔ پاکستان کے ساتھ سنگاپور کے سفارتی تعلقات 1968 میں ہی قائم ہو گئے تھے۔ سنگاپور کے لیڈر ۔۔۔Lee Kuan Yew نے لمبے عرصے تک وزیراعظم کی حیثیت سے سنگاپور کی خدمت کی اور 1990 میں جب اس نے وزارت عظمی چھوڑی تو سنگاپور کی فی کس آمدنی چار سو ڈالر سے بائیس ھزار فی کس ھو چکی تھی جو آجکل ساٹھ ھزار کو چھو رہی ھے۔ حیران کن بات یہ ھے کہ سنگاپور ساٹھ کے عشرے میں جب آذاد ہوا تو پاکستان صنعتی طور پر تیزی سے ترقی کرنے والا ملک تھا اور سنگاپور کے لی کوان نے ہم سے کچھ سیکھا۔ پاکستان کے پلاننگ کمیشن اور ائر لائن کے شعبوں میں کام کرنے والے افسروں سے سرکاری طور پر مدد حاصل کی تھی۔اور سچائی سے ترقیاتی اصولوں پر عمل کرتے ہوۓ تیس سالوں کے اندر سنگاپور دنیا کی بڑی معیشت بن گیا۔ پاکستان کے صدر ضیاءالحق ۔ وزرا اعظم نواز شریف۔ بے بینظیر بھٹو ۔ شوکت عزیز اور عمران خان بھی کئی دفعہ سنگا پور گئے اور وہاں کا ماڈل دیکھا۔ لی کوان بھی دو تین دفعہ پاکستان آۓ اور مشورے دیتے رھے مگر مشوروں سے تھوڑا قومیں ترقی کرتی ہیں جب تک سچائی سے عمل نہ کیا جاۓ اور عمل کرنے میں ہم بھت سست نکلے۔چلو چھوڑیں ہم نے تھوڑا ٹھیک ہونا ھے اب ہم سنگاپور کے ترقی کے عوامل پر نظر ڈالتے ہیں۔
پہلی چیز ایک اعلی وژنری ایماندار دوراندیش قیادت ھے جو ۔۔لی کوان ۔۔کی صورت میں لمبے عرصے تک سنگاپور کو دستیاب رھی۔ پاکستان قائداعظم کی قیادت سے اپنی پیدائش کے ایک سال کے اندر محروم ھو گیا تھا۔ دوسری اہم چیز قانون اور امن امان کی حکمرانی اور بہترین طرز حکومت اور گورننس ھے جس سے بہت بڑی فارن سرمایہ کاری سنگاپور آئی۔ تیسری اہم چیز پیشہ ورانہ تعلیم اور کاروبار کے سنہرے اصول ہیں ۔ جو زندگی کے اعلی معیار میں کام آتے ہیں۔ چوتھا کام سنگاپور نے یہ کیا کہ انسانی وسائل کو تیز تر ترقی دی۔ تعلیم کو فوقیت دیکر معاشرے میں عدم برداشت کو ختم کیا اور ملٹی کلچر کو سمو دیا۔وجہ یہ ھے کہ سنگاپور کے پاس قدرتی وسائل تو تھے نہیں سب کچھ ہیومین ریسورس کو ترقی دے کر کرنا تھا۔ ان چار فیکٹر کو سامنے رکھ کر سنگاپور کے ہر شھری کو بہترین رہائش۔سڑکیں ۔ٹرانسپورٹ۔امن ۔ سیکورٹی اور روزگار مہیا ھو گیا ۔ لیکن جیسا کہ شروع میں بتایا سنگاپور میں قوانین سخت اور حکومت کی رٹ مضبوط ھے۔
میڈیا مکمل سرکاری تحویل میں ھے۔کسی کے خلاف نفرت پھیلانے یا بدنام کرنے کے قوانین اتنے سخت ہیں بعض اوقات آزادی اظہار بھی متاثر ھوتی نظر آتی ھے۔لیکن ان سختیوں کے نتیجےمیں وہاں جو سکون اور استحکام ھے وہ کہیں نظر نہیں آتا۔ آزادی اظہار کی آڑ میں پاکستان میں جو کنفیوژن پیدا کیا گیا ھے وہ بھت افسوسناک ھے شام کو ٹی وی پر گالی گلوچ اور الزامات اور جوابی الزامات کی جو مچھلی مارکیٹ سجتی ھے یہ ملک کی سلامتی اور ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ھے کیونکہ اس سے انتشار اور بے یقینی کی صورت حال پیدا ہو رہی ھے۔ میں جب سنگاپور تھا تو مجھے لی کیوان کے پاکستان کے متعلق خیالات سننے کا موقع بھی ملا اس وقت وہ زندہ تھے وہ مارچ 2015 میں انتقال کر گئے۔ ان کا خیال تھا پاکستان ٹیلنٹڈ ۔ محنتی اور تعلیم یافتہ بھی ہیں لیکن انڈیا کے ساتھ نہ ختم ھونے والے جھگڑے نے انکے وسائل تباہ کر دیئے۔ مسلمانوں کے متعلق بھی وہ عجیب بات کرتے تھے وہ کہتے تھے جب شروع میں وہ وکالت کرتے تھے تو ہندو اور مسلمان دونوں انکے پاس مقدمے لے کر آتے تھے۔ میں مقدمے کی فائیل اور نوعیت کو سٹڈی کرتا اور مشورے دیتا۔میں اگر ہندو کو مشورہ دیتا کہ تمھارا کیس بھت کمزور ھے اس لئے تم فریق مخالف سے کسی طرح صلح صفائی کر کے کچھ حاصل کر لو ورنہ عدالت میں ہار جاو گے تو ہندو میری بات مان لیتے اور راضی نامہ کر کے کچھ پا لیتے۔۔۔مگر اگر کسی مسلمان کلانٹ کو میں یہی مشورہ دیتا تو وہ نہیں مانتے تھے اور مقدمہ لڑنے کی ضد کرتے۔۔۔۔ بہر حال ہم پاکستانی ھیروں کو چھوڑ کے تیل بیچتے رہیں گے اور کولھو چلاتے رہیں گے ۔۔ ایک دائرے کا احمقانہ سفر ھے جو ختم نہیں ھوتا۔۔۔ میں پچھلے بہتر سال سے چل رہا ہوں منزل نہیں ملتی۔۔۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ