گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیرہ اسمعیل خان کی ثقافت ھزاروں سال پروان چڑھتی رہی ۔ رحمان ڈھیری 23 سو سال پہلے ایک ترقی یافتہ شھر تھا۔ چھ سات سو سال پہلے موجودہ شھر سے چار پانچ کلومیٹر مشرق دریائے سندھ کے اندر جو اس وقت خشک زمین تھی ڈیرہ اسماعیل خان شھر کی بنیاد پڑی وہ بھی دو سو سال پہلے دریا برد ھو گیا تو نیا شھر موجودہ جگہ پر آباد ہوا۔
ثقافت کے رنگ تو لوگوں کے دلوں میں ھوتے ہیں پھر یہاں نیا سفر شروع ھوا ۔اس سفر میں مسلمان۔ہندو ۔سکھ ۔عیسائی سب برابر رنگ بھرتے رھے پھر 1947 میں پارٹیشن کا موڑ آگیا۔ چونکہ ڈیرہ پاکستان کا حصہ بن گیا اس لئے ہندوٶں کو گھربار چھوڑ کے بھارت جانا پڑا ۔
اب ڈیرہ وال ہندو اپنے مکانات ۔جائیدادیں ۔دکانیں اور اثاثے چھوڑ کر چلے تو گئے لیکن ڈیرہ کی ثقافت اور سرائیکی زبان تو کوئی نہیں چھین سکتا وہ ساتھ لے گئے۔پھر ہمیں پتا چلا کہ انہوں نے اپنے وطن ڈیرہ کی یاد میں اپنی ڈیرہ کی ثقافت کو ادھر بھی محفوظ رکھا۔
نیو دہلی بھارت میں باقائدہ ایک کالونی ڈیرہ وال نگر کے نام سے بسا لی ۔ چلو وطن کا نام ہر روز سن کر دل کو چین نصیب ھو گا۔ ڈیرہ وال نگر دہلی کے ڈیرہ وال ہندو زیادہ طور سروس کرتے ہیں اور کچھ کاروبار۔آپس میں سرائیکی زبان بولتے ہیں۔
کچھ ڈیرہ وال ہندووں کی چاندنی چوک دہلی میں خشک میوہ کی دکانیں ہیں۔ کچھ ڈیرہ کے لوگ اپنے بھاٹیہ نام کے ساتھ صورت انڈیا میں بڑے بڑے کاروبار اور ٹیکسٹائل فیکٹریوں کے مالک ہیں ڈیرہ اسماعیل خان کا بھاٹیہ بازار شاید ان ڈیرہ وال ہندووں کے نام سے ھے۔
ڈیرہ کی یاد میں شاعری۔ وہاں کے ہندووں نے نظمیں اور نثر میں ادب تخلیق کیا اور اب تک سرائیکی کلچر کو تھاما ھوا ھے ۔یہ تو ایک درد کی کہانی ھے جو پرانی نسل کی رگوں میں گھومتی رہتی ھے نئی نسل اس درد آشنا نہیں ۔
جاری ہے
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ