عفت حسن رضوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریلی نکالنا یا بڑے میدان میں جلسہ سجانا بھی کم مشکل نہیں لیکن شہر اقتدار کے بیچوں بیچ چوکڑی مار کر ہزاروں کارکنوں کے ساتھ کئی کئی ہفتوں پسر جانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔(اے ایف پی)
تحریک لبیک کے خادم رضوی ٹھیک فرما گئے ’یہ ملک کسی کے ابو کا نہیں جو تاریخ، وقت اور جگہ بتاکر دھرنا دیں گے۔‘ مرضی ان کی جب جہاں جیسے جی چاہے دھرنا دے بیٹھیں.
اجی سو بار بسم اللہ. ہر سال بعد دھرنا دینے کا یہ طریقہ اچھا ہے. پکنک کی پکنک دھرنے کا دھرنا. یہ بچوں نہیں بڑے بڑوں کی تفریح ہے. جن گھر بیٹھے فارغ اور بیروزگار مردوں کے پٹھے اکڑے جاتے ہیں انہیں سال کے سال دھوپ لگانے کا حسین بہانہ ہے۔
دھرنے کی اس ترکیب سے پولیس کے سست اہلکاروں کو تھوڑا چہل قدمی کا موقع اور زخمی اہلکاروں کو چھٹی پر جانے کی عیاشی نصیب ہوتی ہے، نیز فورس کو یہ بھی پتا چل جاتا ہے کہ سرکاری اسٹور میں رکھے آنسو گیس کے کتنے شیل اپنی مدت پوری کرچکے۔
اِدھر دھرنے والی جماعت کے کارکنوں کو آنسو گیس شیلنگ کی صورت میں بھاگنے اور پھینکا گیا شیل واپس پولیس کی جانب اچھالنے کی ورزش مزہ دیتی ہے۔
اگر تبدیلی کی تبدیلی چاہنے والوں کے دل میں مولانا خادم یا خاں صاحب جیسے کسی دھرنے کے ارمان کلبلا رہے ہیں تو اپوزیشن جماعتوں کی تحریک پی ڈی ایم کو بتانا یہ ہے کہ کہنا آسان ہے لیکن دینا وہ بھی دھرنا…. پریکٹس مانگتا ہے پریکٹس. بڑی تیاری لیتا ہے پھر کہیں جاکر ایک قابل رشک قسم کا دھرنا پڑتا ہے۔
جو جماعتیں عادی دھرنے باز ہیں ان سے پوچھیں وہ بڑی ریاضت کے بعد ہی میدان میں اپنے تنے ہوئے اعصاب اور پھولے ہوئے ڈولوں کا زور دکھانے اترتی ہیں۔
ریلی نکالنا یا بڑے میدان میں جلسہ سجانا بھی کم مشکل نہیں لیکن شہر اقتدار کے بیچوں بیچ چوکڑی مار کر ہزاروں کارکنوں کے ساتھ کئی کئی ہفتوں پسر جانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔
ملک کے چاروں کونوں سے آئے یا لائے گئے ہزاروں افراد کے کھانے پینے، کھیلنے کودنے، رفع حاجت، دفع مصیبت، سونے جاگنے اور اپنے قائد کی یاوہ گوئی پر مسلسل کئی روز مجبوراً واہ واہ کرنے کا نام بھی دھرنا دینا ہے۔
شہر کی مرکزی شاہراہ کی فاسٹ لین پر لیٹنا، سڑک کنارے لگے درخت کی شاخ پہ جھولنا، فارغ بیٹھے بیٹھے گرین بیلٹ کی گھاس نوچنا، پولیس کے لڑکوں کو پتھر مار کر بھاگ جانا اور سرکاری عمارتوں پر شلواریں لٹکانا دھرنے کی رونق اور دھرنے کے شرکاء کا رومانوی ایڈونچر ہوتا ہے۔
دھرنا دینے والی پارٹی کو شرکاء کی مشغولیت کے لیے ہلکی پھلکی شرارتوں کا اہتمام بھی کرنا پڑتا ہے. اس لیے دھرنے میں جیب کتروں اور لگا لُتروں سے پکڑم پکڑائی اور مذاکرات کے لئے آنے والوں سے چھپن چھپائی کا اہتمام کیا جاتا ہے. موبائل بیٹری چارج کرنے کے لیے جنریٹر اور دھرنے کے شرکاء کو چارج کرنے کے لیے ڈی جے کی خدمات بھی لینی پڑتی ہے۔
یاد رہے یہ چند گھنٹوں کا جلسہ نہیں کہ دو چار پارٹی ترانوں پر جھوم جھوم کر بانہیں لہرادیں، لندن سے ایک خطاب آگیا اور جلسہ کامیاب ہوگیا. یہاں بجلی کے بل جلانے پڑتے ہیں، گالم گلوچ کے ساتھ مکے بھی دکھانے پڑتے ہیں۔
پچھلے ڈھائی سال سے تو اپوزیشن استخارے نکال رہی ہے یہاں تک کہ اب گلگت بلتستان سے جی جلا کر نکلنے کو ہے، لیکن چلیں فرض کیے لیتے ہیں کہ اپوزیشن والے دھرنا ڈالنے کی ان شرائط کو پورا کربھی لیں تب بھی وہ غیبی امداد کہاں سے لائیں گے جو پچھلے تمام دھرنوں کو ملتی رہیں ؟
یہ کسی کنٹینر پر چڑھ گئے تو تفریح اور افراتفری کی شکل میں دھرنے کے فوری فوائد نظر آنے لگیں گے، ماحول بھی بن جائے گا لیکن کیا دھرنا کوئی دور رس سیاسی تبدیلی بھی دے گا، پی ڈی ایم کو اتنا بڑا سیاسی جوا کھیلنے سے قبل جیت کا یقین کون جوتشی دلائے گا؟
پہلے حکومت کا اجازت نہ دینا پھر خود ہی مان جانا، رکاوٹیں کھڑی کرنا پھر خود ہی ایک ایک کر کے راستے سے تمام رکاوٹیں ہٹ جانا، دھرنے والوں کا گرفتار ہونا پھر آن کے آن میں رہا ہوجانا، اپوزیشن بتائے کیا یہ والا جادو ہے ان کے پاس؟
نامعلوم مقام سے بریانی اور حلیم کی گرما گرم دیگیں آنا، اچانک کسی مال بردار گاڑی سے کینو مالٹے کی پیٹیاں اترنا، شرکاء میں مُٹھی بھر بھر کر چلغوزے و کھجوریں بٹنا، گرمی میں پنکھے، سردی میں کمبل ملنا… ان دیکھے ہاتھوں سے فیض یاب ہونے کا یہ اہتمام بھلا پی ڈی ایم کے بس کی بات ہے؟
کیا پی ڈی ایم یہ ہنر جانتی ہے کہ وہ ملک کے دارالحکومت کو تالا لگا کر، پارلیمنٹ کی عمارت پھلانگ کر، پی ٹی وی میں توڑ اور پولیس اہلکاروں کے سر اینٹوں سے پھوڑ کر بھی صاف بچ نکلے؟
اپوزیشن اور کچھ نہیں بس یہ ہی بتا دے کہ اگر وہ غلطی سے دھرنا دینے کی ہمت کربیٹھے تو کیا شرکا کو لفافے ملیں گے؟ اگر ہاں تو کتنے کتنے کے؟
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ