میر احمد کامران مگسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’میں مبارکباد پیش کرتا ہوں میر احمد کامران مگسی صاحب کو اس حوالے سے کہ آپ جس دھرتی پہ کھڑے ہیں یہ دھرتی ساٹھ ہزار سال پرانی ہے جس پر خانوادے بنتے بنتے بنتے بنے۔کتنے کتب خانے، کتنے ادراے، کتنے رائٹرز، کتنے مؤرخ ، کتنے میراثی، کتنے چمچے، کتنے کڑچھے ان کو بناتے بناتے گزر گئے۔ ان خاندانوں کو پینٹ کرتے کرتے یہاں کے مخدوموں کو، یہاں کے ایلیٹ طبقے کو، یہاں کے خوانین کو، یہاں کے سرادروں کو لیکن ان سب کے درمیان جو Legacy آپ کو نصیب ہوئی ہےاس کے حوالے سے میں کہوں گا فیض نے کہا تھا
بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غمگسار چلے
کامران آپ دیکھیں کہ آپ کس لیگیسی کو inherit کر رہے ہو، کس نام کو inherit کر رہے ہو؟ یہ جو لوگ آج یہاں جمع ہیں آپ کے والد کے نام پر آئے ہوئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایک نئی Dynasty پیدا کر رہے ہیں، ایک نئے خاندان کو جنم دے رہے ہیں اور وہ خاندان ہے علم کا ، حریت کا، بہادری کا، شجاعت کا۔ جس کے پیچھے کوئی غداری کی داستانیں نہیں ہیں۔کوئی محلاتی سازش نہیں ہے، کوئی لوٹ کھسوٹ نہیں ہے۔ وہ شخص جس کی تصویر سامنے لگی ہے وہ ایک ایسی ڈائنسٹی کو جنم دے گیا ہے جو یہاں کے لوگوں کی تاریخ ہے۔ اور یہ صدیوں بعد ہوتا ہے جب اتنے بڑے بڑے خاندانوں کے درمیان ایک نیا خاندا جنم لے رہا ہو۔ایک بہادروں کا خاندان، ایک غیرت مندوں کا خاندان جس کے دامن پر کوئی لالچ نہ ہو، کوئی ایسا داغ نہ ہو جو یہ ثابت کرے کہ ان کے پرکھوں نے کوئی غداری کی تھی۔جب میں پاکستان اور بالخصوص جنوبی پنجاب کے سیاسی منظر نامے پر دیکھتا ہوں تو میری تحقیق اور میری فائنڈنگز مجھے یہ بتاتی ہیں کہ یہاں کے فیوڈلز اور یہاں کی اشرافیہ یہ سارا کچھ باہر سے لیکر نہیں آئے ۔بلکہ یہ کچھ ہوا ہے !Over the history ، Over the period یہ کہیں ہینڈ شیکس ہوئی ہیں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ۔یہ کہیں Facilitation ہوئی ہے یہاں کی آزادی کی تحریکوں کے خلاف جس کے بدلے میں یہاں کی اشرافیہ پیدا ہوئی ہے۔ یہاں کچھ گیم ہوئی ہے جس کے بدلے میں یہاں کی فیوڈل ریس پیدا ہوئی ہے۔ اس بارے میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہےمگر یہ موقع نہیں ہے یہاں بات کرنے کا۔لہذا مجھے یہاں کی فیوڈل ایلیٹ پر کوئی فخر نہیں ہے۔ مجھے فخر ہے تو اس بات پر فخر ہے کامران کہ آپ اس بندے کی نمائندگی کرتے ہو جس پر آج یہاں کے لوگ فخر کرتے ہیں۔اور میں بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ کے والد نے ایک نئے نظریئے کو جنم دیا ہے۔وہ نظریہ جو مزاحمت کا نظریہ ہے، جوغریبوں کا نظریہ ہے، جو بہادروں کا نظریہ ہے اور وہ جو درویشوں فقیروں کا نظریہ ہے، انہوں نے اس نظریئے کی بنیاد ڈالی ہے ۔ اللہ کرے یہ نظریہ اسی طرح جاری و ساری رہے اور آپ مبارک باد کے مستحق ہیں کہ آپ اس نئے نظریئے کی وراثت کو لیکر بڑھ رہے ہیں:‘‘
یہ تھے ہمارے ہر دلعزیز حیدر عباس گردیزی کے وہ سحر انگیز الفاظ جو انہوں نے والد صاحب حضرت علامہ رحمت اللہ طارق ؒ کی برسی کے موقع پر کہے۔کس دریا دلی اور کس فیاضی سے انہوں نے ایک اہل علم کی شان میں اپنے جذبات کا اظہار کیا جس کی مثال پیش کرنا میرے لئے مشکل کام ہے۔حیدر عباس گردیزی کے ان الفاظ نے میرا منوں خون بڑھا دیا، میرے عزم اور حوصلے کو ایک نئی جہت عطا کی۔ آج حیدر ہم میں نہیں ہیں مگر ان کے یہ کہے گئے یہ الفاظ میرے لئے سند ِ امتیاز کا درجہ رکھتے ہیِں۔حیدر عباس گردیزی ہمارے شہر کا ایک ایسا استعارہ تھا جس نےعمر بھر اپنی کلاس سے بغاوت کرتے ہوئے یہاں کے محروم اور پسے ہوئے طبقات کے حقوق کی جنگ لڑی۔ وہ عبادت سمجھ کر یہ جنگ لڑا کرتے تھے۔ طبقاتی جدوجہد میں سرگرم نوجوانوں کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی ان کی زندگی کا ایک ایسا خواب تھا جس کی تعبیر پانےکیلئے وہ عمر بھر سرگرداں رہے۔وہ ہمارے شہر کا ایک ایسا معتبر حوالہ تھے جو صاحب مطالعہ بھی تھے اور صائب الرائے بھی تھے۔ حالاتِ حاضرہ پر ان کی گرفت کا یہ عالم تھا کہ ان کی وسیع لائبریری میں تاریخ ، لٹریچر، فلسفہ سمیت ہر موضوع پر کتب کا ایک شاندار اور نایاب ذخیرہ موجود تھا۔ ترقی پسند راہنما ڈاکٹر لال خان سے ان کے ذاتی اور گھریلو تعلقات تھے۔ وہ جب بھی ملتان آتے ان کا قیام حیدر عباس سئیں کے ہاں ہوتا۔ حیدر سئیں کے توسط سے مجھے بھی شرف رہا کہ دوستوں کی ان محفلوں میں اکثر شریک ہوتا رہتا اور میرے شعور کی بیداری میں ان محفلوں میں ہونے والی علمی ، ادبی اور فلسفیا نہ ڈیبیٹس کا بہت زیادہ عمل دخل ہے۔ حیدر سئیں کی شخصیت پر مارکس، اینگلز، لینن، ٹراٹسکی، سارتر، جارج برناڈ شا، جارج آرویل، اقبال احمد، حمزہ علوی، اروندھتی روئے اور ڈاکٹر لال خان جیسی ترقی پسند ہستیوں کے فلسفہ کا گہرا اثر تھا۔
وہ ملتان کی ترقی پسند سیاست اور طبقاتی جدو جہد کا ایک ایسا متحرک اور ہمہ جہت کردار تھے جو ہمیں ادب، ثقافت اور سیاست سمیت سماج کے ہر محاظ پر سرگرم نظر آتے تھے۔ ادب اور ثقافت میں دلچسپی اور سرپرستی کا یہ عالم تھا کہ ستمبر 2018 کی ایک شام مجھے حیدر سئیں کا فون آ گیا کہ کل تم بھابھی اور بچوں سمیت ملتان آرٹس کونسل میں مدعو ہو۔ دعوت نامے میرا ڈرائیور دے جائے گا۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے اپنی زندگی میں اتنی شاندار آڈئینس اور اتنی پر وقار پرفارمنس پہلے کبھی دیکھی ہو۔’’ لکھے جو خط تجھے ‘‘ ایک ایسی تھیریٹکل پرفارمنس تھی جس میں امرتا پرتیم، فیض، ساحر لدھیانوی ، جوش صفیہ اختر اور جاں نثار اختر کے لکھے گئے محبت ناموں کو انتہائی سحر بھرے ماحول میں ڈراماٹائز کیا گیا تھا۔ثانیہ سعید اور تاجدار زیدی کی جاندار اور پر وقار پرفارمنس کے سحر سے ایک عرصہ تک میں اور میری فیملی نہ نکل پائی۔ اس مسمرائزنگ اور کلاسیکل تقریب کی ساری فنڈنگ اور ڈیزائننگ حیدر عباس گردیزی سئیں کی مرہونِ منت تھی۔حیدر سئیں کی یہ خوبی تھی کہ اپنی کسی بھی سرگرمی کا فیڈ بیک ضرور لیا کرتے تھے۔ اگلے دن ہم نے فون پر خوب انجوائے کیا اس پروگرام کے حوالے۔ جب میں نے انہیں بتایا کہ صفیہ کے خطوط جانثار اختر کے نام میں نے میٹرک والے دور میں ہی پڑھ رکھا تھا۔ کیونکہ یہ کتاب میری والدہ کے زیر مطالعہ تھی۔ ضیا دور کی تاریکیوں کا یہ ثمر تھا کہ میرے والد صاحب مقدمات اور قید و بند کی صعبتوں سے بچ کر طویل عرصہ سے جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ ہمارے گھر میں بھی تنہائی، اداسی اور ابتلا کا راج تھا۔ ایسے میں یہ کتاب ہمیں اپنے جذبات کی ترجمان لگتی تھی۔یہ سن کر شاہ جی نے اپنے روایتی انداز میں مجھے خوب داد دی۔ تہذیب و شائستگی، روایتی ملتانی رکھ رکھاؤ اور وضع داری شاہ جی کی شخصیت کا خوبصورت پہلو تھا۔مخاطب کی تکریم اور حفظ مراتب کا خیال اور خوبصورت انداز تکلم ان کی شخصیت کو دوستوں کیلئے مقناطیست کا کام کرتی تھی۔ ان کی روایتی مہمان نوازی ان کا خاصا تھی۔
حیدر عباس گردیزی نے زندگی کی بہتر بہاریں دیکھی تھیں۔انہوں نےایف سی کالج لاہور سے گریجویشن کی تھی ۔ان کے گھر کا ماحول شروع سے ہی سیاسی تھا۔ پاکستان کی قد آور سیاسی شخصیات کا ان کی فیملی میں آنا جانا تھا۔ ان کے سسر سید قصور رضا گردیزی پاکستان کی ایک قد آور سیاسی شخصیت تھے۔ لیفٹ کی سیاست میں ان کی حیثیت ایک نیو کلیس کی سی تھی۔وہ مولانا بھاشانی کی پارٹی میں نائب صدر کے طور پر کام کرتے رہے۔ وہ میاں افتخار الدین کے ساتھ بھی کام کرتے رہے اس کے علاوہ نیشنل عوامی پارٹی کے جنرل سیکریٹڑی کے طور پر بھی انہوں نے بھرپور اور فعال کردار ادا کیا۔اسی طرح یہ سیاسی ماحول حیدر عباس گردیزی سئیں کو متاثر کئے بنا نہ رہ سکا۔ وہ بھی ایام جوانی سے ہی سیاست میں متحرک اور فعال رہے۔ نوجوانی میں سوشلسٹ پارٹی آف پاکستان، این اے پی اور میر بزنجو کی پی این پی میں کام کرتے رہے۔ ضیا دور میں انہوں نے آمریت کے خلاف جدوجہد کی۔ وہ ملتان میں ایم آر ڈی تحریک کے سرگرم رہنما تھے۔وہ اب مقرر شعلہ بیان بن چکے تھے۔ ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران انہوں نے ٹاؤن ہال ملتان میں ببانگ دہل ضیا کو غدار کہا جسکی پاداش میں انہیں مارشل لا آرڈیننس کے تحت گرفتا کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔ قید و بند کی صعوبتیں ان کے جذبہ حریت کو ماند نہ کر سکیں۔ وہ ضیا کوغدار اور ملک دشمن تصور کرتے تھے اور رہائی کے بدلے میں وہ اپنے اس مؤقف سے دسبردار نہ ہوئے۔اپنی مقررہ سزا پوری ہونے کے بعد انہوں نے لندن میں جلا وطنی اختیار کر لی یہاں ان کی ملاقات جلا وطن بے نظیر بھٹو سے ہوئی اور انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو سے خط و کتابت کی صورت میں اپنا رابطہ برقرار رکھا۔ 1990ء میں جس دن پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت برطرف ہوئی اسی دن انہوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان پیپلز پارٹی کے بنیادی انقلابی سوشلسٹ نظریات کی بنا پر کیا۔ وہ پیپلز پارٹی فیڈرل کونسل کے ممبر اور سٹڈی سرکل کے انچارج کے طور پر کام کرتے رہے۔
ویسے تو گردیزی فیملی سے ہمارے خاندان کا گذشتہ نسل سے ہی دوستانہ قائم تھا۔ حیدر سئیں کے والد سئیں حسن رضا گردیزی سے میرے والد اور ماموں جان سئیں امید ملتانی اور سئیں ڈاکٹر اسلم انصاری سے ایک علمی اور ادبی رشتہ استوار تھا۔ اکثر ہمارے گھر تشریف لایا کرتے تھے۔جدید سرائیکی شاعری کے بانی تصور کئے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ اردو اور فارسی شاعری میں بھی قادر الکلام تھے۔ان کی سرائیکی شاعری کا مجموعہ ’’ دھابے دھوڑے‘‘ بڑا عرصہ تک میری لائبریر ی کی زینت بنا رہا۔حیدر عباس گردیزی سے میرا پہلا انٹر ایکشن اس وقت ہوا جب محترمہ بے نظیر شہید نے نوجوانوں کو سیاست میں باقاعدہ فعال کردار ادا کرنے کیلئے پیپلز یوتھ آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی تو مجھےپیپلز یوتھ آرگنائزیشن ملتان شہر کا پہلا صدر بنایا گیا۔ 1986ء میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو طویل جلا وطنی کے بعد پاکستان آئیں اور پھر ملتان کا دورہ کیا تو محترمہ شہید کی میزبانی کا فریضہ جناب گردیزی صاحب نے ادا کیا۔ محترمہ کے میزبان کی حیثیت سے حیدر عباس گردیزی کا احترام مجھ پر واجب ہو چکا تھا۔ احترام کا یہ تعلق ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط تر ہوتا گیا۔ عشروں پر محیط اس تعلق کے دوران ملاقاتوں میں کبھی بہت زیادہ وقفہ آ جاتا اور کبھی لگاتار ملاقاتیں ہوتی رہتیں۔ مگر گذشتہ چند سالوں کے دوران دوستی کا یہ سلسلہ گہرا ہوتا چلا گیا۔ایک دن فون آ گیا کہ یار کامران میں تمہارے گھر آنا چاہتا ہوں ۔میں نے تمہارے ساتھ چائے پینی ہے اور تمہارے والد کی لائبریری کو بھی دئکھنا ہے۔ میرے ڈرائیور جنید کو راستہ سمجھا دو۔شاہ جی آئے اور ہم نے خوب دل کی باتیں کی۔ پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت کے حوالے سے ان کے تحفظات سے ۔ وہ اسے اسی سابقہ عوامی رنگ میں دیکھنے کے خواہاں تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ پیپلز پارٹی کو طبقاتی بنیادوں پر استوار کرنے کیلئے اسے ملتان کے چند مخصوص ڈیروں سے نکال کر دوبارہ گلی محلے اور تھڑوں کی پارٹی بنایا جائے۔ ہم تو صرف خواہش ہی کر سکتے تھے۔ کیونکہ پیپلز پارٹی اب اس طبقے کی پارٹی بن چکی تھی جس طبقے کے خلاف اسے قائم کیا گیا تھا۔ ملاقات میں تاخیر ہوتی تو ان کا شکوے بھرا فون آ جاتا کہتے یار مانا کہ تم سوشل میڈیا کے Stalwart بن چکے ہو مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوستوں کیلئے تمہارے پاس کوئی وقت ہی نہیں۔ 15 اکتوبر 2020 کو معروف قلمکار اور روزنامہ بدلتا زمانہ کے ایڈیٹر ایڈوٹوریل حیدر جاوید سید جب ملتان آئے تو ہم نے حیدر عباس گردیزی سے خصوصی ملاقات کا اہتمام کیا۔ یہ نشست غیر معمولی طول پکڑ گئی۔ ہم تینوں دوستوں نے اس ملاقات میں خوب ایک دوسرے سے دل کی باتیں کیں۔ حیدر عباس گردیزی نے بتایا کہ بلاول بھٹو زرداری انہیں پارٹی کی فکری بنیادوں پر پرداخت کیلئے مرکزی سطح پر ذمہ داری سونپنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ملتان کی تہذیب اور ملتان سے تعلق رکھنے والے رفتگان کی یاد میں ایک شاندار تقریب کا اہتمام کرنا چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں ہم نے بیٹھ کر کافی سارا ہوم ورک بھی کر لیا تھا۔ طے یہ پایا تھاکہ وسیب کے ان بے نوا ترقی پسند سیاسی کارکنوں، صحافیوں، ادیبوں اور شاعروں کو یاد کیا جائے جنہیں اہل ملتان بھول چکے مگر ان مرحومین نے اپنی زندگیاں سماجی مساوات اور قومی جمہوریت کے قیام کی جدوجہد پر نچھاور کیں ہمیں کیا معلوم تھا کہ ان سے ہماری یہ ملاقات آخری ملاقات ہو گی۔ اور یہ ان کا آخری سماجی رابطہ ثابت ہوا۔ چند دنوں بعد معلوم ہوا کہ انہیں کورونا ہو گیا۔ چاہنے کے باوجود ان سے رابطہ نہ ہو سکا۔ حیدر عباس گردیزی پیپلز پارٹی کی دانش کا ایک ایسا استعارہ تھے جن کا خلا پر کرنے کیلئے ایک عمر چاہیے۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ ان کی وفات سے پیدا ہونے والا خلا شاید ہی کبھی پر ہو سکے۔ملتان حقیقی معنوں میں فکری طور پر یتیم ہوچکا ہے۔
کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ