دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گلگت بلتستان الیکشن: اپوزیشن جماعتیں کیوں ہاریں؟۔۔۔محمد عامر خاکوانی

ایک ویب شو کے اینکر نے سوال اٹھایا گیا، گلگت بلتستان (GB)کے انتخابات میں پاکستانی اپوزیشن جماعتوں کو شکست کیوں ہوئی؟

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ایک ویب شو کے اینکر نے سوال اٹھایا گیا، گلگت بلتستان (GB)کے انتخابات میں پاکستانی اپوزیشن جماعتوں کو شکست کیوں ہوئی؟

میں نے جوابی سوال کیا، آپ کن اپوزیشن جماعتوں کی بات کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا، وہی اپوزیشن جو سیاسی اتحاد پی ڈی ایم کا حصہ ہے۔ اس پر عرض کیا کیونکہ اپوزیشن جماعتوں نے گلگت بلتستان کے انتخابات میں دانشمندی سے کام نہیں لیا، خودغرضی ان کی سیاسی فراست پر غالب آگئی ، بطور پی ڈی ایم اتحاد نہیں لڑا۔ نتیجہ سامنے ہے۔

سچ پوچھیں تو گلگت بلتستان میں دھاندلی کے گھسے پٹے الزامات لگانے کے بجائے اپوزیشن اپنا محاسبہ کرے۔ان سے غلطیاں سرزد ہوئیں جن کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ اپوزیشن جماعتیں متحد ہو کر اپنے مشترکہ امیدوارمیدان میں اتارتیں تو ممکن ہے نتائج مختلف ہوتے ۔بعض نشستوں پر مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی یا جے یوآئی کے امیدواروں کے مشترکہ ووٹ تحریک انصاف کے امیدوار سے زیادہ ہیں۔ ون آن ون مقابلہ ہوتا توشائد تحریک انصاف سب سے بڑی جماعت نہ بن پاتی۔ حیرت ہے پاکستان کے مختلف شہروں میں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے جلسے کرنے والی جماعتوں نے جی بی الیکشن میں اتحاد کیوں نہیں بنایا، چلو سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہی کر لیتے۔ پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعلیٰ مہدی شاہ اور مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعلیٰ حفیظ الرحمن اپنی نشستوں پر شکست کھا گئے۔ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی جاتی تو دونوںرکن اسمبلی ہوتے۔

انتخابی نتیجہ حسب توقع نکلا۔ مختلف عوامی سروے رپورٹو ں میں اندازہ لگایا گیاکہ تحریک انصاف پہلے نمبر پر جبکہ پیپلزپارٹی دوسرے اور ن لیگ تیسرے نمبر پر رہے گی۔ کم وبیش نتیجہ وہی نکلا، صرف ایک فرق کے ساتھ کہ دو سے چار آزاد امیدواروں کی جیت کا امکان تھا، ان کی تعداد بڑھ گئی۔

پیپلزپارٹی کے رہنما بلاول بھٹو نے کئی ہفتے گلگت بلتستان میں صرف کئے، بھرپور انتخابی مہم چلائی ۔ شائد وہ سمجھ رہے تھے کہ جی بی کے عوام پیپلزپارٹی کو لینڈ سلائیڈ فتح دلا دیں گے۔ بلاول وہاں کی سیاست کا اندازہ ہی نہیں کر پائے۔بلاول نے یہ نکتہ نظراندازکیا کہ آزاد کشمیر اور جی بی دونوں ایسی جگہیں ہیں جہاں انتخابات میں وفاق میں حکمران جماعت کو ایڈوانٹیج حاصل ہوتا ہے۔ لوگ سوچتے ہیں کہ مرکز سے زیادہ فنڈز کے حصول کے لئے اسی جماعت کو اقتدار میں لانا چاہیے، اپوزیشن جماعت جیت گئی تو سیاسی تلخی چلتی رہے گی اور علاقہ کو فوائد نہیں مل سکیں گے۔ پچھلے دونوں انتخابات میں یہ فیصلہ کن فیکٹر رہا۔ پیپلزپارٹی نے 2010ء سے 2015تک جی بی میں حکومت کی، مگر انتخابات میں انہیں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا اور بمشکل ایک آدھ نشست ملی۔ اس کی ایک وجہ خیر ان کی صوبائی حکومت کی بیڈ گورننس بھی تھی۔مسلم لیگ ن کو مرکز میں حکومت کا بھرپور فائدہ ملا اور حفیظ الرحمن صاحب بھاری اکثریت سے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔

بلاول بھٹو زرداری کوسب سے بڑا نقصان سندھ حکومت میں پیپلزپارٹی کی بدترین کارکردگی کا رہا۔ یہ حقیقت ہے کہ جس کسی نے پچھلے پانچ سات برسوں میں کراچی کا چکر لگایا، وہ وہاں انفراسٹرکچر کی تباہی اور گندگی کے ڈھیر دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔ سندھ حکومت کی مایوس کن کارکردگی پیپلزپارٹی کو پنجاب اور کے پی میں آگے نہیں بڑھنے دے رہی۔ سندھ میں جیت مل جاتی ہے کہ زرداری ڈاکٹرائن کے مطابق صوبے کے تمام الیکٹ ایبلز پیپلزپارٹی میں شامل ہیں۔ پیپلزپارٹی کے مقابل کوئی مضبوط سیاسی جماعت نہیں۔ ن لیگ نے سندھ کو دانستہ پیپلزپارٹی کے لئے کھلا چھوڑدیا، یہی کام تحریک انصاف نے اپنی ناتجربہ کاری اور عاقبت نااندیشی کے تحت کر رکھا ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی صوبائی حکومت بنا لیتی ہے۔ دوسرے کسی صوبے میں جب بلاول بھٹو دھواں دھار تقریر فرماتے ہیں تو ان کے لفظوں میں تاثیر نہیں ہوتی۔مقامی لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ جو پارٹی اپنے آبائی صوبے میں کچھ نہیں کرسکی، اس کے امیدوار ہمارے لئے کیا کریں گے؟زرداری صاحب نے شائد سیاسی تجربہ حاصل کرنے کے لئے بلاول کو گلگت بلتستان بھیجا اور ہر چھوٹی بڑی جگہ جلسہ کرنے کا کہا۔ بلاول کو یقینا اس سے کچھ سیکھنے کو ملا ہوگا۔البتہ پہلے ہی سیاسی امتحان میں ناکامی کا داغ جھیلنا پڑا۔

مسلم لیگ ن کے لئے یہ الیکشن شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگیا تھا۔ ن لیگ نے جس طرح سے سخت اینٹی اسٹیبلشمنٹ رویہ اپنایا ہے، اس کے بعد جی بی میں پارٹی کے اکثر مضبوط امیدواروں نے اسے چھوڑ دیا۔ویسے بھی الیکشن جیت کر کون اپوزیشن کا حصہ بننا چاہتا ہے؟ان کے اہم امیدوار ٹکٹ لینے سے انکاری ہو کر تحریک انصاف کی طرف چلے گئے۔ ن لیگ کی کارکردگی توقع کے عین مطابق رہی ۔ اندازہ یہی تھا کہ ایک آدھ سیٹ ہی ہاتھ آئے گی، وہ انہیں مل گئی۔ مریم نواز نے جی بی الیکشن میں خاصی محنت کی اور اپنی مخصوص تقریریں وہاں دہرائیں۔ گلگتی بلتی عوام پر یہ لفظ بے اثر ثابت ہوئے۔

مریم نواز اور ن لیگ کی جانب سے دھاندلی کے الزامات مایوس کن ہیں۔ الیکشن سب کے سامنے ہے،ایک نہیں کئی سروے رپورٹیں آئیں، ہر ایک میں یہی پیش گوئی تھی، جو درست نکلی۔ بے بنیاد الزامات لگانے سے بات کا وزن کم ہوجاتا ہے۔ن لیگی رہنمائوں کے بیانات دلچسپ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت نے وسائل خرچ کئے، وفاقی وزیروں نے جوڑ توڑ کئے، لوگوں کو لالچ دے کر ساتھ ملایا، امیدوار دستبردار کرائے، اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی اور جی بی کے عوام کے حقوق پر ڈاکا ڈالا گیا۔ ان دو الزامات کے ساتھ احسن اقبال نے بالکل ہی مختلف بات کہہ دی، فرماتے ہیں کہ تحریک انصاف کے امیدواروں کے مقابلے میں آزاد امیدوار جیتے ، ان کی کامیابی کا مطلب ہے کہ عوام نے پی ٹی آئی کو مسترد کر دیا۔

ن لیگ کا بیانیہ سن کر ملا نصیر الدین کا مشہور لطیفہ یاد آیا۔انہوں نے پڑوسی سے پلیٹ ادھار لی، خیال نہ رکھ پائے، ٹوٹ گئی تو فوراً واپس کر دی۔ پڑوسی نے شکایت کی تو ملا نے فرمایا پہلی بات ہے کہ میں نے پلیٹ لی ہی نہیں۔ویسے پلیٹ تو میں نے واپس کر دی تھی اور ہاں یہ پلیٹ تو پہلے سے ٹوٹی ہوئی تھی۔مسلم لیگ ن کا بھی کچھ ایسا ہی موقف ہے۔ اللہ کے بندووفاقی حکومت نے اگر امیدوار جوڑتوڑ سے ساتھ ملا لئے تو آزاد امیدوار ملانا کون سا مشکل کام ہوتا ہے؟دھاندلی کی گئی اکثریت تک نہ لے سکے، یہ کیسی دھاندلی ہے ؟آزاد امیدوار پی ٹی آئی کے مقابلے میں جیتے تو یہ بات دھاندلی نہ ہونے کی دلیل ہے یا دھاندلی کا ثبوت؟

جے یوآئی کی کارکردگی خاصی مایوس کن رہی۔ دیامیرتقریباً سو فی صد سنی جبکہ استور سنی اکثریتی علاقہ ہے، یہاں پر جے یوآئی کی پاکٹس ہیں، ایک آدھ سیٹ وہ نکال سکتے تھے۔ ٹکٹوں کی تقسیم غلط ہوئی۔ مولانا فضل الرحمن اپنے جلسوں میں الجھے رہے اور جی بی کی طرف توجہ نہ دی۔ بعد میں انہوں نے وہاں جانا چاہا تو مشورہ ملا کہ اب جانے کا فائدہ نہیں، الیکشن تو مکمل طور پر ہاتھ سے نکل گیا۔ مولانا نے پچھلے الیکشن میں ڈیرہ اسماعیل خان کی آبائی نشست اسی لاپروائی کے باعث گنوائی ، اس کا غصہ آج تک نہیں جا رہا۔

اس بار تحریک انصاف کودوسرے فیکٹرز کے ساتھ مرکز میں حکمران ہونے کا ایڈوانٹیج حاصل رہا۔ اپوزیشن کے منتشر ہونے سے ان کے ووٹ تقسیم ہوگئے۔انہیں تگڑے امیدوار ملے، مگر بعض جگہوں پر ٹکٹیں غلط دی گئیں۔ جیسے نگر کی ایک سیٹ پر اپنے پرانے ساتھی جاوید منوہ کو ٹکٹ نہیں دیا، اس سیٹ پر پی ٹی آئی نے مجلس وحدت المسلمین سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی تھی۔ جاوید صاحب آزاد کھڑے ہو کر جیت گئے۔ دو تین دیگر حلقوں میں بھی ایسا ہوا۔ آزاد امیدواروں میں ایک آدھ نشست قوم پرستوں کی ہے، وہ شائدالگ ہی رہیں، البتہ سات میں سے چار آزاد ارکان پی ٹی آئی کے ساتھ شامل ہوجائیں گے۔مجلس وحدت مسلمین ان کی اتحادی جماعت ہے، اس کی ایک سیٹ بھی شامل ہوگی، یوں پی ٹی آئی کو مناسب اکثریت حاصل ہوجائے گی۔اس بار جی بی میں بہت بڑی انتخابی مہم چلائی گئی۔ ووٹروں کا سیاسی شعور یقینا بہتر ہوا ہوگا۔ امید کرنی چاہیے کہ نومنتخب حکومت اچھی کارکردگی دکھائے گی اور عوام بھی ان پر نظر رکھیں گے۔

About The Author