نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آزادی صحافت پر پابندی نامنظور ۔۔۔عامر حسینی

اگر کوئی افسر یہ سمجھتا ہے کہ وہ کسی اخبار یا چینل کی انتظامیہ یا مالک کو رشوت دے کر مقامی صحافی سے اس کی آزادی چھین لے گا تو وہ انتہائی غلط فہمی میں مبتلا ہے،

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مقامی ورکنگ صحافیوں کی آزادی اظہار کو پابند سلاسل کرنے کا طریقہ یہ ہے حکومت کسی مذہبی شدت پسند تنظیم کے کارکنوں کی نظر بندی کا حکم دے تو ڈپٹی کمشنر صاحبان اپنے ناپسندیدہ مقامی صحافیوں کے نام اس صف میں ڈال کر انھیں نظر بند کردیں اور جب صحافی سراپا احتجاج ہوں تو دباؤ میں آکر صحافی کو رہا کرکے "صحافی دوست افسر” کا تمغہ سرکاری ہینڈ آؤٹ جاری کرکے اپنے کاندھوں پر سجا لیں-
حکومت 16 ایم پی او کے تحت انتہا پسند و کالعدم تنظیموں کے کارکنوں کی نظر بندی کا حکم دے تو پنجاب کی ضلعی نوکر شاہی کسی بھی "ناپسندیدہ صحافی” کے خلاف 16 ایم پی او کے تحت مقدمہ درج کرکے ان کی تین تین ماہ کی نظربندی کے آڈر نکال دیں صحافی پھر احتجاج کریں تو صحافی رہا تو کردیا جائے لیکن بلیک میلنگ کے تحت مقدمات کی تلوار سر پہ لٹکائی رکھی جائے اور "صحافی دوست ” ہونے کا اعزاز ماتھے پر سجاکر منتقم مزاج ضلعی بابو افسران پھرتے رہیں
فیس بک پر کسی افسر کی کارکردگی پر سوال اٹھایا جائے تو 25 ڈی ٹیلی گراف ایکٹ ، اینٹی سائبر کرائمز ایکٹ، پاکستان الیکٹرانک کرائمز کنٹرول ایکٹ یا ایف آئی اے میں اپنے کسی شناسا افسر کے زریعے قانون کا غلط اطلاق کرکے صحافیوں کے خلاف اقدام اٹھایا جائے
خانیوال میں وجاہت حسنین سرگانہ ہی منتقم مزاج بابوشاہی کا نشانہ نہیں بنا بلکہ اس سے پہلے مظفر قادری سمیت کئی اور صحافی بھی اس انتقام کا نشانہ بنے ہیں۔
کرپٹ افسران، سفارش پر تعینات ہونے والے بابو ، کرپٹ پریکٹسز میں ملوث سرکاری نوکر اپنی کھال بچانے کے لیے زرد صحافت کرنے والوں کی پیٹھ تھپک کر صحافیوں کی آزادی میں خلل ڈالنے کے لیے سرکاری اختیارات کا غلط استعمال کررہے ہیں –
صحافی زیادہ دیر ایسے ہتھکنڈے برداشت نہیں کریں گے- بدعنوان ماتحت سرکاری ملازمین کی کھال بچانے کے لیے سرکاری اختیارات کا غلط استعمال کسی سرکاری نوکر کو زیب نہیں دیتا- ایسے سرکاری نوکر کے خاندان کے افراد اور قریبی رشتے داروں اور دوست احباب کے منقولہ و غیر منقولہ اثاثہ جات کی چھان بین اینٹی کرپشن ، ایف آئی اے اور نیب کو کرنا بنتی ہے اور صحافی سرکار میں بیٹھی کالی بھیڑوں کو بے نقاب کرنے کا فریضہ جاری رکھیں گے –
اگر کوئی افسر یہ سمجھتا ہے کہ وہ کسی اخبار یا چینل کی انتظامیہ یا مالک کو رشوت دے کر مقامی صحافی سے اس کی آزادی چھین لے گا تو وہ انتہائی غلط فہمی میں مبتلا ہے، صحافتی تنظیمیں مقامی صحافی کی آزادی کا پورا پورا تحفظ کریں گی اور مستقبل میں اگر کسی مقامی صحافی پر ناجائز مقدمہ درج ہوا یا اس کو نظر بند کرنے کی کوشش کی تو "جیل بھرو تحریک” سے لیکر ہر راست اقدام کیا جائے گ

About The Author