علی احمد ڈھلوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پی ٹی آئی کو ووٹ ڈالنے والوں کے دل میں ماضی کی دونوں حکمران جماعتوں کے لیے نرم گوشہ پیدا نہیں ہوا۔
آج کل ملکی سیاست پر گلگت بلتستان الیکشن چھایا ہوا ہے، یہاں 24حلقے ہیں لیکن الیکشن 23 نشستوں پر ہوئے ہیں۔ ان شمالی علاقہ جات کی آبادی 81لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جب کہ اس کا کل رقبہ 72971مربع کلومیٹر ہے۔ بلتی اور شینا یہاں کی مشہور زبانیں ہیں۔ گلگت و بلتستان تین ڈویژنز بلتستان ، دیا میراور گلگت پر مشتمل ہے۔
بلتستان ڈویژن ،اسکردوشگر،کھرمنگ ،روندو اور گانچھے کے اضلاع پر مشتمل ہے۔ گلگت ڈویژن گلگت،غذر، ہنزاورنگر کے اضلاع پر مشتمل ہے۔ جب کہ دیا میر ڈویژن داریل،تانگیر،استورکے اضلاع پر مشتمل ہے۔۔ گلگت بلتستان کے شمال مغرب میں افغانستان کی واخان کی پٹی ہے جو گلگت بلتستان کو تاجکستان سے الگ کرتی ہے جب کہ شمال مشرق میں اس کی سرحد چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ سے ملتی ہے۔ جنوب مشرق میں ہندوستانی مقبوضہ کشمیر، جنوب میں آزاد کشمیر جب کہ مغرب میں پاکستانی صوبہ خیبر پختونخوا واقع ہیں۔ اس خطے میں سات ہزار میٹر سے بلند 50 چوٹیاں واقع ہیں۔
دنیا کے تین بلند ترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے قراقرم،ہمالیہ اور ہندوکش یہاں آکر ملتے ہیں۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ’’کے ٹو‘‘ بھی اسی خطے میں ہے۔ جب کہ دنیا کے تین سب سے بڑے گلیشئیر بھی اسی خطے میں ہیں۔ گلگت بلتستان کے زیادہ تر مقامی باشندے منگول قبائل کی باقیات ہیں جو ان کے جسمانی خدوخال سے ظاہر ہوتے ہیں جب کہ تبتی نسل کے باشندے مقامیوں سے قدرے مختلف ہیں۔ اشاعت اسلام کے دور میں سید گھرانوں نے بھی بلتستان کا رخ کیا، سادات کے یہی خانوادے یہاں اسلام کی ترویج میں پیش پیش رہے۔
سادات کی نسلیں آج بھی یہاں مقیم ہیں۔ اگر سیاسی حوالے سے بات کی جائے تو یہاں مشہور سیاسی خاندانوں کا ذکر کم ہی ملتا ہے، جس کی بڑی وجہ یہاں کی 100فیصد خواندگی ہے، اس بار گلگت بلتستان اسمبلی کے عام انتخابات پورے ملک کے اعصاب پر چھائے رہے، اس دفعہ تینوں بڑی پارٹیوں کے چوٹی کے رہنماؤں نے گلگت بلتستان میں ڈیرے ڈالے رکھے اور اپنے امیدواروں کو کامیاب کرانے کے لیے ہر پارٹی نے سرتوڑ کوششیں کیں۔
تادم تحریر غیر سرکاری نتائج کے مطابق پی ٹی آئی10نشستوں کے ساتھ سب سے آگے، آزاد اُمیدوار 7نشستوں کے ساتھ دوسرے جب کہ پیپلزپارٹی تین نشستوں کے ساتھ تیسرے اور ن لیگ2نشستوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔اس الیکشن میں وہی ہواجس کی سابقہ ادوار میں روایت رہی ہے کہ جس پارٹی کی مرکز میں حکومت ہو، وہی گلگت بلتستان میں حکومت بناتی ہے، حالانکہ اس الیکشن میں ن لیگ یا پیپلزپارٹی اس روایت کو توڑ سکتی تھی لیکن پاکستانی سیاست کی منافقت دیکھنی ہو یا یوں کہہ لیں کہ اس وقت اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے بیانئے کو تقسیم ہوتے دیکھنا ہو تو اس کے لیے گلگت بلتستان اسمبلی کا انتخاب لٹمس پیپر بنا ہوا ہے۔
پی ڈی ایم میں کوئی گیارہ کے قریب پارٹیاں ہیں اور جمہوریت کو اس کی اصل روح کے مطابق بحال کرنے اور ملک میں عوامی ترجمانی کی دعوے دار ہیں۔ گلگت بلتستان ان کے اتحاد کے لیے ایک ایسا میدان تھا جہاں وہ متحد ہو کر پی ٹی آئی کا صفایا کر سکتے تھے لیکن اقتدار اور طاقت کی ہوس نے انھیں وہاں جدا کر دیا ہے۔ مریم نواز جو پی ڈی ایم کے بیانئے کی اصل روح رواں ہیں وہاں پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر الیکشن لڑ سکتی تھیں یاکچھ حلقوں میں ایڈجسٹمنٹ ہو سکتی تھی لیکن دونوں جانب سے اس پر کوئی غور نہیں ہوا۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا اتحاد مجبوری یا موقع پرستی کی مثال لگتا ہے ۔یعنی اس اتحاد میں بھی موقع پرستی کا عنصر موجود ہے،بقول شاعر
زہر لگتا ہے یہ عادت کے مطابق مجھ کو
کچھ منافق بھی بتاتے ہیں منافق مجھ کو
خیر اس الیکشن میں ن لیگ کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ اس کے ’’بیانیے‘‘ کی شکست ہی کہا جاسکتا ہے، کیونکہ جس پارٹی کے پاس سابق دور میں 22سیٹیں (بشمول خواتین کی نشستیں) تھیں، اُسے اب صرف 2 پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا۔
پی ڈی ایم نے ایک خاص بیانیہ تخلیق کیا ، اے پی سی کی قرارداد اس حوالے سے خاصی جامع ہے، اس میں بہت سے نکات کا حوالہ دیا گیا۔ پی ڈی ایم کے اس بیانیہ کو میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی نے اپنے انداز میں آگے بڑھایا ہے۔ میاں نواز شریف تو حدود کراس کر چکے ہیں۔
حالانکہ اُن کی اپنی پارٹی کے لوگ اس بیانیے پر اُن کے ساتھ نہیں ہیں، جیسے عبدالقادر بلوچ جیسے کئی سینئر سیاستدانوں نے ن لیگ کو خیر آباد کہہ دیا ہے، پیپلزپارٹی نے واضح طور پر اس بیانئے سے فاصلہ اختیارکیا، بلاول بھٹو حالیہ دنوں میں کم از کم دو بار اس کا اشارہ دے چکے ہیں لیکن ن لیگ کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ گلگت بلتستان جسے ن لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، وہاں وہ بری طرح پٹ گئی ہے تو آیندہ الیکشن میں کیا حال ہوگا؟
بہرکیف فی الوقت حالیہ الیکشن میں پیپلزپارٹی بھی شکست کھا چکی ہے، اور پی ٹی آئی پر الیکشن چرانے کا الزام لگا رہی ہے، جب کہ بلاول بھٹو نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ جلد ہی دھاندلی کے خلاف احتجاج میں گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ ہوں گے، حالانکہ انھیں یہ سوچنا چاہیے کہ انھوں نے ایک ایسی پارٹی کا ساتھ دیا ہے جس کی قیادت مقدمات میں الجھی ہوئی ہے۔ جب ایک سیاسی طالب علم کی حیثیت سے ہم بلاول اور مریم نواز کے طرز سیاست اور بیانات کا جائزہ لیتے ہیں تو ایک بات واضح ہے کہ بلاول میں سنجیدگی اورمیچورٹی کا لیول زیادہ ہے۔اس کا ذکر میں اپنے گزشتہ ماہ کے ایک کالم میں بھی کر چکا ہوں۔
خیر موجودہ انتخابات سے ایک بات تو واضح ہو چکی ہے کہ خواہ عمران خان کی گورننس سے عوام ناراض اور مایوس بھی ہیں ، تب بھی پی ٹی آئی کو ووٹ ڈالنے والوں کے دل میں ماضی کی دونوں حکمران جماعتوں کے لیے نرم گوشہ پیدا نہیں ہوا۔ جو لوگ شریف اور زرداری خاندان کو کرپٹ سمجھتے تھے، ان کی سوچ آج بھی وہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے طرز سیاست کو ناپسند کرنے والے، آج بھی مولانا کے مداح نہیں بنے۔ وجوہات کچھ بھی ہوں مگر ان اپوزیشن جماعتوں کواپنے بیانیے، طرز سیاست اورلائف اسٹائل کو یقینا تبدیل کرنا ہوگا ورنہ اقتدار اُن کے لیے مزید دور ہوتا چلا جائے گا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر