محمد حنیف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ پہلی حکومت ہے کہ جس جس نے اس کو ووٹ دیا ہے اُسی کے دھندے کے پیچھے پڑ گئی ہے۔ طالب علموں نے ووٹ دیے تو وظیفے نہیں، کسانوں نے ووٹ دیے تو وہ مال روڈ پر لاٹھیاں کھا رہے ہیں، فیکٹری مزدوں نے ووٹ دیے تو فیکٹریاں بند۔
عمران خان کو کوئی اور حکومت میں لایا ہو یا نہ ہو، سلیکٹ کیا ہو یا نہ ہو، یہ اعتراف تو وہ خود کرتے ہیں کہ انھیں اور ان کی پارٹی کو بنانے میں میڈیا کا بڑا کردار ہے۔ یہ بھی سمجھ آتی ہے کہ حکمراں کو اُن لوگوں سے سب سے پہلے نمٹنا پڑتا ہے جو اپنے آپ کو بادشاہ گر سمجھنے لگتے ہیں۔ میر شکیل الرحمان کی طویل نظر بندی قابل مذمت ہے لیکن ظاہر ہے ان میں حکومت سے ٹکر لینے کا حوصلہ اور بینک بیلینس بھی تھا۔
لیکن آج کل پاکستان کی حکومت ملک میں میڈیا کے سب سے غریب بھائی ایف ایم ریڈیو چینلوں کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔
پاکستان میں تقریباً 200 ایف ایم چینل ہیں۔ پرائیویٹ شعبے میں ان میں سے غالباً آدھوں کو آخری نوٹس جاری کر دیا گیا ہے کہ حکومت کے خزانے میں اپنا حصہ ڈالو ورنہ تمہارا گانا بجانا بند اور دفتروں کی میز کرسیاں بھی نیلام کر دی جائیں گی۔
ان ایف ایم چینلوں کے پاس نہ تو جنگ گروپ کا دبدبہ ہے، نہ ڈان والوں جیسی تمکنت اور نہ ہی ہم ٹی وی جیسی چمک دمک۔
لیکن میرا خیال ہے کہ ایف ایم چینلز نے لوگوں کو گھر بیٹھے، گاڑی چلاتے اور دکانداری کرتے مفت تفریح پہنچانے میں اور آپس میں گفتگو کرنے کا ایک زبردست ذریعہ فراہم کیا ہوا ہے۔
کراچی میں بیٹھے ہیں تو ڈائل گھمائیں اور اردو انگریزی کے ساتھ ساتھ پشتو، براہوی، گجراتی، سندھی جس زبان میں چاہیں گفتگو سنیں۔گانے کی فرمائش کریں اور اگر زیادہ فارغ ہیں تو فون گھما کے گفتگو میں شامل ہو جائیں۔ حالات حاضرہ کا رونا روئیں، لطیفہ سنائیں یا یہ سنا دیں کہ آج گھر میں کیا پکا ہے۔کراچی سے نکل کر پشاور تک جائیں، ہر ضلع میں اس کی مقامی بولی میں باتیں اور اشتہار سنیں، مقامی فنکاروں کے گیت سنیں۔
ایف ایم سٹیشنوں نے ہر چھوٹے شہر میں ایک کمیونٹی ہال کا کام کیا ہے۔ نچلے اور متوسط طبقوں کو اپنے اظہار کا ایک پلیٹ فارم دیا ہے اور نوجوان صدا کاروں اور صحافیوں کے لیے ایک ٹریننگ گراؤنڈ بھی ہے۔
آج کل پاکستان کے پرائیویٹ ٹی وی چینلوں کے کئی مشہور اینکرز اور چیتے رپورٹروں نے اپنے کرئیر کا آغاز ایف ایم چینلوں سے ہی کیا تھا۔ٹی وی چینل شاید سیاست بیچتے اور کرتے ہوں۔ ایف ایم چینل کا تو مطلب ہی ہے اینٹرٹینمنٹ اور مقامی ایف ایم اینٹرٹینمنٹ چونکہ مقامی ہے اس لیے عوام اور حکومت دونوں کے مزاج کو سمجھتے ہیں۔
نماز کے وقت اذان لگا دیتے ہیں، جمعہ کو قوالیاں، ربیع الاول میں نعتوں سے سما باندھ دیتے ہیں، محرم میں مرثیے چلوا دیتے ہیں۔صبح کے وقت ہلکی پھلکی گپ، خبریں اور رات دیر گئے ذرا روحانی ہو جاتے ہیں اور غزلیں وغیرہ لگا کر بے خواب سامعین کے روحانی قصے سنتے ہیں۔
تابع دار اتنے کہ اگر حکومت کہے کہ انڈین گانے بند کرو تو فوراً بند، حکومت کہے کہ ڈیم کے اشتہار چلاؤ تو ثاقب نثار کے جانے کے کئی ماہ بعد بھی اشتہار چلاتے رہتے ہیں۔
اگر آرڈر آئے کہ کسی غیر ملکی اخباری ادارے کی خبر نہیں چلانی تو کہتے ہیں کہ بالکل نہیں چلانی۔ایف ایم سٹیشنوں سے زیادہ موثر اور ہومیوپیتھک میڈیا کسی حکومت کو نہیں مل سکتا لیکن خدا جانے حکومت کے کان کس نے بھرے ہیں کہ جن شرطوں پر 15 سال پہلے لائسنس ملے تھے اب ان سے دگنا پیسہ مانگ رہی ہے اور یہ بھی کہہ رہی ہے کہ ابھی دو ورنہ دھندہ بند کرو اور گھروں میں بیٹھو۔
یقیناً کچھ ایف ایم چینلوں کے مالک بڑے سیٹھ ہیں اور انھیں خزانے میں اپنا حصہ ڈالنا بھی آتا ہے اور نکالنا بھی۔
لیکن جو لوگ وہاڑی اور نوشہرو فیروز جیسی جگہوں پر اپنے سٹیشن چلا رہے ہیں وہ کورونا کی وجہ سے برباد معیشت میں کھائیں گے کیا، کمائیں گے کیا اور حکومت کے ہرجانے کیسے بھریں گے۔اگرچہ ان ایف ایم سٹیشنوں کو کچھ نہ کچھ اشتہار بڑی کمپنیوں سے ملتے ہیں، لیکن زیادہ تر اشتہار مقامی ہوتے ہیں۔
بیوٹی پارلر، بیکریاں، کاروں کے شو روم، بلکہ بعض دفعہ تو خاندان میں ہونے والی کسی موت کا اشتہار بھی دو ڈھائی ہزار دے کر مقامی ایف ایم ریڈیو پر چل جاتا ہے۔غریب کا غریب کے ساتھ دھندہ بننا کسی بھی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے لیکن حکومت کہتی ہے کہ اب یہ دھندہ نہیں چلے گا۔شاید حکومت کو ان سٹیشنوں کے نام سن کر لگتا ہو کہ یہ بڑی بلائیں ہیں، ان کو نتھ ڈالی جائے۔
لیکن ان ایف ایم ریڈیو کے سٹوڈیوز میں کی ہوئی باتوں سے یا چلائے گئے گانوں سے آج تک نہ کوئی حکومت گئی ہے نہ آنی ہے۔اسلام آباد میں ایک پاور ایف ایم نامی سٹیشن ہے۔ اسلام آباد کی پاور پالیٹکس میں اس کے کردار کے بارے میں کبھی سنا، نہ ہی کسی نے شکایت لگائی ہے۔
چار بڑے شہروں میں ایک ’مست ایف ایم‘ ہے۔ ہلکی پھلکی مستی کے علاوہ سن کر کبھی نہیں لگا کہ ریاست سے بغاوت کر دو۔ ’اپنا کراچی‘ سے پہلے بھی کراچی اپنا ہی تھا۔ ہاٹ ایف ایم نے پاکستان کو نہ زیادہ ٹھنڈا کیا ہے نہ گرم، بس ہماری بور دوپہروں کو تھوڑا خوشگوار بنایا ہے۔ایف ایم کا پورا دھندہ صرف گانوں پر چلتا ہے یا گفتگو پر۔ کئی سال پہلے ایک ایف ایم والے سے پوچھا تھا کہ آپ کے سٹیشن پر آج کل کیا چل رہا ہے، اس نے بغیر سوچے جواب دیا ’کریزی کیا رے‘ اور کرکٹ۔
ایف ایم والوں کو باتیں کرنے کا بھی بہت شوق ہوتا ہے۔ اگر حکومت نے یہ ہزاروں آوازیں زبردستی آف ایئر کر دیں تو یہ زبانیں پھر بھی بند نہ ہوں گی اور پھر یہ آوازیں جو کچھ کہیں گی وہ ناقابل اشاعت ہو گا۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ