عمار مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے گریڈ 18 کے افسران جذبات میں آکر وہ کر رہے ہیں ’جو انھیں نہیں کرنا چاہیے۔‘
واقعہ تو کچھ ایسا نہیں تھا کہ بات کا بتنگڑ بنا دیا جائے، لیکن جب قدموں تلے زمیں نکل رہی ہو تو ہر قدم آپ کو پھسلنے پر مجبور کرتا ہے۔ ہر پاؤں کیچڑ میں پڑتا ہے، اور سب سہارے ڈگمگانے لگتے ہیں۔
یہی ہو رہا ہے۔ اب بھلا کیپٹن صفدر اگر مزار قائد پر فاطمہ جناح زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے تو لگانے دیتے اس پر اتنا واویلا کرنے کی کیا ضرورت تھی، لیکن نہیں بھئی جب جذباتی نوجوانوں نے دل میں ٹھان لی، تو ٹھان لی۔
پہلے تو میڈیا کو یہ موضوع دیا گیا۔ شام تک سرکاری ترجمان اور کچھ اینکر اس فوٹیج کو بھنبھوڑتے رہے۔ مادر ملت کی یاد میں دھاڑِیں مار مار کر روتے رہے۔ اس عالم غم میں کسی نے یہ تذکرہ مناسب نہیں سمجھا کہ یہ وہی مادر ملت تھیں جن کو ’غدار وطن‘ کا لقب بھی دیا گیا تھا۔ جن کو ’انڈیا کا ایجنٹ‘ بھی قرار دیا تھا، جن کو تقریر کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
ہماری تاریخ ایسے کار ہائے نمایاں سے بھری پڑی ہے۔ بھٹو کا دور ہو تو جذبہ ایمانی جاگ جاتا ہے۔ مشرف کے دور میں میں بھی یہی ہوتا رہا ہے۔ حضرت ضیاء الحق تو جذبات کے شہنشاہ تھے۔ دوران تقریر فقط 11 سال حکومت کرنے بعد اچانک جیب سے براق رومال دریافت کرتے۔ بھیگتی پلکوں کو صاف کرتے اور قوم کی حالت زار پر ماتم کرتے اور خود بھی جذباتی ہوتے اور قوم کو بھی جذباتی کرتے۔ اس کا بھگتان ساری قوم ابھی تک ادا کر رہی ہے۔
تو بات ہو رہی تھی کیپٹن صفدر کے نعروں کی۔ راتوں رات سندھ کے صوبے کے آئی جی کو ’اغوا‘ کر لیا گیا۔ اس سے زبردستی ایف آئی آر کٹوائی گئی۔ علی الصبح ہوٹل میں مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے کمرے میں تالہ توڑ کر چادر اور چار دیواری کے تحفظ کو پاؤں میں روندتے داخل ہوئے۔ کیپٹن صفدر کو گرفتار کیا اور یہ جا اور وہ جا۔
’نواز شریف نے فورا ٹویٹ لکھ مارا کہ انکوائری رپورٹ ریجیکٹڈ۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
سنا ہے کیپٹن صفدر کے ساتھ سلوک اچھا کیا گیا ان کو چائے شائے پلائی گئی کیونکہ کیپٹن صفدر کبھی خود بھی جذباتی نوجوان تھے۔ خیر شام تک کیپٹن صفدر کی رہائی ہوئی۔
بلاول بھٹو نے ایک آتش فشاں قسم کی پریس کانفرنس کی۔ مریم نواز ابھی پریس کانفرنس میں برس ہی رہی تھیں کہ کیپٹن صفدر کہ رہائی کی خبر آگئی۔ بات یہیں پر ختم ہو جاتی تو جذبات اتنے برانگیختہ نہ ہوتے۔ اب سندھ کے آئی جی سے لے کر ایس ایچ او تک سب نے طویل مدت کی چھٹیوں کی درخواست دے دی۔ اب یہ خبر بڑی ہو گئی۔
ساری دنیا میں کھلبھلی مچ گئی۔ ملک کی نیک نامی میں اور اضافہ ہو گیا۔ حتٰی کہ آئی جی کو انکوائری کی یقین دہانی کروائی گئی تب جا کر جذبات کچھ ٹھنڈے ہوئے۔ لیکن اب سوشل میڈیا کے شتر بے مہار سامنے آگئے۔ ہر روز انکوائری رپورٹ کا مطالبہ کرنے لگے۔ ایک دن انکوائری رپورٹ آگئی۔ اب صحافیوں کے ہاتھ نیا موضوع لگ گیا ہے۔
نواز شریف بھی اس لمحے کے منتظر تھے۔ ڈان لیکس کے معاملے پر ریجیکٹڈ والی ٹوئیٹ ان کے سینے میں گڑھی تھی۔ فورا ٹویٹ لکھ مارا کہ ’انکوائری رپورٹ ریجیکٹڈ۔‘ معاملہ اور جذباتی ہوگیا۔ سارے سوشل میڈیا پر انکوائری رپورٹ ریجیکٹڈ کا ٹرینڈ پھیل گیا۔ ابھی بھی بات ختم نہیں ہوئی بلکہ بات ہر روز بڑھتی جا رہی ہے۔
لاہور کی مال روڈ پر ایاز صادق کے خلاف غداری والے بینر لگا دیے گئے (فوٹو: ٹوئٹر)
انکوائری رپورٹ کے آنے سے چند دن پہلے لاہور کی مال روڈ پر ایاز صادق کے خلاف غداری والے بینر لگا دیےگئے۔ ایک جذباتی وزیر نے پلواما والے معاملے پر ایسا بیان دے دیا کہ جگ ہنسائی ہو گئی۔ دیکھا دیکھی ایک اور بزرگ وزیر جذبات میں آئے اور طالبان سے لے کر اے این پی اور بے نظیر کے قتل کے سب معاملے قبول کر لیے۔
ابھی تک ہم صرف ایک ہی طرح کے جذبات کا ذکر کر ہے ہیں لیکن یاد رہے کہ امریکہ میں ووٹر جذباتی ہو گئے تو انہوں نے ٹرمپ کو نکال ہی باہر کیا۔ خیر دنیا جذبات کی ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ لیکن ابھی ہم جذبات کی رو میں اتنا نہیں بہکے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ