صدیوں پرانا بوڑھا , قلعہ مروٹ
بہاولپور سے فاصلہ 120 کلومیٹر
کلمنعلیہا_فان
رہے نام اللہ کا
زبیر کھنڈ
سینکڑوں سال پہلے چتوڑ کے راجہ مہروٹ نے راجستھان میں راجہ چچ سے جنگ لڑی اور فتح یا شکست کا فیصلہ کمزور تاریخی حوالوں کے ملبے تلے دبا کر دریائے
ہاکڑہ کے کنارے اور ملتان تا دہلی مصروف ترین تجارتی راستے پر ایک بہت اونچے مٹی کے ٹیلے پر قلعہ مہروٹ کی بنیاد رکھی
وقت گزرا اور اختصار کا سہارا لیتے لیتے قلعہ کا نام مہروٹ سے مروٹ پکارا جانا لگے
قلعہ کے صدر دروازے کے آثار کے پاس کچھ سال پہلے
تک ایک پتھر کی سل پر درج زیل تحریر کندہ ہوئ مل جاتی تھی
"سمبت 1548 پرکھی , پوہ سودی 2 , مروٹ پاتھا, ملک جام سومرا, کوٹ پکی کھیل پھرائ ”
اس سے مورخ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ
یہ قلعہ جام سومرا نے 1491 ء میں اپنے دور حکومت میں از سر نو تعمیر کرایا تھا اور کچے قلعے کی دیواریں اور برج پختہ چورس اینٹوں سے ڈھانپ دیے گئے
قلعہ کے اندر اس وقت قائم واحد قدیم عمارت قلعہ کی #مسجدشاہمردان ہے جس پر ایک تحریر کندہ ہے کہ
"تبا شد ایں مسجد مبارک در, دور جلال الدین محمد اکبر بادشاہ غازی , شاہ محمود الملک , حاکم محمد طاہر, اہل فرمائش, سید نصراللہ 974 ھ تمام شد
”
بیکانیر کے راجاوں کی 200 سال تک رہائش کا اعزاز رکھنے والا یہ قلعہ اب بربادی اور تباہی کا منہہ بولتا ثبوت ہے
فلک بوس برج زمیں بوس ہو چکے , حفاظت کی غرض سے بنائ گئی دیواریں وقت کے ہاتھوں خود محفوظ نا رہ سکیں ,
جاہ و جلال کا امین صدر دروازہ اپنا وجود کھو چکا, چہار دیواری کے مشرقی سمت, ابھرتی ہوئ عظمت کا نشان محل برباد ہو چکا ہے
عظمت نے موت کی چادر تان لی اور رفعت دھول ہو گئی, اب ایک اونچا میدان ہے جس پر ہر قدم عبرت ڈھول پیٹ رہی ہے اور ہر شکستہ اینٹ زبان حال سے پکار رہی ہے۔
اے وی پڑھو
چوکیل بانڈہ: فطرت کے دلفریب رنگوں کی جادونگری||اکمل خان
ڈیرہ کی گمشدہ نیلی کوٹھی !!||رمیض حبیب
سوات میں سیلاب متاثرین کے مسائل کی درست عکاسی ہو رہی ہے؟||اکمل خان