فہمیدہ یوسفی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تو ہو جو مجھے بتادے اور سمجھادے کہ آخر ہم کس معاشرے میں جی رہے ہیں ؟؟ کون ہیں ہم لوگ ،انسان ہیں یا درندے؟
فہمیدہ یوسفی
کس زمانہ جاہلیت میں جی رہے ہیں ہے ہم جہاں نہ عورتوں کی عصمت اور جان محفوظ نہ ہی ہمارے بچے بچیاں گھر میں نہ ہی گھر سے باہر محفوظ۔
کیا یہ ستم کم ہے کہ پہلے خبر ملے بچی اغوا ہوگئی ، دوسری خبر ملے کہ تلاش جاری ہے اور بھر نہ زمیں پھٹے نہ آسمان گرے،نہ کوئی شور و غل مچے۔ بس خبر ملے کہ ایک کمسن
نا بالغ ،رنگ نسل ذات پات دین مذہب سے بیگانہ مسیحی بچی نے مذہب تبدیل کرلیا۔
نابالغ کمسن معصوم بچی جس نے بلوغت کی سیڑھی پر پہلا قدم ہی رکھا ہے اس نے اچانک کسی چالس پینتالیس سال کے آدمی سے شادی کرلی۔
اب والدین ہر فکر سے آزاد ہوجائیں اور تلاش چھوڑ دیں ،اپنی اولاد کو بھی بھول جائیں خبر یوں بنی کہ کم عمر نومسلم آرزو نے اپنی مرضی سے ایک ادھیڑ عمر آدمی سے شادی کرلی۔
ہاں تو خیر ہے کیا ہوا کیا بچیاں اپنی مرضی سے شادیاں نہیں کرتی ہیں کیا ؟
اور کیا ہوا اگر اس کی عمر نے ابھی پندرہ کا سن بھی چھوا اور کیا ہوا جو اس کے مبینہ شوہر کی عمر چالیس سے اوپر ہے مرد کی عمر کون دیکھتا ہے۔
یہ افسوس ناک واقعہ پیش آیا کراچی کے علاقے ریلوے کالونی میں جہاں مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والےراجہ کی بیٹی آرزو گھر کے باہر سےاغوا کرلی گئی تھی۔
آرزو کے والد راجہ لال کی شکایت پر درج مقدمے کی ایف آئی آر میں ، انہوں نے دعوی کیا ہے کہ 13 اکتوبر کو وہ اور اس کی اہلیہ کام پر گئے تھے جبکہ ان کا بیٹا شہباز اسکول گیا تھا۔ راجہ نے بتایا کہ آرزو سمیت ان کی تین بیٹیاں کراچی کے ریلوے کالونی میں واقع اپنے گھر پر موجود تھیں جب انہیں کسی رشتہ دار کا فون آیا ، جس نے اسے بتایا کہ آرزو لاپتہ ہے۔
راجہ نے بتایا کہ وہ گھر پہنچے اور اپنے پڑوسیوں سے رابطہ کیا ، لیکن اپنی بیٹی کا سراغ نہیں لگا سکے، اس کے بعد اس نے فریئر پولیس اسٹیشن میں نامعلوم افراد کے خلاف اپنی بیٹی کے اغوا سے متعلق مقدمہ درج کیا۔
لیکن یہ کیا کہ کہانی میں ایک نیا موڑ آیا جب والدین کے ہاتھ اینٹی وایلنٹ سیل میں ایک نکاح نامہ دکھا کر کہا گیا کہ یہ ہےآپ کی بیٹی کا نکاح نامہ اور آرزو نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کرکے ایک 40 سالہ اظہر علی سے شادی کرلی ہے۔
والدین کے تو سر پرنہ آسمان رہا تھا نہ ہی پیروں کے نیچے زمین جنم دینے والی ماں کے کانوں نے یقین کرنے سے ہی انکار کردیا کہ ان کی کمسن بیٹی آرزو جو ابھی صرف چھٹی کی طالبہ ہے ابھی تو اس کا بچپن بھی نہیں چھوٹا ابھی تو وہ گڑیوں کے لیے لڑتی پھرتی تھی بغیر اجازت گھر سے نہیں نکلتی تھی ، اس نے ایسے کیسے اتنا بڑا قدم اٹھا لیا لیکن ہوتا وہ ہی ہے جو قسمت میں لکھا ہو۔
والدین کی درخواست پر اغوا اور پھر جبری شادی کرنے کے خلاف اظہر علی کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی، اسی دوران علی اظہر نے پولیس کارروائی سے بچنے کے لیے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔
عدالت نے اس کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور کر لی بلکہ اس کے گھر کے قریب واقع تھانے کو آرزو کی حفاظت کا حکم بھی دیا تاکہ اسے علی اظہر کی تحویل سے واپس نہ لیا جا سکے۔
علی اظہر نے آرزو کو بالغ ثابت کرنے کے لیے جو واحد دستاویز عدالت میں پیش کی وہ ایک حلف نامہ ہے جس پر بظاہر آرزو کے دستخط ہیں۔
اس حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ اس کی عمر اٹھارہ سال ہے اور وہ اپنی مرضی سے مسلمان ہوئی ہے۔
یہ واقعہ سندھ میں پیش آیا ہے جہاں قانون کی رو سے کم عمری کی شادی ممنوع ہے۔
صوبے میں 2020 میں بنائے گئے کم عمری کی شادی کی ممانعت کے قانون میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کسی کم عمر فرد سے شادی کرنا ایک جرم ہے۔
یہ قانون کم عمر فرد سے شادی کرنے والے اور اس شادی میں سہولت فراہم کرنے والے لوگوں کے لیے واضح سزائیں تجویز کرتا ہے۔
جب کیس عدالت پہنچا تو اس حوالے سے سندھ ہائی کورٹ نے پولیس کو آرزو فاطمہ کے شوہر اور اہل خانہ کی گرفتاری سے روک دیا تھا اور جوڑے کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالتی حکم پر عملدر آمد کرتے ہوئے پولیس نے آرزو کو بازیاب کرواکر دارالامان بھیج دیا تھا۔
آرزو کے شوہر کو عدالت کے حکم کے مطابق 3 روزہ ریمانڈ پر بھی بھیجا گیا تھا تاہم جب اس کیس پر ہر طرف سے کہرام مچا اور نہ صرف سندھ حکومت بلکہ وفاقی حکومت بھی میدان میں آگئیں۔
سندھ ہائی کورٹ میں جب آرزو کیس کی سماعت ہوئی،درخواست گزار آرزو کو شیلٹر ہوم سے عدالت میں پیش کیا گیا۔
جب عدالت نے آرزو سے سوال کیا کہ آپ نے کسی دباؤ میں اسلام قبول کیا ہے؟
آرزو نے عدالت میں جواب دیتے ہوئے کہا کہا نہیں میں نے کسی کے دباؤ میں اسلام قبول نہیں کیا۔
میں نے اسلام قبول کیا ہے، میرا نام آرزو فاطمہ ہے، میری عمر 18 سال ہے۔
آرزو کے اس بیان کے بعد ہی عدالت نے میڈیکل رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا کہ رپورٹ کے تحت بچی کی عمر کا تعین کیا جاسکے۔
نو نومبر کو آرزو سے متعلق میڈیکل بورڈ کی سیلڈ رپورٹ سندھ ہائی کورٹ میں پیش کی۔
پانچ رکنی بورڈ نے آرزو کی عمر کا تعین کیا جس کے مطابق آرزو فاطمہ کی عمر 14 سے 15 سال کے درمیان ہے۔
عدالت نے آرزو سے سوال کیا کہ کیا آپ والدین کے پاس جانا چاپتی ہیں؟ جس پر آرزو فاطمہ نے روکرعدالت کو جواب دیا کہ اپنے شوہر کے پاس جانا چاہتی ہوں سندھ ہائی کورٹ نے آرزو کو شیلٹر ہوم بھیجنے کا حکم دے دیااور کہا کہ صرف ان لوگوں کی آرزو ملاقات کرائی جائے جن سے وہ ملنا چاہے۔
اس کیس کے حوالے سے راوا کی ٹیم نے آرزوکے والدین سے خصوصی ملاقات کی جس میں والدین کی جانب کہانی کے اہم پہلو کھل کر سامنے آئے۔
آرزو کے والدین نے بتایا کہ اظہر علی ہمارے ہمسائے ہیں لیکن ہمارا ان کے گھر آنا جانا بلکل نہیں ہے،آرزو بہت معصوم ہے اسے اس سب کے لیے مجبور کیا گیا ہے۔
آرزو کے والد نے بتایا کہ ہمیں آرزو سے ملنے بھی نہیں دیا جارہا جبکہ دومنٹ کی ملاقاتی وڈیو کو دکھا کر وائرل کیا گیا ہے۔
ہمارا بس اتنا کہنا ہے کہ ہمیں ہماری بچی واپس کردیجائے،آرزو کے والد کا کہنا ہے کہ ہمارے ساتھ انصاف نہیں ہورہا۔
ہم تو نہ گھر کے رہے نہ نوکری کے ،والدین کا کہنا ہے کہ آرزو کی عمر ابھی 13 برس ہے۔
اس کو اس سب کا علم نہیں گڑیا سے کھیلنے والی آرزو کیسے پہلے مذہب اور پھر شادی کرسکتی ہے ؟
والد نے مزید بتایا کہ اظہر علی کے دونوں بھائی بھی پولیس میں ہیں ہمیں دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں،ہمیں بس انصاف چاہیے اور اپنی بچی چاہیے۔
اس کیس سے متعلق مزید معلومات کے لیے اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے زاہد فاروق جو ایک ہیومن رایٹ ایکٹوسٹ ہیں، ان سے بھی بات کی انہوں نے اس کیس سے متعلق بتایا کہ سندھ گورنمنٹ نے انڈر ایج میرج ایکٹ بنایا ہے،جس کے تحت قانونی طور پر یہ شادی تو نہیں ہوسکتی۔
اس کے علاوہ کیس کے حوالے سے پی ایم آر سی کے سیکٹری جنرل روحیل ظفر شاہی سے بھی ملاقات کی، جنہوں نے بتایا کہ ہمارے اس کیس سے متعلق تحفظات یہ تھے کہ بچی کو اظہرعلی کی تحویل میں دیا گیا۔
جس کے بعد سندھ ہائی کورٹ نے ایکشن لیا گیا اور 2 نومبر کو سماعت کی ہم بہت شکر گزار ہیں کہ عدالت نے اس کیس کے لیے اہم کردار ادا کیا۔
ہمارے صرف یہ تحفظات ہیں کہ کیسے اسلامک ادارہ 12 13 سال کی بچی کو یہ سرٹیفیکٹ دے دیتا ہے کہ آپ شادی کرلیں چاہے مرد کی عمر 40 سال ہو
کیسے 13 سال کی بچی ایک دم اسلام کی طرف راغب ہوگئی جبکہ 25 30 سال کی سمجھدار لڑکی ایسے اچانک ایسے مذہب تبدیل کرنے کی طرف راغب نہیں ہورہی۔
ہم بس یہ چاہتے ہیں کہ اس کیس کے ساتھ ساتھ باقاعدہ طور پر تحقیقات کی جائیں اور دیکھا جائے کہ کیا وہ واقعی اسلامک ملکی قانون کے مطابق ہے یا نہیں، اس حساس ترین کیس جس میں ہر دن گزرنے کے ساتھ روز ایک نیا انکشاف سامنے آرہا ہے۔
کیس کی نوعیت کو سمجھتے اور دیکھتے ہوئے آرزو کیس کے وکیل اور مشہور و معروف سماجی کارکن جبران ناصر سے بھی بات کی۔
جبران ناصر نے اس کیس سے متعلق بتایا کہ اس کیس میں جتنے بھی فیصلےآئے ہیں وہ عبوری فیصلے ہیں ابھی تک کوئ حتمی فیصلہ سامنے نہیں آیا ہے۔
ابھی تک پیش رفت کے مطابق تو یہ ہی کہا گیا ہے کہ بچی کے لیے ایف آئی آر تھی جس میں دفعہ 364 کی جو جب لگتی ہے کہ جب بچی اغوا ہو اور اس کی عمر 14 سال سے کم ہو اس کو دکھتے ہوئے عدالت نے کہا کہ بچی کو بلایا جائے کسی کو گرفتار نا کیا جائے ،اور بچی کو تحفظ فراہم کیا جائے۔
بچی کی عمر کے تعین ہونے کے بعد کیس کی نوعیت مکمل طور پر تبدیل ہوگئی کیونکہ بچی نے سوال کے جواب میں کہا کہ میں 18 سال کی ہوں جبکہ عدالت نے میڈیکل رپورٹ سامنے ہونے کی بناء پر بچی کا بیان مسترد کردیا۔
جبران ناصر نے مزید بتایا کہ کیس مختلف نوعیت کا ہےکیونکہ اس کیس میں کم عمرکی شادی، جبری شادی ،مذہب تبدیلی کے ساتھ ساتھ اغوا کا الزام بھی ہے۔
عدالت میں اس کی کیس کی اہمیت یہ نہیں کہ یہ ایک اقلیتی برادری کا کیس ہے بلکہ یہ ہے کہ یہ ایک تحویل کا معاملہ ہے اورچائلڈ رائٹس کیس ہے۔
سیاسی طور پر تو یہ کیس اقلیتی ہوسکتا ہے لیکن عدالتی طور پر ہرگز نہیں ہوسکتا ۔۔
آرزو کیس کو عدالت نے 23 نومبر تک ملتوی کردیا ہے ہر ایک کو انتظار ہے کہ اس کیس میں اب کیا فیصلہ سامنے آتا ہےکیونکہ اس کیس میں ایک معاملہ نہیں بلکہ کم عمری کی شادی ،مذہب کی تبدیلی کا معاملہ ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ فیصلہ کس کے حق میں آتا ہے اور آخر میں کون سچا جھوٹا قرار دیا جاتا ہے جبکہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کی آرزو کا مستقبل کیا ہوگا دوسری جانب کیا اس شادی میں شامل کرداروں کو قرار واقعی سزا ملی گی۔
تاہم میرا ایک سوال اب بھی اپنی جگہ ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا اگر آپ کی آرزو تیرہ سال کی ہوتی تو آپ اس کی شادی کردیتے؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر