نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انگریزی میں ایک ترکیب استعمال ہوتی ہے:Clever by Half۔ لاہور کی گلیوں میں پلا بڑھا مجھ جیسا کم علم شخص جب اُردو میں اسے بیان کرنا چاہتا ہے تو برجستہ جو لفظ ذہن میں آتا ہے اسے گھروں میں پڑھے اخبار کے لئے لکھا نہیں جاسکتا۔ آگے بڑھنے کے لئے غالباََ ’’ضرورت سے زیادہ چالاکی‘‘ کا استعمال کافی ہوگا۔
آج کے کالم میں ویسے بھی آپ کی خدمت میں بنیادی طور پر عرض یہ گزارنا ہے کہ تحریک انصاف کے چند بہت ہی کائیاں ’’پالیسی ساز‘‘ مسلسل ایسے حربے استعمال کئے چلے جارہے ہیں جو ضرورت سے زیادہ ’’چالاکی‘‘ اختیار کرنے کی وجہ سے فقط ان کی حکومت ہی کو نہیں بلکہ ریاست کے چند ’’ستونوں‘‘ کو بھی شرمندگی سے دو چار کر رہے ہیں۔ گزشتہ دو دِنوں کے اخبارات پڑھتے ہوئے غالباََ آپ میں سے اکثر لوگوں نے یہ طے کرلیا ہوگا کہ ’’عسکری قیادت‘‘ اراکینِ پارلیمان کو قومی سلامتی کے اہم اور حساس ترین معاملات کی بابت بریف کرنا چاہ رہی تھی۔
قومی اسمبلی کے سپیکر جناب اسد قیصر صاحب نے لہٰذا مطلوبہ بریفنگ کے لئے ایک تاریخ طے کردی۔ اس میں شرکت کے لئے اپوزیشن جماعتوں کے سرکردہ رہ نمائوں کو بھی باقاعدہ چٹھیاں لکھ کر مدعو کرلیا گیا۔ ’’عین آخری وقت‘‘ مگر PDM میں شامل جماعتوں نے مجوزہ بریفنگ میں شرکت سے ’’انکار‘‘ کردیا۔ اسد قیصر صاحب اس بریفنگ کو لہٰذا مؤخر نہیں بلکہ منسوخ کر نے کو مجبور ہوئے۔ ہمارے بہت ہی آزاد اور ذمہ دار میڈیا نے جس انداز میں مذکورہ بریفنگ کی منسوخی کی بابت ’’خبر‘‘ دی ہے کہ اس سے فقط یہ تاثر ملتا ہے کہ PDM میں شامل جماعتیں غصے سے مغلوب ہوکر ’’نخرے‘‘ دکھا رہی ہیں۔
عمران حکومت سے اس حد تک ناراض ہوگئی ہیں کہ ’’قومی سلامتی‘‘ سے جڑے اہم ترین امور کے بارے میں ایک قطعاََ غیر سیاسی مگر اہم ترین ریاستی ادارے سے ’’بریفنگ‘‘ لینے کو بھی آمادہ نہیں ہورہیں۔ تاثر یہ بھی پھیلا ہے کہ لندن میں بیٹھے نواز شریف صاحب نے اپنے نام سے منسوب جماعت کے اراکین کو مذکورہ بریفنگ سے دور رہنے کا حکم صادر کیا۔
ان کے ’’ذہنی غلاموں‘‘ نے جب آمناََ و صدقناََ کہہ دیا تو PDM میں شامل دیگر جماعتوں نے بھی سپیکر کی صدارت میں ہونے والی بریفنگ میں جانے سے انکار کردیا۔ جو تاثر آپ تک پہنچا ہے وہ قطعاََ بے بنیاد ہے۔ اندھی نفرت و عقیدت کی بنیاد پر پھیلے ہیجان کے شور و غوغا میں ہم میں سے اکثر کو یاد نہیں رہا کہ عمران حکومت نے ’’کرپشن کے علاوہ‘‘ دیگر تمام معاملات پر اپوزیشن جماعتوں سے ’’صلاح مشورے‘‘ کے لئے چند ہفتے قبل سینئر وزراء پر مشتمل ایک کمیٹی کا اعلان کیا تھا۔ پرویزخٹک کے علاوہ خوش خلق و خوبرو فواد چودھری صاحب بھی مذکورہ کمیٹی کے اہم اراکین میں شامل ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں مگر اس کمیٹی سے مذاکرات پر آمادہ نہیں ہو رہیں۔ انہیں ’’گھیرنے‘‘ کے لئے بالآخر ترکیب یہ لڑائی گئی کہ قومی اسمبلی کے سپیکر جناب اسد قیصر صاحب کے ’’غیر جانب دار‘‘ منصب کو بروئے کار لایا جائے۔
وہ ’’قومی سلامتی‘‘ سے جڑے امور پر ایک ’’بریفنگ‘‘ کا اہتمام کریں۔ اپوزیشن اس میں شرکت سے انکار کرے تو عوام کی نظر میں خود غرض، اناپرست اور ’’قومی سلامتی‘‘ سے لاتعلق نظر آئے گی۔ مذکورہ بالا ’’معجون‘‘ تیار کرتے وقت مگر یہ حقیقت فراموش کردی گئی کہ سپیکر اسد قیصر کی ’’غیر جانبداری‘‘ کا بھرم حال ہی میں منعقد ہوئے پارلیمان کے اس مشترکہ اجلاس کے دوران ہوا میں تحلیل ہوچکا ہے جہاں انتہائی عجلت میں سینٹ سے ’’مسترد‘‘ ہوئے کئی قوانین کو ایک ہی نشست میں منظور کروا لیا گیا تھا۔ جولائی 2018 کے انتخابات کے بعد کم از کم دو برس تک اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں -مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی- نیب کے خوف سے جی حضوری کا رویہ اختیار کرتی رہیں۔ ’’حیف ہے اس قوم پر‘‘ کی دہائی مچاکر دورِ حاضر کے ’’قلندر‘‘ سنائی دیتے جناب آصف سعید کھوسہ صاحب نے سپریم کورٹ سے ریٹائر ہونے سے قبل پارلیمان کی جانب ایک ’’بم‘‘ اچھالا تھا۔ عوام کے ووٹوں سے براہِ راست منتخب ہوئی نام نہاد ’’خودمختار اور سب پر بالادست‘‘ قومی اسمبلی کو انہوں نے حکم دیا کہ ایک اہم ترین ریاستی ادارے کے سربراہ کی معیادِ ملازمت میں توسیع کو ’’باقاعدہ‘‘ بنانے کے لئے قانون سازی ہو۔ ان کے حکم نے محلاتی سازشوں کی ماری قوم کو اس فکر میں مبتلا کردیا کہ پارلیمان میں بھاری بھر کم اکثریت میسر نہ ہونے کے سبب عمران حکومت مطلوبہ قانون منظور نہیں کرواپائے گی۔ ’’جمہوری نظام‘‘ اس کی وجہ سے ایک بار پھر طویل رخصت پر چلاجائے گا۔ مطلوبہ قانون منظور کروانے کے لئے تاہم چند ’’ملاقاتیں‘‘ ہونا شروع ہوگئیں۔ ان کی بدولت نواز شریف ’’سزا یافتہ مجرم‘‘ ہوتے ہوئے بھی جیل سے پہلے ہسپتال اور بعدازاں لندن بھیج دئیے گئے۔ مطلوبہ قانون کا متن دیکھے بغیر ہی اس کے بعد قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف جناب شہباز شریف صاحب نے اس کی ’’غیر مشروط حمایت‘‘ کا اعلان کردیا۔ اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت -پیپلز پارٹی- اس اعلان سے ہکا بکا رہ گئی۔بلاول بھٹو زرداری نے اس کے باوجو دمطلوبہ قانون میں چند ’’ہومیوپیتھک‘‘ ترامیم متعارف کروانے کی کوشش کی۔ بالآخر آصف علی زرداری سے رابطہ ہوا اور مطلوبہ قانون دونوں ایوانوں سے 12-12 منٹ میں منظور ہوگیا۔ تاریخ ساز عجلت میں ہوئی اس منظوری نے اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کی محدودات بھی عیاں کردیں۔ مذکورہ قانون کے بعد پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کی گرے لسٹ سے نکالنے کے نام پر تقریباََ دس نئے قوانین کا مسودہ تیار ہوا۔ یہ مسودہ پارلیمان میں تفصیلی بحث کا مستحق تھا۔ اپوزیشن جماعتوں کو مگر ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ میں اس امر پر قائل کردیا گیا کہ وہ رات گئے تک سپیکر قومی اسمبلی کے سرکاری گھر میں بیٹھ کر مذکورہ قوانین پر خاموشی سے ’’اتفاق رائے‘‘ کی راہ نکالیں۔
جناب اسد قیصر صاحب کے سرکاری گھر پر ابھی یہ ملاقاتیں جاری تھیں کہ شاہ محمود قریشی صاحب ایک دن مست ہاتھی کی طرح پارلیمان کے اجلاس میں داخل ہوئے۔ اپنی نشست پر پہنچتے ہی مائیک سنبھالا اور ایک دھواں دھار تقریر کے ذریعے عوام کو یہ ’’خبر‘‘ دی کہ ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ میں تیار ہوئے قوانین کی منظوری میں تعاون کے بدلے مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی اپنے ’’بدعنوان‘‘ اور مبینہ طور پر ’’منی لانڈرنگ‘‘ کے عادی رہ نمائوں کے لئے NRO کی طلب گار ہیں۔ یہ اطلاع دینے کے بعد انہوں نے انتہائی رعونت سے اعلان یہ بھی کیا کہ کرپشن کا خاتمہ عمران خان صاحب کی سیاست کا کلیدی ایجنڈا ہے۔ وہ اس تناظر میں ذرا سی رعایت دینے کو بھی ہرگز تیار نہیں ہوں گے۔ مخدوم صاحب کی اپوزیشن جماعتوں کو ’’خودغرض‘‘ اور ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ سے بے خبر ٹھہراتی تقریر کے باوجود فروغ نسیم صاحب نے چکنی چپڑی باتوں سے بالآخر انہیں رام کرلیا۔ پاکستان کو FATF کی گرے لسٹ سے نکالنے کے نام پر تیار ہوئے قوانین قومی اسمبلی اور سینٹ میں یکایک منظور ہونا شروع ہوئے تو ایک اہم قانون کی منظوری کے بعد ایوانِ بالا کے قائد ایوان ڈاکٹر وسیم شہزاد نے کھڑے ہوکر مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی سے وابستہ سینیٹروں کو شریف اور زرداری خاندان کے ’’ذہنی غلام‘‘ پکارا۔ اپوزیشن کی پچھلی نشستوں پر بیٹھے چند ’’ذہنی غلاموں‘‘ نے اس کے بعد بغاوت کا اعلان کردیا۔ حکومت کو بالآخر ’’مسترد‘‘ ہوئے قوانین کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے منظور کروانا پڑا۔ مذکورہ قوانین کو جس انداز میں بالآخر پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے منظور کروایا گیا وہ حقیقی معنوں میں PDM کی تشکیل کا باعث ہوا۔ اس کے قیام کے بعد پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں جلسوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔ عمران حکومت مگر ابھی تک سمجھ نہیں پارہی کہ انگریزی محاورے والا بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزرچکا ہے۔ اب ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ کے نام پر اپوزیشن کو گھیرا نہیں جاسکتا۔ نیب کا دبدبہ بھی قانونِ تقلیل افادہ کی زد میں آچکا ہے۔ ’’قومی سلامتی‘‘ کے امور سے جڑے معاملات پر اتفاق رائے کے حصول کے لئے اب قومی اسمبلی کے قائدِ ایوان یعنی وزیر اعظم عمران خان صاحب کی پہل کار ی درکار ہے۔ وہ مگر ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ سے ہاتھ ملانے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے کاندھوں پر آئی ذمہ داری ’’کوئی اور‘‘ نبھائے۔ ’’کوئی اور‘‘ مگر ایک حد تک ہی Outsourcing کا بوجھ اٹھاسکتے ہیں۔ اسد قیصر اس ضمن میں کام آ نہیں سکتے۔
اسد قیصر صاحب اگر اپوزیشن کو ’’قومی سلامتی‘‘ کے نام پر ہوئی بریفنگ میں مدعو کرنے کو واقعتا سنجیدہ ہوتے تو اس میں شرکت کے لئے ان دنوں جیل میں مقید قائد حزب اختلاف کے لئے ’’پروڈکشن آرڈر‘‘ بھی جاری کرسکتے تھے۔ پروڈکشن آرڈر کی بدولت شہباز شریف کے اسلام آباد آنے کے بعد مسلم لیگ (نون) کے لئے اسد قیصر کی جانب سے بلائے اجلاس میں شرکت سے انکار کافی دشوار ہوجاتا ۔ عمرا ن حکومت مگر سمجھ ہی نہیں رہی کہ اپوزیشن جماعتیں اب ’’سو پیاز اور سو جوتوں ‘‘ کے لئے ہرگز تیار نہیں ہوں گی۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ