نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مہنگائی کی دو دھاری تلوار ۔۔۔حیدر جاوید سید

”ملک میں غریب آدمی جتنا خوشحال آج ہے تاریخ میں کبھی نہیں ہوا، اپوزیشن والے اپنی چوریاں چھپانے کیلئے عوام کو گمراہ کر رہے ہیں”

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابھی کل کی بات ہے، پیاز 100روپے کلو، ٹماٹر215روپے کلو،آلو80روپے کلو،سبز مرچ90روپے پاو، ادرک 180روپے پاو اور مفت میں ملنے والا دھنیا بھی قیمت سے ملا۔ ضروریات زندگی کا سامان خرید کر بازار سے گھر لوٹا تو وزیراعظم کا بیان ٹی وی چینل پر نشر ہورہا تھا

”ملک میں مہنگائی اپوزیشن کا پروپیگنڈہ ہے”

کچھ دیر بعد آپا فردوس عاشق اعوان ٹی وی سکرین پر نمودار ہوئیں اور کہنے لگیں

”ملک میں غریب آدمی جتنا خوشحال آج ہے تاریخ میں کبھی نہیں ہوا، اپوزیشن والے اپنی چوریاں چھپانے کیلئے عوام کو گمراہ کر رہے ہیں”

مجھے بھی یاد آیا ایک بار (اس وقت آپا جی وزیراعظم کی مشیر اطلاعات ہوا کرتی تھیں) انہوں نے کہا تھا کہ مٹر 5روپے کلو ہیں، لوگ ایویں شور مچا تے رہتے ہیں۔ جس دن فردوس عاشق اعوان یہ فرما رہی تھیں اُس دن مٹر 320روپے کلو تھے۔

کچھ دیر بعد مادر مہربان کے شہر ملتان کیلئے روانہ ہونا ہے، ورنہ بازار جاکر سبزی فروش سے یہ ضرور دریافت کرتا کہ وہ نون لیگ، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی میں سے کس جماعت کا ایجنٹ ہے اور کیوں حکومت کو بدنام کرنے کیلئے مہنگی سبزیاں بیچ رہا ہے؟

ویسے ہمارے سبزی فروش کا ظاہری حلیہ تو اسے جے یو آئی کا حامی بتاتا ہے لیکن ہوسکتا ہے کہ وہ مولانا خادم حسین رضوی کی تحریک لبیک کا ہمدرد ہو۔

اچھا ویسے اگر مہنگائی اپوزیشن کا پروپیگنڈہ ہے تو چند دن قبل وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم اور متعدد وفاقی وزراء نے مہنگائی سے عوام کی بنتی درگت پر تشویش کیوں ظاہر کی؟

کل بھی انہوں نے فرمایا غذائی اشیاء کی قیمتوں پر کڑی نظر رکھی جائے۔

فقیر راحموں کہتے ہیں حکومت اپوزیشن کے سبزی و پرچون فروشوں اور دوسرے دکانداروں کیخلاف انسداد دہشتگردی کی عدالتوں میں مقدمہ چلائے اور ان کی جگہ ٹائیگر فورس کے رضاکاروں کو دکانیں کھلوا کر دے تاکہ ضرورت زندگی کی اشیاء دوسال قبل کی قیمت پر فروخت ہوسکیں۔

فقیر راحموں بادشاہ آدمی ہے، آپ اس کی بات کو سنجیدہ بالکل نہ لیں، بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سبزی وپرچون فروشوں کیخلاف انسداد دہشتگردی کی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے؟

یہاں فورتھ شیڈول میں شامل افراد جلسے کرتے جلوس نکالتے اور انتخابات لڑتے ہیں، فقیر راحموں نے جواب اُچھالتے ہوئے کہا

شاہ جی! مہنگائی دہشت گردی سے بھی بڑا بلکہ گھناؤنا جرم ہے۔

یہ بات کس حد تک درست ہے مگر یہ حکومت اور متعلقہ محکموں مارکیٹ کمیٹیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ روزمرہ ضرورت کی اشیاء مقررہ داموں پر فروخت کو یقینی بنائیں۔

ان سطور میں قبل ازیں تفصیل کیساتھ مہنگائی کی بنیادی وجوہات بارے عرض کر چکا ہوں، ایک بات دوبارہ عرض کئے دیتا ہوں۔

آن لائن اشیائے ضرورت فروخت کرنے والی ایپس 85روپے کلو پیاز اور90روپے کلو ٹما ٹر صارف کے گھر کی دہلیز پر پہنچا رہی ہیں لیکن یہ بڑے شہروں کے چونچلے ہیں۔

چند دن اُدھر ایک عزیز آبائی گاوں سے کسی کام لاہور تشریف لائے تو ان سے ملاقات ہوئی، دوسرے موضوعات کیساتھ مہنگائی پر بھی انہوں نے معلومات فراہم کیں۔

بتارہے تھے کہ گاوں میں چینی 125روپے کلو مل رہی ہے۔ اس طرح روزمرہ ضرورت کی دوسری اشیاء ہیں جو قریبی شہر کی قیمتوں سے پندرہ بیس فیصد زائد پر فروخت ہوتی ہیں۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حکومت کا تساہل اپنی جگہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے پرچون فروش دکاندار بھی اپنی مرضی کا نرخ بتاتے ہیں۔

لیجئے مہنگائی کا رونا روہے تھے کہ ایک اور خبر بجلی

بن کر گری، نیپرا نے بجلی کے فی یونٹ قیمت میں ایک ماہ کیلئے 48پیسے کا اضافہ کر دیا ہے۔

پچھلے دوسوا دو سالوں کے دوران بجلی کے نرخ تواتر کیساتھ بڑھائے جارہے ہیں، کبھی فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر، کبھی لائن لاسنگ اور کبھی آئی ایم ایف کے دباو پر۔ ایک عام گھر کے بجلی کے بل میں دوسال کے دوران جو اضافہ ہوا اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ستمبر2019ء میں بجلی کا جو بل15ہزار روپے آیا تھا ستمبر2020 میں وہی بل 27ہزار روپے تھا۔

استعمال وہی ستمبر 2019 والا ہے بلکہ کچھ کچھ احتیاط واجب کر لی ہے۔

صاف سیدھا فارمولہ ہے وہ یہ کہ جب بھی بجلی اور پیٹرولیم کے نرخ بڑھتے ہیں مہنگائی کی ایک نئی لہر شہریوں کی زندگی اجیرن کر دیتی ہے۔

گزشتہ سالوں میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں سالانہ بنیادوں پر ملازمین کو ریلیف دیتی تھیں (تنخواہوں اور پنشنوں میں) امسال تو ہری جھنڈی دکھا دی گئی، یہ الگ بات ہے کہ کچھ وفاقی محکموں نے داخلی انتظامات کے تحت اپنے ملازمین کیلئے بندوبست کر لیا،

عمومی صورتحال یہی ہے۔

ایک دوست جو پچھلے دنوں پارٹ ٹائم جاب تلاش کر رہے تھے ان سے وجہ دریافت کی تو انہوں نے آنسو چھپاتے ہوئے کہا 29ہزار روپے تنخواہ میں سے11ہزار روپے مکان کا کرایہ، 7ہزار روپے بجلی کا بل چلا جاتا ہے، باقی کے 11ہزار روپے میں گھر کے پانچ افراد کیسے زندہ رہ پائیں گے۔ آپ اپنے چار اور کے لوگوں اور دوستوں کو ذرا کرید کر دیکھیں ہر گھر میں ایک نئی کہانی ہے اور ہر کہانی آپ کو رونے پر مجبور کردے گی۔

مگر ہمارے وزیراعظم کہہ رہے ہیں

”مہنگائی اپوزیشن کا پروپیگنڈہ ہے”۔

About The Author